پاکستان اور بھارت کے درمیان ماہی گیروں کی گرفتاری انسانی المیہ ہے، ایچ آر سی پی
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
لاہور:
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سمندری سرحدوں پر غیر ارادی طور پر پھنس جانے والے ماہی گیروں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ایک جامع علاقائی پالیسی فریم ورک جاری کر دیا ہے۔
اس فریم ورک میں دونوں ممالک کے مابین تنازعات کی بھینٹ چڑھنے والے غریب ماہی گیروں کی حالتِ زار، جیلوں میں ان کے ساتھ روا رکھے گئے امتیازی سلوک اور ان کے خاندانوں پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کو تفصیل سے اجاگر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہر سال درجنوں پاکستانی اور بھارتی ماہی گیر بحیرہ عرب میں غیر ارادی طور پر سمندری حدود عبور کرنے کے جرم میں گرفتار ہوتے ہیں، جن میں اکثریت غریب ساحلی آبادیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہوتی ہے۔ ان ماہی گیروں کو اکثر طویل عرصے تک بغیر مقدمے کے قید رکھا جاتا ہے اور وہ اپنے خاندانوں سے مکمل طور پر کٹ کر رہ جاتے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں زور دیا ہے کہ ماہی گیروں کی گرفتاری کو ایک انسانی مسئلہ سمجھا جائے، نہ کہ قومی سلامتی یا سیاسی تنازع کا معاملہ۔ کمیشن کی ڈائریکٹر طاہرہ حسن کے مطابق، یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے، جسے مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ماہی گیروں کی گرفتاری کی بنیادی وجہ دونوں ممالک کے درمیان سمندری حدود کی غیر واضح تقسیم ہے۔ اکثر ماہی گیر جدید نیویگیشن کے آلات سے محروم ہوتے ہیں اور لاعلمی میں مخالف ملک کی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ ایک بار قید ہونے کے بعد، نہ صرف وہ برسوں جیل میں سڑتے ہیں بلکہ ان کے خاندان بھی شدید مالی اور جذباتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایچ آر سی پی کی دو سالہ تحقیق، 100 سے زائد متاثرہ خاندانوں کے انٹرویوز اور بین الاقوامی قوانین کے جائزے پر مبنی اس رپورٹ میں متعدد ٹھوس تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ان میں ماہی گیروں کی گرفتاری کی صورت میں 24 گھنٹوں کے اندر اہلِ خانہ اور قونصلر حکام کو اطلاع دینا، سمندری حدود کی واضح نشاندہی، سرحدی علاقوں میں مشترکہ نگرانی، جیلوں میں تشدد کی روک تھام، طبی سہولیات کی فراہمی، اور ماہی گیروں کو ان کے خاندانوں سے رابطے کی اجازت شامل ہیں۔
رپورٹ میں دونوں ملکوں کے ماہی گیروں کے خاندانوں کی دردناک داستانیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ کراچی کی مچھر کالونی کی ایک خاتون نے بتایا کہ ان کا بیٹا 2019 سے بھارتی جیل میں قید ہے اور چھ سال سے نہ کوئی خط ملا، نہ بیٹے کی کوئی خبر۔
دوسری جانب، بھارتی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے ماہی گیر بھارت ماجیتھیا نے بیان دیا کہ پاکستانی کوسٹ گارڈز نے انہیں گولیوں سے دھمکا کر گرفتار کیا اور بعد میں 60 قیدیوں کو ایک ہی سیل میں بند کر دیا گیا۔
رپورٹ میں یکم جنوری 2025 تک کے تازہ ترین اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، جن کے مطابق پاکستان میں 266 بھارتی قیدی موجود ہیں جن میں 217 ماہی گیر ہیں، جبکہ بھارت میں 462 پاکستانی قیدی قید ہیں جن میں 81 ماہی گیر شامل ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے افراد کی ہے جنہوں نے اپنی سزائیں مکمل کر لی ہیں، مگر دونوں ممالک کے مابین رسمی سفارتی تبادلوں کی سست رفتاری کے باعث ان کی رہائی عمل میں نہیں آ سکی۔
ایچ آر سی پی نے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں ممالک اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دیں اور سارک کے پلیٹ فارم پر مشترکہ اقدامات کرتے ہوئے ایک دوطرفہ ٹاسک فورس قائم کریں، جو ماہی گیروں کی گرفتاری، قانونی معاونت، اور جلد از جلد رہائی کے لیے عملی اقدامات کرے۔
رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ماہی گیروں کو جدید نیویگیشن آلات فراہم کیے جائیں تاکہ وہ سمندری حدود کی خلاف ورزی سے بچ سکیں۔
ماہی گیروں کی قید کا یہ مسئلہ سرکریک جیسے متنازعہ علاقے سے بھی جڑا ہوا ہے، جو سندھ اور بھارتی ریاست گجرات کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کے پانی ماہی گیری کے لیے نہایت موزوں سمجھے جاتے ہیں، اور دونوں جانب کے غریب ماہی گیر ان پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم، یہ علاقہ دونوں ممالک کی نیوی کے درمیان کشیدگی کا مستقل مرکز بھی رہا ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ ماہی گیروں کو مجرم سمجھنے کے بجائے ایک انسانی ہمدردی کے جذبے سے دیکھا جانا چاہیے۔ ان کی گرفتاری اور قید صرف قانونی یا سفارتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے، جس کے حل کے لیے ایک مستقل، شفاف اور انسان دوست فریم ورک تشکیل دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اگر پاکستان اور بھارت واقعی خطے میں امن، معاشی ترقی اور انسانی حقوق کی پاسداری چاہتے ہیں تو انہیں ماہی گیروں کے مسئلے پر فوری اور سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ قیدی محض خیرسگالی کے وقتی اقدامات کے نہیں، بلکہ مستقل اور منظم انسانی تحفظ کے مستحق ہیں۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان ماہی گیروں کو دونوں ممالک ایچ آر سی پی ایک انسانی اور بھارت کے درمیان رپورٹ میں جاتے ہیں کے لیے
پڑھیں:
بریگزٹ کے بعد برطانیہ کا بھارت کے ساتھ سب سے بڑا معاہدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) دونوں ممالک نے تجارتی معاہدے پر مذاکرات تین سال کے تعطل کے بعد مئی میں مکمل کیے تھے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے سائے میں ان دونوں ملکوں نے باہمی معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔
بھارتی برآمدات 900 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان
ترقی کرتا ایشیا، لیکن پھر مشکلات کیا ہیں؟
دنیا کی پانچویں اور چھٹی بڑی معیشتوں کے درمیان اس معاہدے کا مقصد 2040ء تک باہمی تجارت میں مزید 25.5 بلین پاؤنڈ (34 بلین ڈالر) کا اضافہ کرنا ہے۔
بریگزٹ کے بعد برطانیہ کا سب سے بڑا تجاری معاہدہ2020ء میں یورپی یونین چھوڑنے کے بعد سے یہ برطانیہ کا سب سے بڑا تجارتی معاہدہ ہے۔
(جاری ہے)
بھارتکے لیے یہ ایک ترقی یافتہ معیشت کے ساتھ اس کی سب سے بڑی اسٹریٹجک شراکت داری کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ یورپی یونین کے ساتھ طویل عرصے سے زیر التوا معاہدے کے ساتھ ساتھ دیگر خطوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک نمونہ بھی فراہم کر سکتا ہے۔
اس معاہدے کا اطلاق توثیق کے عمل کے بعد ہوگا، جو ممکنہ طور پر ایک سال کے اندر مکمل ہو جائے گا۔
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے دونوں ممالک کو 'بڑے فوائد‘ حاصل ہوں گے جس سے تجارت سستی، تیز تر اور آسان ہو جائے گی۔
اسٹارمر کا مزید کہنا تھا، ''ہم ایک نئے عالمی دور میں داخل ہو چکے ہیں اور یہی وہ دور ہے جس کے لیے ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے نہ کہ ایک طرف ہو جانے ک… گہری شراکت داری اور اتحاد قائم کر کے۔
‘‘مودی نے کہا کہ یہ دورہ ''دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی شراکت داری کو آگے بڑھانے میں ایک طویل سفر طے کرے گا۔‘‘
دونوں رہنماؤں نے دفاع اور آب و ہوا جیسے شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے شراکت داری پر بھی اتفاق کیا اور کہا کہ وہ جرائم سے نمٹنے کے لئے تعاون کو مضبوط بنائیں گے۔
وہسکی اور کاروں پر ڈیوٹی میں کمیبرطانوی حکومت کے مطابق تجارتی معاہدے کے تحت اسکاچ وہسکی پر محصولات فوری طور پر 150 فیصد سے کم ہو کر 75 فیصد ہو جائیں گے اور پھر اگلی دہائی میں 40 فیصد تک گر جائیں گے۔
بھارت ایک کوٹہ سسٹم کے تحت گاڑیوں پر ڈیوٹی کو 100 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کر دے گا۔اس کے بدلے میں بھارتی مینوفیکچررز کو کوٹہ سسٹم کے تحت برقی اور ہائبرڈ گاڑیوں کے لیے برطانیہ کی مارکیٹ تک رسائی حاصل ہوگی۔
برطانوی وزارت نے کہا ہے کہ اس معاہدے کے تحت بھارت کے لیے برطانوی برآمدات کے 99 فیصد حصے کو صفر ڈیوٹی سے فائدہ ہوگا، جبکہ برطانیہ کو اپنے محصولات کے سلسلے میں 90 فیصد کمی کرنا ہو گی۔
ادارت: کشور مصطفیٰ