اوورسیز پاکستانی اور ڈیجیٹل پاکستان کا خواب
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
حالیہ دنوں وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے خطاب میں ایک جملہ کہا جو گویا ہر بیرون ملک پاکستانی کے دل کی آواز تھا: ’ہر پاکستانی جہاں بھی ہو، پاکستان کا سفیر ہے، اُسے وطن کے وقار کا دفاع کرنا ہے اور سچائی کی آواز بننا ہے۔ یہی بات چند روز قبل چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر نے سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف پھیلنے والی جھوٹ پر مبنی مہمات کے تناظر میں کہی کہ قوم کے اندر سے ایک منظم اور مربوط جواب وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان دونوں قائدانہ بیانات نے قوم کو نہ صرف خبردار کیا بلکہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو مخاطب کر کے ایک نیا تقاضا ان کے سامنے رکھا۔ وطن کا دفاع، سچائی کی تبلیغ، اور قومی بیانیے کی ترجمانی۔
ان الفاظ کی بازگشت سن کر، دیارِ غیر میں بسنے والا ہر پاکستانی ایک لمحے کے لیے رُک کر ضرور سوچتا ہے: کیا میرا وطن بھی میرے لیے وہی کردار ادا کر رہا ہے، جس کی مجھ سے توقع رکھتا ہے؟ کیا جس محبت اور وابستگی کے ساتھ میں پردیس کی ریت میں پاکستان کے نام پر اپنا خون پسینہ بہاتا ہوں، وہی احساس ریاستی نظام میں میرے لیے موجود ہے؟
اوورسیز پاکستانی کوئی اجنبی برادری نہیں، وہی لوگ ہیں جو اپنے خواب، خاندان، اور بچپن کی گلیاں پیچھے چھوڑ کر دیارِ غیر میں اپنی اور اپنے وطن کی قسمت سنوارنے نکلے۔ ان میں محنت کش بھی ہیں، پیشہ ور بھی، اور کاروباری حضرات بھی۔ ان کی ترسیلات زر، ان کی دعائیں، ان کی سفارتی نمائندگی اور ان کا کردار ہر اُس مقام پر پاکستان کے لیے وقار کا باعث ہے جہاں پرچمِ سبز و سفید براہِ راست نہیں لہراتا۔
تاہم، ان کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وطنِ عزیز کا نظام، اُن کے ساتھ محض زرمبادلہ کے رشتے سے نہ جُڑا ہو، بلکہ ایک ایسا تعلق قائم ہو جو سہولت، عزت، شمولیت اور انصاف پر مبنی ہو۔ ان کی توقعات کوئی غیرمعمولی نہیں وہ صرف چاہتے ہیں کہ انہیں بھی وہی ریاستی خدمات دی جائیں جو ملک میں موجود کسی شہری کو حاصل ہیں، چاہے وہ خدمات شناختی کارڈ کی تجدید سے ہوں یا تعلیمی اسناد کی تصدیق سے، جائیداد کی ملکیت ہو یا قانونی معاونت، ریکارڈ تک رسائی ہو یا معلومات کی فراہمی۔
مگر افسوس کہ آج بھی لاکھوں پاکستانی صرف ایک زمین کی فرد، کسی مقدمے کی تفصیل، یا تعلیمی دستاویز کی تصدیق کے لیے پاکستان آنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جہاں مصنوعی ذہانت، بلاک چین، اور ڈیجیٹل گورننس جیسے تصورات نے قوموں کی بیوروکریسی کو ایک ایپ میں سمو دیا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ پاکستان بھی ایک ایسا مرکزی اور مربوط ڈیجیٹل نظام قائم کرے جو ہر پاکستانی خواہ وہ گلگت میں ہو یا ریاض میں، ساہیوال میں ہو یا دبئی میں اپنے شناختی کارڈ کے ذریعے ریاست سے جڑا ہو؟
شناختی کارڈ کو ایک ایسا قومی کوڈ بنایا جائے جو تمام اداروں (نادرا، ایف بی آر، محکمہ مال، تعلیمی بورڈز، عدالتیں، پولیس، وزارت خارجہ) سے منسلک ہو۔ ہر پاکستانی شہری کو ایک ایسا پورٹل فراہم کیا جائے جہاں وہ دنیا کے کسی بھی کونے سے لاگ ان ہو کر اپنی تمام معلومات، دستاویزات، اور درخواستیں مکمل کر سکے۔ تحقیق کے لیے بھی شناختی کارڈ ہی کلید بنے جیسے شہریت ہے، ویسے ہی سہولت ہو۔
یہ صرف ایک سہولت نہیں، یہ ریاست اور شہری کے درمیان رشتے کی از سرِ نو تعریف ہوگی۔ یہ وہ لمحہ ہوگا جب ایک اوورسیز پاکستانی پہلی بار خود کو محض ترسیلات کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک مکمل پاکستانی شہری محسوس کرے گا۔
اب آئیے وزیرِ اعظم کے دوسرے بیان کی طرف پروپیگنڈے کا مقابلہ اور پاکستان کا دفاع۔ دنیا بھر، خاص طور پر عرب دنیا میں، پاکستان کے خلاف جھوٹے بیانیے، افواہیں اور پروپیگنڈا مہمات وقتاً فوقتاً شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ افسوس کہ ان مہمات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی مؤثر، ریاستی سطح پر منظم عربی زبان کا پلیٹ فارم موجود نہیں۔ جب دشمن ہماری شناخت عربی زبان میں مسخ کرتا ہے تو ہماری خاموشی گویا تائید بن جاتی ہے۔
یہاں ایک قومی ضرورت ابھرتی ہے: پاکستان کو ایک ایسا سنٹرل عربی میڈیا پلیٹ فارم قائم کرنا چاہیے جو عرب دنیا کے ناظرین کو پاکستان کی درست تصویر پیش کرے، دوست ممالک سے تعلقات کو ثقافتی اور علمی بنیادوں پر مضبوط کرے، اور مخالفین کی عربی زبان میں کی جانے والی مہمات کا محقق اور شائستہ جواب دے۔ یہ مرکز نہ صرف دفاعی بیانیہ بنائے بلکہ پاکستان کے مثبت پہلو تعلیم، مذہب، ثقافت، ترقی، خواتین، اور سائنس کو عرب دنیا کے سامنے رکھے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اوورسیز پاکستانی ان مہمات میں پاکستان کے سب سے بڑے محافظ ثابت ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ وہاں کی زبان، معاشرت اور سوچ سے واقف ہیں۔ اگر ریاست انہیں مواد، تربیت، اور ایک مربوط پلیٹ فارم فراہم کرے تو وہ محض ترسیلات بھیجنے والے نہیں بلکہ نظریاتی صفوں کے اولین سپاہی بن سکتے ہیں۔
جہاں تنقید ہو وہاں انصاف بھی لازم ہے۔ حکومتِ پاکستان نے حالیہ مہینوں میں کچھ خوش آئند اقدامات کیے ہیں: جیسے تعلیمی اداروں میں اوورسیز پاکستانیوں کے بچوں کے لیے کوٹہ، ایف بی آر میں فائلر کی حیثیت، خواتین کی عمر کی رعایت، اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ جیسے منصوبے۔ وزیرِ اعظم کا خطاب بھی اسی شعور کی ایک کڑی ہے۔ یہ سب اقدامات قابلِ تحسین ہیں، مگر اب وقت ہے ان اقدامات کو ایک جامع اور مستقل قومی پالیسی کا حصہ بنایا جائے، تاکہ اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ یہ تعلق وقتی نہ ہو بلکہ پائیدار ہو۔
اوورسیز پاکستانی کسی گوشے میں بیٹھے خاموش تماشائی نہیں، وہ اُس قومی جسم کی زندہ رگیں ہیں جو وطن سے ہزاروں میل دور بھی دھڑک رہی ہیں۔ اگر انہیں ریاست کی سہولت، عزت، اور رابطہ حاصل ہو جائے تو وہ صرف بیرون ملک سفیر نہیں، پاکستان کے سب سے بڑے محافظ، مشیر، اور معمار بن سکتے ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم انہیں وہ پاکستان دیں جو ان کے دل میں ہے، سہل، جڑا ہوا، باوقار، اور جواب دہ۔ یہ نہ صرف ان کا حق ہے، بلکہ ہماری قومی حکمت، سفارتی ضرورت، اور انصاف کی تکمیل بھی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اوورسیز پاکستانی اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل ڈیجیٹل پاکستان کا خواب اوورسیز پاکستانی شناختی کارڈ ہر پاکستانی پاکستان کا پاکستان کے ایک ایسا کے ساتھ کو ایک کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ: تنازعات کے پرامن حل سے متعلق پاکستانی قرارداد منظور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) نے منگل کے روز پاکستان کے زیر اہتمام اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا، جس کا مقصد تنازعات کے پرامن حل کے طریقہ کار کو مضبوط کرنا ہے۔
پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اس وقت نیویارک کے دورے پر ہیں اور انہیں کے زیر صدارت اجلاس کے دوران "تنازعات کے پرامن حل کے لیے میکانزم کو مضبوط بنانے" والی (قرارداد 2788) پیش کی گئی اور پھر کھلی بحث کے دوران منظور کر لی گئی۔
قرارداد میں کیا ہے؟اس قرارداد میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا گیا ہے وہ تنازعات سے بچنے کے لیے احتیاطی سفارت کاری، ثالثی اور بات چیت کا راستہ استعمال کریں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب ششم کے تحت پرامن تنازعات کے حل کے لیے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کریں۔
(جاری ہے)
قرارداد میں علاقائی اور ذیلی علاقائی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے درمیان قریبی تعاون پر بھی زور دیا گیا ہے تاکہ تنازعات کو بات چیت اور اعتماد سازی کے اقدامات کے ذریعے حل کیا جا سکے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے اجلاس میں کیا کہا؟جولائی کے مہینے میں سلامتی کونسل کے صدر کی حیثیت سے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس اجلاس کی صدارت کی اور بحث کے دوران قرار داد کی منظوری کو "تصادم پر سفارت کاری کے لیے عالمی عزم کی اجتماعی توثیق" قرار دیا۔
"کثیر جہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن و سلامتی کو فروغ دینا" کے عنوان پر اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ کثیرالجہتی "محض سفارتی سہولت نہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔
"ان کا مزید کہنا تھا، "تنازعات کا پرامن تصفیہ صرف ایک اصول نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی استحکام کی لائف لائن ہے۔"
انہوں نے خبردار کیا کہ حل نہ ہونے والے تنازعات، جغرافیائی سیاسی رقابتیں اور چن چن کر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ صرف بین الاقوامی امن کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ کثیر جہتی اداروں میں اعتماد کو بھی ختم کر رہا ہے۔
انہوں نے سکیورٹی کونسل کے تمام اراکین کا ان کی "تعمیری مصروفیت" کے لیے شکریہ ادا کیا اور قرار داد کی متفقہ منظوری کو "تنازعات کی روک تھام کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کو آگے بڑھانے کے لیے اجتماعی ارادے کا خوش آئند اظہار" قرار دیا۔
کشمیر کا تنازعہ بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت حل ہوتنازعہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ نے ایک بار پاکستان کے موقف کو دہرایا اور کہا کہ یہ "تنازعہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ایجنڈے میں سب سے پرانی چیزوں میں سے ایک" ہے۔
انہوں نے کہا کہ "کوئی کاسمیٹک اقدام کشمیری عوام کے اس بنیادی اور ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کا متبادل نہیں بن سکتا، جس کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی ضمانت دی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن وہ نئی دہلی سے بھی "باہمی تعاون اور اخلاص" کی توقع رکھتا ہے۔
ڈار نے نئی دہلی کی جانب سے سندھ آبی معاہدے (انڈس واٹر ٹریٹی) کو معطل کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کی اور اسے "غیر قانونی اور یکطرفہ" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ 65 سال پرانا معاہدہ "کامیاب سفارت کاری کا نمونہ" ہے اور بھارت پر الزام لگایا کہ وہ 240 ملین پاکستانیوں کے لیے ضروری پانی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے کئی تنازعات کی جڑ کے طور پر "کثیرالجہتی کے بحران" کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: "مسئلہ اصولوں کا نہیں بلکہ سیاسی ارادے کا ہے، اداروں کا نہیں بلکہ ہمت کا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ساکھ دوہرے معیار اور انسانی اصولوں پر سیاست کرنے سے مجروح ہوئی ہے۔"اپنے خطاب کے اختتام پر وزیر خارجہ نے بیان بازی کے بجائے ٹھوس کارروائی پر زور دیا۔ "اس بحث کو کثیرالجہتی میں ہمارے ایمان کے اثبات کے طور پر کام کرنے دیں اور ان لوگوں سے ایک پختہ وعدہ کریں جو اس کونسل کی جانب محض الفاظ کے لیے نہیں، بلکہ عمل کے لیے نظریں لگائیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر بات چیت کے پلیٹ فارم، انصاف اور پائیدار امن فراہم کرنے والے ادارے کے طور پر، ہمیں اسے مزید متعلقہ بنانا چاہیے۔" بھارت کی پاکستان پر تنقیداس موقع پر اقوام متحدہ میں بھارتی مندوب نے پاکستان پر بھارتی حملوں کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ اس نے "دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہی نشانہ بنایا۔
اور کہا کہ بھارت "اقوام متحدہ کی امن فوجوں میں سب سے بڑا حصہ دینے والا ملک ہے اور امن فوج میں خواتین کو فروغ دینے میں پیش پیش ہے۔"بھارتی مندوب ہریش نے پاکستان پر نکتہ چینی کرنے کے لیے بھارتی معیشت کی ترقی کو اجاگر کیا اور کہا بھارت ایک بڑی معیشت کے طور پر ابھر رہا ہے، جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی بنیاد پر ٹکا ہے۔
انہوں نے کہا، "بھارت برصغیر میں ترقی اور خوشحالی اور ترقی کے ماڈلز کے طور پر ایک بالکل برعکس تصویر پیش کرتا ہے۔"
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ "قوم کے خیالات اور فریقین کی رضامندی تنازعات کے پرامن حل کے حصول کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں"، بھارتی سفارت کار نے نتیجہ اخذ کیا کہ "بھارت کثیرالجہتی اور تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔"
انہوں نے اقوام متحدہ کے کام کاج کے طور طریقوں پر بھی تنقید کی اور کہا کہ "ہم ایک ایسے وقت میں ہیں، جہاں کثیرالجہتی نظام، خاص طور پر اقوام متحدہ کے بارے میں شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔"
ادارت: جاوید اختر