ملک کی بڑی تاجر تنظیموں کاغزہ کو بچانے کے لئے 26اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
ملک کی بڑی تاجر تنظیموں کاغزہ کو بچانے کے لئے 26اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 17 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سٹی رپورٹر) ملک کی بڑی تاجر تنظیموں نےقبلہ اول کے تحفظ، غزہ کو بچانے اور فلسطین کی آزادی کے لئے 26اپریل کو ملک بھر میں شڑ ڈاون ہڑتال کا اعلان کر دیا ہےجبکہ مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چوہدری اور صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلو چ نے کہا ہے کہ حافظ نعیم الرحمان امیر جماعت اسلامی پاکستان کی ھڑتال کی اپیل کو سراھتے ھیں ،حافظ نعیم الرحمان امیر جماعت اسلامی پاکستان سے تاجران پاکستان گزارش کرتے ھیں کہ وہ اس دن کو متفقہ مشترکہ تاریخ ساز فقہید المثال ھڑتال بنا کر اھل غزہ کو پاکستان کی طرف سے ہمت و جرات کا پیغام دیں
جمعرات کوتاجر رہنماوں محمدکاشف چوھدری صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان، صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلوچ،شاھد غفور پراچہ ،شرجیل میر و دیگر تاجر قائدین نے نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر کے تاجر اہل غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔کاشف چوہدری صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان نے کہا کہ ملک بھر کے تاجر غزہ کو بچانے کےلئے 26اپریل کو شٹر ڈاون ہڑتال کریں گے ،کراچی سے لیکر خیبر تک بشمول ازاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں شٹر ڈاون ہوگا کاشف چوہدری نے کہا کہ تاجروں سمیت عوام اسرائیلی مصنوعات کابائیکاٹ کریں ۔جماعت اسلامی اور الخدمت کی فلسطین میں جاری امدادی سرگرمیوں کو۔حکومتی سطح پر سراہا گیا اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے قومی اسمبلی اجلاس میں جماعت اسلامی اور الخدمت کی امدادی سرگرمیوں کو سراہا حافظ نعیم الرحمان امیر جماعت اسلامی پاکستان کی ھڑتال کی اپیل کو سراھتے ھیں ،حافظ نعیم الرحمان امیر جماعت اسلامی پاکستان سے تاجران پاکستان گزارش کرتے ھیں کہ وہ اس دن کو متفقہ مشترکہ تاریخ ساز فقہید المثال ھڑتال بنا کر اھل غزہ کو پاکستان کی طرف سے ھمت و جرات کا پیغام دیں
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے تاجر فلسیطین کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں فلسطین کے مسلمان سو سال سے قربانیاں دے رہے ہیں گزشتہ گیارہ ماہ میں غزہ پہ ہیئرو شیما سے زیادہ بارود برسایا گیا اسرائیلی فوج کے ساتھ امریکہ سیمت 18ممالک کی افواج غزہ میں قتل عام کر رہی ہیں بھارتی فوج کے فوجی بھی غزہ میں قتل عام میں اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں کاشف چوہدری نے کہاکہ غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا اور اقوام عالم اور اقوام متحدہ سب سو رہے ہیں فلسطین میں61ہزار سے زائد شہادتیں ہوئیں،20ہزار شیر خوار بچے شہید ہوئے ۔کاشف چوہدری نے کہا کہ اہل غزہ کی قربانیوں نےعالم اسلام کو ایک امت بنا دیا ہے پوری دنیا اہل غزہ کے ساتھ کھڑی ہے دنیا کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا و طالبات اہل غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں کاشف چوہدری نے سوال کیا کہ کہاں ہیں 57 اسلامی ممالک کے حکمراں؟کہاں ہیں مسلم ممالک کی افواج ،جنگی اسلحہ اور جنگی جہاز؟ مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا ہے عرب ممالک جہاد کا اعلان کریں ہم یہاں سے جہاد پر جانے کو تیار ہیں انجمن غلامان امریکہ سے مسلم۔ممالک کو نکلنا ہوگا ہمارا کام ہے اسرائیل کی رسد کا راستہ روکیں کاشف چوہدری نے کہاکہ ہمیں ڈنڈے لےکر دکانیں بند نہیں کرانی ۔دکان دار اور تاجر اسرائیلی مصنوعات کو خریدنا بند کر دیں ہم اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے اپنی معیشت کو بہتر کر سکتے ہیں کاشف چوہدری نے کہا کہ غزہ کو کھنڈرات بنانے کے باوجود اہل غزہ اسے چھوڑنے کو تیار نہیں مسلم ممالک اہل غزہ کی فریاد کو سنیں پاکستان مسلم۔ممالک کے حکمرانوں اور افواج کے سربراہان کا اجلاس بلائے آج مسلم ممالک کے حکمران اعلان کریں تو اسرائیل محصارہ ختم کر دے گادنیا بھر کے تاجر فلسطین کے ساتھ کھڑے ہو جائیں صدر آل پاکستان انجمن تاجران اجمل بلوچ نے کہا کہ تاجر اہل غزہ کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم فلسطین کی آزادی کو جدوجہد جاری رکھیں گے اس موقع پر دیگر تاجر رہنماوں نے بھی خطاب کیا۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: حافظ نعیم الرحمان امیر جماعت اسلامی پاکستان کاشف چوہدری نے کہا کے ساتھ کھڑے ہیں اہل غزہ کے ساتھ تاجران پاکستان غزہ کو بچانے پاکستان کی مسلم ممالک 26اپریل کو نے کہا کہ کا اعلان کے تاجر
پڑھیں:
داعش خراسان کا بی ایل اے کے خلاف اعلانِ جنگ، پاکستان کے لئے اچھی خبر یا بری؟
اسلام ٹائمز: اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔ پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ تحریر: محمد عامر رانا
بلوچ باغیوں کی جانب سے دہشتگردانہ حملوں میں اضافے اور اب داعش خراساں کی تنازع میں خاموش مگر حساب کے مطابق شمولیت کے بعد سے بلوچستان کا سیکیورٹی منظرنامہ تیزی سے پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک غیرمتوقع اقدام کے تحت داعش خراساں نے اپنے قوم پرست ایجنڈوں کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے نہ صرف پاکستانی ریاست بلکہ اپنی صفوں میں موجود باغیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ حال ہی میں داعش خراساں نے پاکستان میں نسلی لسانی قوم پرست تحریکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں واضح طور پر بلوچ اور پختون قوم پرست تحریکوں کو نشانہ بنایا گیا۔ گروپ نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ ساتھ پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنما منظور پشتین پر بھی تنقید کی۔ ایسا کتابچہ جاری کیا جانا ہی اپنے آپ میں تشویش ناک تھا۔
تاہم اگلے دن داعش خراساں نے ایک آڈیو جاری کرکے معاملات کو مزید کشیدہ کیا جس میں بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر بلوچستان کے ضلع مستونگ میں اپنے جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کے الزام کو جواز بنا کر بلوچ باغیوں کے خلاف باضابطہ اعلانِ جنگ کیا۔ اگرچہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس سب کے باوجود داعش خراساں نے اب تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست قوتوں کا مقابلہ نہیں کیا۔
پہلے ہی صوبے کی غیرمستحکم صورت حال میں داعش خراساں کی انٹری کا مطلب کیا ہے؟ اور کیا یہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو نئی شکل دے سکتا ہے؟ 2016ء سے اب تک داعش خراساں بلوچستان میں 33 دہشتگرد حملوں میں ملوث رہی ہے جن کے نتیجے میں 436 افراد ہلاک اور 691 زخمی ہوئے۔ مزارات اور گرجا گھر اس کے بنیادی اہداف میں شامل رہے ہیں۔ داعش خراساں نے مزارات اور گرجا گھروں پر 8 حملے کیے ہیں جبکہ سیاسی شخصیات بالخصوص جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سے وابستہ سیاستدان اس کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست رہے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیو ہیلتھ ورکرز بھی اس کے اہداف میں شامل رہے ہیں۔
جے یو آئی کے کئی سینئر رہنماؤں پر داعش خراساں نے بلوچستان میں حملہ کیا گیا جن میں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حمد اللہ اور مولانا عبدالواسع شامل ہیں۔ اس نے سبی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کو بھی نشانہ بنایا جبکہ سب سے خطرناک حملہ سابق صدر عارف علوی پر قاتلانہ حملہ تھا، جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ اس گروپ نے قوم پرست رہنماؤں اور ریاست نواز سیاستدانوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔ واضح رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے سراج رئیسانی کو 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا تھا۔ اس گروپ کی ایک اور اہم کارروائی مستونگ میں چینی شہریوں کا اغوا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی داعش خراساں کی کارروائیاں مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہیں۔ خیبرپختونخوا میں اس کی سرگرمیاں زیادہ تر قبائلی ضلع باجوڑ اور پشاور تک محدود ہیں جہاں اس نے بالترتیب 36 اور 19 حملے کیے ہیں۔ داعش خراساں، اسلام کی سلفی مکتبہ فکر کی سختی سے پیروی کرتا ہے جو باجوڑ اور افغانستان کے ہمسایہ علاقوں جیسے کنڑ اور نورستان میں بھی رائج ہے۔ یہ افغان علاقے جہاں داعش خراساں کی گرفت مستحکم ہے، ان کی پاکستان کے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں، تاہم بلوچستان میں اس کے آپریشنل حالات مختلف ہے۔
داعش خراساں کی سرگرمیاں صوبے کے وسطی مغربی حصے میں، کوئٹہ کے مضافات سے مستونگ، قلات اور خضدار کے کچھ حصوں پر مرکوز ہیں۔ مستونگ سے اس کی کارروائیاں بولان تک پھیلی ہوئی ہے اور سندھ کی سرحد سے متصل ضلع سبی تک اس کا دائرہ موجود ہے۔ ایک موقع پر سندھ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی نے رپورٹ کیا کہ داعش خراساں نے صوبائی سرحد کے قریب بلوچستان میں تربیتی کیمپ قائم کیے ہیں اور وہ سندھی نوجوانوں بالخصوص براہوئی قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو استعمال کرکے سندھ میں دہشتگردی برآمد کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹس فروری 2017ء میں سیہون شریف کے مشہور مزار پر داعش خراساں کے دہشتگردانہ حملے کی تحقیقات کے بعد منظر عام پر آئیں۔
مستونگ اور کوئٹہ کے مضافات داعش خراساں کے بڑے مرکز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں اس نے بالترتیب 12 اور 10 حملے کیے ہیں۔ یہ قلات، بولان اور خضدار میں بھی موجود ہے جو قریب ہی واقع ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر بلوچ کمیونٹیز آباد ہیں جن میں سے اکثر مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ جے یو آئی کو یہاں مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہے اور کچھ ماہرین اس مذہبی جھکاؤ کو پاکستان میں انضمام سے پہلے ریاست قلات کی دیوبندی مدارس کی سرپرستی کی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ خیر وجوہات سے قطع نظر، بلوچستان میں مختلف اسلامی تحریکوں بشمول تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور شیعہ تنظیموں کے درمیان مسابقت بڑھ رہی ہے۔
شیعہ مدارس نے گزشتہ 15 سالوں میں خطے میں اپنی موجودگی کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ بالخصوص لشکر جھنگوی (جو بعد میں داعش خراساں میں ضم ہوگئی) جیسے گروہوں کی جانب سے شیعہ زائرین پر حملے، مستونگ اور نوشکی اضلاع سے گزرنے والے راستوں پر کیے گئے۔ ماضی میں اکثر یہاں قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ٹی ایل پی نے بھی اس خطے میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ اس نے بنیادی طور پر کراچی سے، کوئٹہ-کراچی ہائی وے کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ کراچی میں رہنے والے اس علاقے کے کچھ بلوچ باشندوں نے اس اثر و رسوخ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بہر حال، جے یو آئی خطے میں ایک غالب سیاسی قوت ہے اور اس کے پاس اہم انتخابی طاقت موجود ہے۔
داعش خراساں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کو نشانہ کیوں بناتا ہے، یہ انتہائی واضح ہے۔ یہ گروپ جے یو آئی کو پاکستان میں طالبان کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے پہلے افغان طالبان اور داعش خراساں کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں گروہوں کے درمیان اہم فرق ریاستی ڈھانچے اور خلافت کے تصور کے حوالے سے ان کے خیالات میں ہے۔
داعش خراساں کا ماننا ہے کہ طالبان قوم پرست تحریک ہے جو مغرب کی اتحادی ہے جبکہ پاکستان، دیگر مسلم ریاستوں اور طالبان کے طاقتور اشرافیہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ داعش خراساں کے نزدیک قوم پرستی غیراسلامی تصور ہے اور اب اس نے اپنی کارروائیوں کے دائرے کو ملک میں پُرتشدد اور پُرامن دونوں طرح کی قوم پرست تحریکوں تک پھیلا دیا ہے۔ یہ پیشرفت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرستوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے لیے خطرے کو بڑھا دے گی جبکہ اسلام پسند عسکریت پسندوں اور قوم پرست باغیوں کے درمیان ممکنہ جھڑپوں کو بھی متحرک کرے گی۔
اب تک دونوں فریقین نے تصادم سے گریز کیا تھا، اس حقیقت کے باوجود کہ وہ ایسے علاقوں میں سرگرم ہیں کہ جہاں بیک وقت دونوں گروپس کارروائیاں کررہے ہیں۔ تاہم ان حرکیات میں تبدیلی کا امکان ہے۔ اگرچہ بی ایل اے نے اپنی آپریشنل کارروائیوں کو صوبے کے بیشتر حصوں میں وسعت دی ہے لیکن داعش خراساں بنیادی طور پر مستونگ اور اس کے اردگرد کے علاقوں تک محدود ہے۔ اس سب کے باوجود اس کی موجودگی بی ایل اے کے لیے ایک اہم خلفشار بن سکتی ہے۔
یہ غیر یقینی ہے کہ آیا یہ ریاست کے سیکیورٹی اداروں کے لیے اچھی خبر ہے یا نہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے ایک تنازع کے طور پر دیکھ سکتے ہیں جو بیک وقت دو مخالفین کو کمزور کرسکتا ہے لیکن حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہوسکتی ہے۔ داعش خراساں کی جانب سے اپنی آپریشنل حکمت عملی کو ترک کیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے بجائے، یہ گروہ حالات سے موافق ہوسکتا ہے اور خود کو مزید بڑھا سکتا ہے جو بلوچستان میں پہلے سے غیر مستحکم سیکیورٹی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنے گا۔
اصل تحریر کا لنک:
https://www.dawn.com/news/1914647/is-k-in-balochistan