آزادئ مذہب اور آزادئ رائے کا مغربی فلسفہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیو ستہ)
یہ فرق ہمارے ہاں ہے۔ اختلاف کی بات کو ہم نے ہمیشہ برداشت کیا ہے، جواب دیا ہے، لیکن توہین کبھی برداشت نہیں کی۔ معروف دانشور ہیں سر ولیم مور لندن سے، حضورؐ کی سیرت پر ان کی کتاب چھپی ’’دی لائف آف محمد‘‘ اس میں مصنف نے جتنے اعتراضات کیے سر سید نے جواب میں پوری کتاب لکھی ہے۔ لیکن سلمان رشدی کی کتاب کا کسی نے جواب نہیں لکھا، کیونکہ اس میں گالیاں ہیں، توہین ہے، استہزا اور طعن ہے۔
میں نے عرض کیا کہ یہ بنیادی مسئلہ ہے کہ رائے کسے کہتے ہیں، اختلاف کسے کہتے ہیں، اور استہزا اور طعن کسے کہتے ہیں؟ کون سی رائے کا حق ہے اور کون سی رائے کا حق نہیں ہے؟ مغرب یہ دھاندلی کر رہا ہے کہ توہین اور استہزا کو رائے قرار دے کر انبیاء اور مذہب کی توہین کا حق مانگ رہا ہے، جو ہم نہیں دیتے۔
اس مسئلے کو ایک اور زاویے سے دیکھ لیں۔ جب مغرب سے بات ہوتی ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ دیکھو انبیاء کرامؑ تو بہت اونچی شخصیات ہیں، ساری کائنات کا خلاصہ ہیں۔ آج کے دور میں دنیا کے ہر ملک میں دو قوانین موجود ہیں:
ایک تحفظِ ناموس کا اور ہتکِ عزت کے خلاف داد رسی کا قانون۔ ہمارے ملک میں بھی ہے، امریکہ میں بھی ہے، روس اور چائنہ وغیرہ ہر ملک میں یہ قانون ہے کہ ملک کا کوئی شہری کسی شہری کے بارے میں یہ دعوٰی کرے کہ اس نے میری توہین کی ہے جس میری عزت مجروح ہوئی ہے، تو اس کا قانون موجود ہے۔ عدالت اسے انسانی حقوق کا چارٹر نہیں پڑھائے گی بلکہ اس کی درخواست وصول کرے گی، تحقیق کرے گی، اور اگر جرم ثابت ہو جائے تو توہین کرنے والے کو سزا دے گی۔
میں ان سے پوچھا کرتا ہوں کہ جب ایک عام شہری کی ہتکِ عزت جرم ہے تو کیا انبیاء کرامؑ کی ہتکِ عزت بھی جرم ہے یا نہیں ہے؟ جب میری ہتک عزت ہو تو عدالت تحقیق کرے گی، ثابت ہونے پر اس کو سزا دے گی۔ مجھے عزت کے تحفظ کا حق حاصل ہے، میری ہتک عزت کو قانون جرم کہتا ہے۔ حضرات انبیاء کرامؑ کی عزت و حرمت میں اور ہماری عزت میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ہم اور ان میں ہے۔ اور توہین کے درجے میں بھی اتنا ہی فرق ہے، تو ان کی ہتک عزت جرم کیوں نہیں ہے؟ مغرب اس بات کو قبول نہیں کر رہا۔ اس وقت عملی صورتحال یہ ہے کہ میری توہین تو جرم ہے، انبیاءؑ کی توہین جرم نہیں ہے، نعوذ باللہ۔
دوسرا قانون ہے ازالۂ حیثیت عرفی کا قانون۔ یہ شخصی عزت و توہین سے ہٹ کر دوسرا قانون ہے۔ وہ یہ ہے کہ میں معاشرے میں ستر سال سے رہ رہا ہوں، میری معاشرے میں ایک حیثیتِ عرفی ہے، لوگوں کی نظر میں ادب و احترام اور ایک مقام ہے۔ اگر کسی آدمی کی کسی بات سے یا کسی حرکت سے میری حیثیتِ عرفی مجروح ہوتی ہے، میرا معاشرتی اسٹیٹس اور معاشرے میں میرا مقام مجروح ہوتا ہے، تب بھی مجھے داد رسی کے لیے عدالت میں جانے کا حق حاصل ہے۔ مجھے اپنے اسٹیٹس کے تحفظ کے لیے قانونی حق حاصل ہے، قانون میرے اس اسٹیٹس کو تحفظ دیتا ہے۔ یہ قانون امریکہ اور برطانیہ میں بھی ہے، پاکستان میں بھی ہے۔
میرا ان سے سوال یہ ہوتا ہے کہ ظالمو! اوباما کی حیثیتِ عرفی ہے، ٹرمپ کی بھی ہے، پاکستان کے وزیر اعظم کی بھی ہے۔ اس کو کوئی زد پہنچے گی تو وہ عدالت میں جائے گا، قانون موجود ہے، عدالت داد رسی کرتی ہے۔ تمہاری اور میری حیثیت عرفی تو ہے، لیکن انبیاء کرامؑ کی بھی کوئی حیثیتِ عرفی ہے یا نہیں ہے؟ جو کائنات کی بزرگ ترین شخصیات ہیں ان کا بھی کوئی معاشرتی مقام ہے یا نہیں ہے؟ اس کا تحفظ بھی قانون کی ذمہ داری ہے یا نہیں ہے؟
بہرحال ایک ہمارا جھگڑا مغرب سے یہ چل رہا ہے اور اس کا سارا زور اس پر لگ رہا ہے کہ جو مذہب اور مذہبی شخصیات کے حق میں قوانین ہیں، جن میں مذہبی احکام کی توہین کو اور مذہبی شخصیات، انبیاء کرامؑ کی توہین کو جرم قرار دیا گیا ہے، مغرب کا ان پر یہ اعتراض ہے کہ یہ قوانین آزادئ رائے کے منافی ہیں۔ آپ جب بھی مغرب کی این جی اوز کا اور لابیوں کا ایجنڈا اور مطالبات پڑھیں گے تو اس میں یہ مطالبہ ہو گا۔
ابھی پچھلے سال اقوام متحدہ کی کمیٹی نے باقاعدہ اجلاس کیا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں مذہبی توہین کو جرم قرار دینے والے قوانین ختم ہونے چاہئیں۔ اس توہین مذہب میں قرآن پاک کی توہین بھی شامل ہے، بائبل کی بھی شامل ہے، جناب نبی کریمؐ کی بھی شامل ہے، حضرت عیسٰیٰؑ کی توہین بھی شامل ہے۔
الغرض ان کے نزدیک توہینِ مذہب کوئی جرم نہیں ہے، اس پر ایک لطیفہ سنا کر بات ختم کرتا ہوں۔ جس زمانے میں ناروے اور ڈنمارک کے خاکوں کی بات چل رہی تھی تو ناروے کے ایک صحافی نے لکھا کہ مسلمان خواہ مخواہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ہمیں تو حضرت عیسٰیٰؑ کی توہین پر کوئی غصہ نہیں آتا۔ یہ لوگ تو انجوائے اور دل لگی کرتے ہیں معاذ اللہ۔ میں نے اس پر اپنے لہجے میں جواب لکھا، تقریریں بھی بہت کیں، میں نے دو باتیں کہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اصل بات کنکشن کی ہے۔ کنکشن سلامت ہو تو سیٹ میں کچھ خرابی بھی ہو تو بھی ٹوں ٹوں کرے گا، چپ نہیں رہے گا۔ جناب نبی کریمؐ کی ذات گرامی کے ساتھ ہمارا ایمان کا کنکشن الحمد للہ سلامت اور برقرار ہے۔ تمام تر خرابیوں کے باوجود ہمارا کنکشن اس درجے میں سلامت ہے کہ دنیا کا کوئی مسلمان قرآن پاک کی توہین اور جناب نبی کریمؐ کی ذات اقدس کی گستاخی برداشت نہیں کرے گا۔ میں نے کہا کہ تم اپنے کنکشن کی خیر مناؤ کہ کہیں آف تو نہیں ہو گیا۔
دوسری بات یہ کہ اپنے نبیؑ کے ساتھ ہمارا کنکشن کس درجے کا ہے اور تمہارا کس درجے کا ہے؟ تم اپنے کفارے کے عقیدے پر غور کرو۔ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ ساری انسانیت گناہ گار ہے، حضرت عیسٰیٰؑ نے نسلِ انسانی کے گناہوں کا کفارہ سولی پر چڑھ کر دیا ہے۔ اب آگے فلسفہ یہ ہے کہ جو صلیب کے دائرے میں آئے گا وہ ہی کفارے کے دائرے میں بھی آئے گا، اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے۔ اور جو اس دائرے میں نہیں آئے گا وہ گناہ گار پیدا ہوا اور گناہ گار مرا۔ میں نے کہا کہ تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ بدمعاشیاں تم کرو اور سزا حضرت عیسٰیٰؑ بھگتیں۔ تمہارا اپنے نبی سے تعلق یہ ہے۔
اور ہمارے اپنے نبیؐ سے تعلق کی کیا نوعیت ہے، اس کا ایک واقعہ سے اندازہ کر لو۔ بخاری شریف کی طویل روایت ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت خبیبؓ اور حضرت زید بن دثنہؓ کو مکہ والوں نے سزا دینے کا اعلان کیا، ان کو قتل کے لیے لایا گیا، درخت کے ساتھ باندھ کر قتل کیا جانے لگا تو کسی نے کہا خبیب! اگر تمہاری جگہ محمد ہوتے تو تمہاری جان چھوٹ نہ جاتی؟ تڑپ کر اس کی طرف دیکھا اور کہا تم حضورؐ کے بارے میں یہ بات کر رہے ہو، خدا کی قسم مجھے سو جانیں مل جائیں اور ایک ایک کر کے میں قتل کیا جاؤں، مجھے یہ منظور ہے، اور میرے سو قتلوں کے عوض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھے، یہ مجھے منظور نہیں ہے۔ تو یہ اپنے اپنے تعلق کی بات ہے۔
حضرات علماء کرام! میں نے آج کی نشست میں عرض کیا کہ آزادئ رائے کے حوالے سے ہمارا اور مغرب کا تنازعہ کیا ہے؟ یہ مغرب کے ساتھ نظری جنگ کا بھی اور عملی مسائل کی جنگ کا بھی تیسرا دائرہ ہے۔ چوتھے دائرے پر کہ غلامی کیا ہے، اس پر مغرب کا اعتراض کیا ہے اور ہمارا جواب کیا ہے؟ اس پر اگلی نشست میں بات ہو گی، ان شاء اللہ العزیز۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ہے یا نہیں ہے انبیاء کرام بھی شامل ہے میں بھی ہے کی توہین یہ ہے کہ کے ساتھ میں یہ کیا ہے کی بھی ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، شزہ فاطمہ
وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے کہا ہے کہ اگر خواتین معاشرے کی رکاوٹوں اور باہر درپیش مسائل کا ذکر کریں تو انہیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے، مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے یو ایس ایف کے زیر اہتمام آئی سی ٹی شعبے میں خواتین کے عالمی دن 2025 کے سلسلے میں منعقدہ "گرلز ان آئی سی ٹی فار انکلوسیو ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن" کی تقریب سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب میں وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام اور یو ایس ایف کے سینئر حکام، رکن قومی اسمبلی محترمہ شرمیلا فاروقی، موبی لنک مائیکرو فنانس بینک کے سی ای او حارث محمود، جی ایس ایم اے کی کنٹری لیڈ محترمہ سائرہ فیصل، ماہرین تعلیم، ممتاز خواتین آنٹرپرینیورز، ٹیلی کام سیکٹر بشمول جاز، آئی ٹی اور ٹیلی کام انڈسٹری کے نمائندوں نے شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزا فاطمہ نے کہا کہ ایک پاکستانی خاتون کی حیثیت سے انہوں نے ایک نوجوان خاتون کی زندگی میں ٹیکنالوجی کی تبدیلی کا براہ راست مشاہدہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برسوں کے دوران، ٹیکنالوجی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے منصوبے عملی جامہ پہن رہے ہیں جس کے نتیجے میں آج آئی ٹی شعبے میں بہت سی ٹاپ اسٹوڈنٹس خواتین ہیں، اور خواتین کی زیر قیادت ٹیک وینچرز نے عالمی پلیٹ فارمز پر بھی دھوم مچانا شروع کر دی ہے۔
شزہ فاطمہ نے کہا کہ یہ کامیابی ان کے انتھک محنت اور حکومتی معاون پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے، آئیے مل کر ایک ایسا پاکستان بنائیں جہاں ہر لڑکی اپنی صلاحیتوں کو پورا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے استفادہ کرسکے اور جہاں بااختیار بنانا کوئی خواب نہیں بلکہ ڈیجیٹل حقیقت ہو۔
نیشنل براڈ بینڈ اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے وفاقی وزیر برائے آئی ٹی شزہ فاطمہ نے کہا کہ اپنے قیام سے اب تک یو ایس ایف نے بلاامتیاز ملک کے چاروں صوبوں میں 161 منصوبوں کے ذریعے 4،400 موبائل ٹاورز لگائے ہیں جبکہ 17 ہزار 200کلومیٹر طویل آپٹیکل فائبر کیبل کے ذریعے ایک ہزار سے زائد ٹاؤنز اور یونین کونسلوں کو منسلک کیا گیا ہے۔
اس طرح اب تک مجموعی طورپر دور دراز علاقوں کے 3 کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد کو ڈیجیٹل سروسز فراہم کی گئی ہیں جس کی وجہ سے ان میں سے بہت سے علاقوں میں خواتین اور لڑکیاں پہلی بار ڈیجیٹل دنیا سے منسلک ہوتے ہوئے اپنی تعلیم، معلومات میں اضافے کے ساتھ، کاروبار کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی سہولیات سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سال وزیر اعظم نے یو ایس یف کو 23 ارب روپے کے فنڈز دیئے ہیں۔
وفاقی وزیر ائی ٹی نے کہا کہ ہماری وزارت ملک کے نوجوانوں خاص طور پر خواتین کو با اختیار بنانے اور ڈیجیٹل سہولیات کی فراہمی کیلئے ہر ممکن تعاون اور اقدامات کررہی ہے۔
شزہ فاطمہ نے کہا کہ وزارت آئی ٹی خواتین کو ہرسطح پر سپورٹ کرتی ہے،برابری کا ماحول پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہیں، خواتین کے ساتھ ہمارے معاشرے اور مردوں کا رویہ لمحہ فکریہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر خواتین معاشرے کی رکاوٹوں اور باہر درپیش مسائل کا ذکر کریں تو انہیں گھر بٹھا دیا جاتا ہے، مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، ہماری خواتین میں کوئی کمی نہیں، ملک ترقی اسلئے نہیں کرتا کہ آدھی آبادی کو بہترماحول میسر نہیں۔