گزشتہ دو دن پاک افغان تعلقات اور دونوں مُلکوں کے درمیان مذاکرات کو لے کر خاصے مثبت ثابت ہوئے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کا بنیادی مسئلہ تحریک طالبان پاکستان اور دہشتگردی ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مہاجرین کی واپسی اور تجارت کے مسائل بارے بات چیت کی جاتی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان غیر روایتی چینلز کے ذریعے سے بات چیت تو چلتی رہی لیکن اب اِن معاملات کو طے کرنے کے لیے باقاعدہ اعلیٰ سطحی بات چیت کا آغاز ہوتا نظر آتا ہے۔ پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار کل ایک اعلیٰ سطح کے وفد کی قیادت کرتے ہوئے کابل کا دورہ کریں گے۔ اِس دورے کے لیے اسحاق ڈار نے جمعہ کے روز ہی ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا جس میں بات چیت کے حوالے سے اُمور زیرِ غور آئے۔

یہ بھی پڑھیں پاکستان افغانستان کے لیے اپنی خدمات بیان کرنے میں کمزور ہے، فخر کاکاخیل

اِس سے قبل جمعہ کے روز افغان عبوری حکومت کے وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی کی قیادت میں ایک وفد نے وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چوہدری اور سیکریٹری داخلہ محمد خرم آغا سے ملاقات کی۔

ملاقات میں دوطرفہ تجارت، راہداری اور افغان مہاجرین کے بارے میں بات چیت کی گئی۔ افغان وزیر نورالدین عزیزی نے کہاکہ افغان حکومت مہاجرین کی باعزت واپسی چاہتی ہے۔ ملاقات میں اتفاق ہوا کہ دونوں ملکوں کے بیچ اعلیٰ سطحی بات چیت کے دوران مہاجرین کی باعزت واپسی کے حوالے سے تفصیلاً گفتگو ہوگی۔

گزشتہ روز پشاور میں افغانستان کے قونصل جنرل محب اللہ نے شاکر نے کہاکہ سچ کہا جائے تو اب فضا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس لوٹ جائیں، افغان قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان میں آزادانہ زندگی گزاری، ہمیں کسی قسم کی شکایت نہیں ہے۔ اس سے قبل اگر دیکھا جائے تو افغان طالبان حکومت پاکستان کے بارے میں ہمشہ درشت لہجے میں بات کرتی نظر آتی ہے۔

پاک افغان مسائل طے ہونے کی راہ پر چل پڑے ہیں: سفارتکار نجم الثاقب

سابق سفارتکار نجم الثاقب نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے معاملات طے ہونے والے راستے پر چل پڑے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم اعلیٰ سطحی وفود کے تبادلے کو خوش آئند قرار دیتے ہیں، یہ مثبت پیش رفت ہے اور خاص طور پر تجارت سے دونوں مُلکوں کا فائدہ ہے۔ اِس لیے ہمیں افغانستان کے ساتھ تجارت کی بحالی اور تجارتی تعلقات بہتر کرنے کے حوالے بات چیت جاری رکھنی چاہیے۔

نجم الثاقب نے کہاکہ افغانستان کے ساتھ ہمارا بنیادی مسئلہ خوارج اور تحریک طالبان پاکستان ہے، جبکہ افغان طالبان حکومت کا خیال ہے کہ جن افغان مہاجرین کو پاکستان سے واپس بھیجا جا رہا ہے ان کی واپسی باعزت ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک بات یہ ہے کہ ابھی تک پوری دنیا نے افغان طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور ایسے ہی ہم نے بھی نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق وہ اب بھی ایک دہشتگرد گروہ ہیں، لیکن اِس سب کے درمیان ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ روس نے 20 سال بعد کہا ہے کہ طالبان دہشتگرد نہیں، اِس کی بنیادی وجہ روس کے اپنے مسائل خاص طور پر دہشتگردی سے متعلق مسائل ہیں۔

انہوں نے کہاکہ دنیا طالبان حکومت کو جن وجوہات کی بنا پر تسلیم نہیں کرتی اُن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھنا شامل ہے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ مُلک ہے اور یہ بھارت کی طرح کا ہمسایہ مُلک نہیں کہ ہم کہیں کہ معاملات جب تک 5 اگست 2019 کی سطح پر واپس نہیں جاتے تو کوئی تجارت نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تجارت کی بات ضرور کرنی چاہیے اور تجارت کو سیاست اور سفارت سے دور رکھنےکی ضرورت ہے۔ حال ہی میں افغانستان نے ترکیہ، چین اور دیگر ممالک کے ساتھ کان کنی کے شعبوں میں اربوں ڈالر کے معاہدے کیے ہیں، ہمیں بھی مزید وقت ضائع کیے بغیر ایسے معاہدے کرنے چاہییں۔

افغانستان کے لیے سب سے اہم مسئلہ مہاجرین کی واپسی کا ہے، بریگیڈیئر اسحاق خٹک

پاکستان کے افغانستان میں سابق سفیر بریگیڈیئر اسحاق خٹک نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ افغان طالبان حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ افغان مہاجرین کی واپسی ہے، اور اِسی وجہ سے اُن کے لہجے میں تبدیلی بھی آئی ہے اور مذاکرات کی طرف پیش رفت بھی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بات چیت تو پہلے بھی ہوتی رہتی تھی، صادق خان وہاں آتے جاتے تھے، وہ لوگ بھی آتے تھے لیکن اعلیٰ سطحی وفود کی سطح پر بات چیت پہلی بار ہونے جا رہی ہے لیکن اِس بات چیت سے قبل ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ آیا یہ بات چیت کامیاب ہوگی یا ناکام ہوگی۔

انہوں نے کہاکہ امید افزا بات یہ ہے کہ بات چیت اور مذاکرات کا تسلسل بڑھ گیا ہے، جس سے نظر آتا ہے معاملات بہتری کی طرف گامزن ہیں، ہمارا بنیادی مسئلہ تحریک طالبان پاکستان ہے جس کے حل کے لیے اُنہوں نے پہلے بھی وقت مانگا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اسحاق ڈار کے دورے سے افغان مہاجرین کی واپسی کی تاریخ میں توسیع ہوتی ہے یا افغان طالبان ٹی ٹی پی کے بارے میں کیا بات چیت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں افغانستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں نے پاکستان کو دہشتگردی کا شکار بنا دیا، طارق فاطمی

بریگیڈیئر اسحاق خٹک نے کہاکہ بات چیت میں تعطل کا ایک فیکٹر تجارت بھی ہوتی ہے اور تجارت میں سہولت کے لیے تاجروں کا پریشر کسی حد تک قابلِ عمل ہو سکتا ہے لیکن یہ زیادہ بڑا فیکٹر نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسحاق ڈار اعلیٰ سطح وفود افغانستان پاک افغان تعلقات پاکستان تجارت کابل دورہ وزیر خارجہ وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسحاق ڈار اعلی سطح وفود افغانستان پاک افغان تعلقات پاکستان کابل دورہ وی نیوز افغان طالبان حکومت افغانستان کے ساتھ مہاجرین کی واپسی انہوں نے کہاکہ افغان مہاجرین کہاکہ افغان پاکستان کے اور تجارت اسحاق ڈار کے درمیان کہ افغان کے لیے ا بات چیت لیکن ا ہے اور

پڑھیں:

سیاسی درجہ کم کرنے کے لیے مذاکرات ہونے چاہییں: عطااللہ تارڑ نے پی ٹی آئی سے بات چیت کا عندیہ دے دیا

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کے لیے سیاستدانوں کے درمیان بات چیت ہونی چاہیے۔

نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ سیاست تہذیب کے دائرے میں رہ کر ہونی چاہیے، ہم بات چیت کرنے کے پہلے بھی تیار تھے، اور اب بھی تیار ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی مذاکراتی اجلاس میں بیٹھتی تو توقعات سے کچھ زیادہ ہی لے کر جاتی، عرفان صدیقی

انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کو سمجھنا چاہیے کہ صرف سیاسی بیانات دینے سے کام نہیں چلے گا، ان پر ایک صوبے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

عطااللہ تارڑ نے کہاکہ وزیراعظم شہباز شریف نے بڑی فراخدلی سے سہیل آفریدی کو کہاکہ ہم آپ کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن ملکی صورت پر ہونے والی ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ میں انہوں نے شرکت ہی نہیں کی۔

9 مئی واقعات کی انکوائری سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہاکہ انکوائری کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے، جہاں کوئی ابہام ہو۔

پاک افغان کشیدگی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے عطااللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ ہم نے استنبول مذاکرات میں بالکل واضح کیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف

انہوں نے کہاکہ افغان طالبان رجیم کی جانب سے جو پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس کا وزیر دفاع خواجہ آصف نے درست جواب دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پاک افغان کشیدگی پی ٹی آئی دہشتگردی سہیل آفریدی شہباز شریف عطااللہ تارڑ مذاکرات وزیر اطلاعات وزیراعظم پاکستان وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • خطے کے استحکام کا سوال
  • سیاسی درجہ کم کرنے کے لیے مذاکرات ہونے چاہییں: عطااللہ تارڑ نے پی ٹی آئی سے بات چیت کا عندیہ دے دیا
  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • طورخم بارڈ غیرقانونی افغان باشندوں کی واپسی کے لیے کھولا گیا، کوئی تجارت نہیں ہورہی، خواجہ آصف
  • خیبرپختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی اور گورننس کے معاملات میں بہتری لائے؛ رانا ثناءاللہ
  • غیر قانونی مقیم افغانوں کی بے دخلی کیلیے طورخم سرحد جزوی بحال، تجارت اور عام آمدورفت بدستور معطل
  • طور خم بارڈر افغان شہریوں کی واپسی کیلئے آج سے کھول دیا جائے گا
  • طورخم بارڈر آج افغان شہریوں کی واپسی کے لیے کھول دیا جائیگا، دو طرفہ تجارت بدستور بند رہے گی
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق ہونا خوش آئند اقدام ہے، حنیف طیب
  • افغان طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کا مؤقف لکھ کر مان لیا گیا ہے، طلال چوہدری