ابو سفیان کو تھانے میں موٹرسائیکل چوری کی ایف آئی آر درج کرانی تھی جو اس کے گھر کے باہر سے چوری ہو ئی،وہ ایف آئی آر درج کرانے محلے والوں کے ہمراہ تھانے پہنچا اور محررکو واردات کی جتنی بھی تفصیل بتاسکتا تھا، بتائی،محرر کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او کی اجازت کے بغیر ایف آئی آر کا اندراج نہیں کیاجاسکتا۔چونکہ ایس ایچ او تھانے سے باہر ہیں۔اس لئے محرر نے صبح سے پہلے ایف آئی آر کے اندراج سے معذرت کر لی۔ اس وقت رات کے دس بج رہے تھے جبکہ صبح ہونے میں ابھی کئی گھنٹے باقی تھے-محرر جو اے ایس آئی رینک کا افسر تھا،مقدمہ کے اندراج میں مسلسل لیت ولعل سے کام لےرہا تھالیکن ابو سفیان بھی بضد تھاکہ ایف آئی آر درج کرائے بناتھانے سےواپس نہیں جائےگا-کافی بحث و تکرار کےبعد بالآخر محرر نے وائرلیس پر ایس ایچ او کو وقوعہ کی اطلاع دی اور واپس تھانہ آنے کی درخواست کی۔کچھ ہی دیرگزری ہو گی کہ ایس ایچ او کی سرکاری گاڑی تھانہ میں داخل ہوئی۔ابو سفیان نے ان کےسامنے اپنا مدعابیان کیا۔تاہم ایس ایچ او نےکوئی خاص نوٹس نہ لیا- اندراج مقدمہ کے لیئے شرط عائد کی کہ وہ کسی پر شک کا اظہار کرے۔ تب ابو سفیان گویا ہوا کہ بلا یقین وہ کسی پر کیسے شک کا اظہار کرسکتا ہےلیکن ایس ایچ او اپنے مدعا پر قائم رہا۔باربار شک کی گردان دہراتارہا۔ بالآخر ابوسفیان تنگ آکر بولا ایس ایچ او صاحب ! سچ پوچھیں تو مجھے آپ پر ہی شک ہے کہ موٹرسائیکل کی چوری میں آپ کا ہاتھ ہے۔ یہ سن کر ایس ایچ او کے اوسان خطا ہو گئے۔ وہ لال پیلا نظر آنے لگا۔ ابوسفیان نے ایس ایچ او کی یہ حالت دیکھی تو مزید کہاایف آئی آر درج نہیں ہونی تو ایس پی کا آفس زیادہ دور نہیں ہے۔ میں ایک صحافی ہوں۔ میری ایف آئی آر درج نہیں ہو گی تو دن چڑھتے ہی بڑے صاحب (ایس پی)کے آفس پہنچ جائوں گا اور آپ کی شکایت کروں گا۔
اس مکالمے کے بعد ایس ایچ او اندراج مقدمہ کے لئے راضی ہوا اور نامعلوم چور کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔ یہ لاہور کے تھانہ شاہدرہ کا سچا واقعہ ہے۔ جو کئی سال پہلے پیش آیا۔ یہ بات خود ابوسفیان نے مجھے بتائی، جو ایک ماہنامہ میگزین کا ایڈیٹر و پبلشر تھا۔ ایف آئی آر کے موضوع پر یہ کالم تحریر کرتے وقت مذکورہ واقعہ اس لئے کوٹ کیا کہ آپ سب ایف آئی آر کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ سکیں۔ یہ ایک واقعہ نہیں اس جیسے بے شمار واقعات روزانہ کی بنیاد پرتھانوں میں پیش آتے ہیں اور لوگوں کو اندراج مقدمہ کے لئے در بدر ہونا پڑتا ہے۔ پتہ نہیں، کہاں کہاں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ ایف آئی آر ہے کیا؟ایف آئی آر سے مراد فرسٹ انفارمیشن رپورٹ اورمعنوی اعتبار سے پہلی اطلاعی رپورٹ ہے۔ جرم ناقابل دست اندازی ہو تو روزنامچے میں رپورٹ تحریر کرکےمحرر کی جانب سے سائل کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیےکہاجاتا ہے۔ موجووہ قانون میں کسی بھی فوجداری مقدمہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ جس میں جرم، وقت، جائے وقوعہ اور چشم دید گواہان پر بہت زور دیا گیا ہے۔ یہ چاروں چیزیں ایف آئی آر کی بنیاد بنتی ہیں۔ یعنی جرم، وقت، جائے وقوعہ اور چشم دید گواہان۔ ایف آئی آر کا متن جتنے کم الفاظ میں ہوگا، مدعی یااستغاثہ اتنے ہی اچھے انداز میں اسے ٹرائل کے وقت عدالت میں ثابت کرسکے گا۔ عدم ثبوت کی بنیاد پر ملزم یا ملزمان کے بری ہونے کے سو فیصد چانسز ہوتے ہیں۔ اس لئے جب بھی کسی وقوعہ کی ایف آئی آر درج کرائی جائے ، اس کی نوعیت عمومی ہو یا سنگین، کم سے کم الفاظ میں درج کرانی چاہیے ۔ مثال کے طور پر فلاں وقت اور فلاں مقام پر ایک نامعلوم شخص (کسی کو نامزد بھی کیاجا سکتاہے)نے یہ جرم کیا۔ جرم کی نوعیت کے مطابق ہی دفعات لاگو کی جاتی ہیں جو قابل ضمانت بھی ہو سکتی ہیں اور ناقابل ضمانت بھی۔پاکستان میں مخالفین کو پھنسانےکے لئےفرضی کہانیوں پرمبنی جھوٹی ایف آئی آرزکا اندراج عام سی بات ہے۔ تعزیرات پاکستان میں کسی کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرانا ایک جرم قرار دیا گیا ہے۔ جس کی سزا سات سال تک قید ہو سکتی ہے۔
پاکستان پینل کوڈ سیکشن 193 اور 194 کے تحت جھوٹی گواہی دینے والے کو سزائے موت تک دی جا سکتی ہے-کسی کے خلاف اگر جھوٹی ایف آئی آر درج ہو جائے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ ایسی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد اگر چالان متعلقہ عدالت میں پیش نہیں ہوا تو آئین کے آرٹیکل 199اور ضابطہ فوجداری کی دفعہ 561اے کے تحت جھوٹی ایف آئی آر کے اخراج کے لئے ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔ اگر ملزم اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ہائی کورٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایسی ایف آئی آر کے اخراج کا حکم جاری کر سکتی ہے۔اس کی مثال 2008ء میں ہائی کورٹ کے جسٹس کاظم علی ملک کے ایک فیصلے سے دی جاسکتی ہے۔ اس کیس میں مخالفین کا آپس میں لین دین کا مسئلہ تھا۔ فیکٹری کے مالک نے ایک شخص سے تیل خریدا اور ادائیگی نہیں کی۔ یہ دیوانی نوعیت کا معاملہ تھا لیکن مدعی نے پولیس کی ملی بھگت سے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 406 کے تحت مقدمہ درج کرا دیا۔ عدالت نے دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد ایف آئی آر کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 406 کے خلاف قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر کے اخراج کا حکم جاری کر دیا، کہا یہ صریحا دیوانی مسئلہ ہے۔ اس میں پولیس نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا۔ نہ صرف یہ کہ ایف آئی آر کے اخراج کا حکم سنایا گیا بلکہ جھوٹی ایف آئی آر درج کرنے والے لاہور کے تھانہ باغبانپورہ کے سب انسپکٹر اور تفتیشی افسر پر 50ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔ یہ بھی حکم دیا کہ جرمانہ کی رقم مدعی کو ادا کی جائے۔ تاہم اگر کسی جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم کاچالان عدالت میں پیش کر دیا گیا ہو اور ٹرائل شروع ہو جائے تو پٹیشن کی صورت میں ہائی کورٹ متعلقہ عدالت سے ریلیف حاصل کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے۔ ایسی صورت میں علاقہ مجسٹریٹ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265کے تحت ملزم کو کسی بھی وقت مقدمہ سے ڈسچارج کر سکتا ہے۔ پولیس رولز 1934 میں درج قانون کی شق 24 اعشاریہ 7بھی متعلقہ تفتیشی افسر کو درج شدہ جھوٹی ایف آئی آر کو منسوخ یا خارج کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ پاکستان میں ہر روز ایسی سینکڑوں ایف آئی آرز درج ہوتی ہیں جن کا حقیقت یا سچ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے تفتیشی پولیس افسر کو پتہ چل بھی جائے کہ ایف آئی آر جھوٹی اور بے بنیاد ہے۔ پھر بھی اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وہ اسے خارج نہیں کرتا۔ تفتیشی افسر کی یہ قانونی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ ایف آئی آر کو بے بنیاد سمجھے اور مدعی سے شواہد طلب کرنے پر شواہد نہ ملنے کی صورت میں وہ اپنے قانونی اختیار کو استعمال کر کے مقدمہ خارج کر سکتا ہےلیکن عمومی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ ایک بےگناہ کو بھی جھوٹی ایف آئی آر میں نامزد ہوکربڑی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایف آئی آر کے اخراج ایف آئی آر درج کر ایس ایچ او کے اندراج ابو سفیان ہائی کورٹ مقدمہ کے نہیں ہو سکتی ہے کی دفعہ کے خلاف کے تحت کے بعد کہ ایس کے لئے
پڑھیں:
بارشیں اور حکومتی ذمے داری
گلگت، سوات، بونیر، جڑواں شہروں سمیت ملک کے مختلف حصوں میں موسلا دھار بارشوں سے تباہی، ندی نالوں میں طغیانی، سیلابی ریلوں میں بہہ کر 6 بچوں، باپ، بیٹی سمیت 16 افراد جان کی بازی ہار گئے جب کہ کئی زخمی ہوگئے، بابو سر ٹاپ پرکئی سیاح پانی میں بہہ چکے ہیں، جن کی تلاش کے لیے ریسکیوکارروائیاں تاحال جاری ہیں۔
سڑک 15 مقامات سے بلاک ہے اور 4 اہم رابطہ پل بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ پاک فوج نے اسکردو میں ریسکیو آپریشن کرتے ہوئے 40 سے 50 گاڑیوں میں پھنسے ہوئے سیاحوں کو بحفاظت نکال لیا، لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند سڑکیں کھول دیں۔
مون سون سیزن پاکستان کے لیے ایک اور تلخ حقیقت بن کر سامنے آیا ہے۔ جہاں ایک طرف بے رحم بارشیں برسیں، وہیں دوسری طرف انسانی غفلت، حکومتی لاپرواہی اور ادارہ جاتی کمزوری نے اس آفت کو ناقابلِ تلافی سانحے میں بدل دیا۔ خیبر پختون خوا،گلگت بلتستان، راولپنڈی اور اسلام آباد سمیت کئی علاقوں میں طوفانی بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی، وہ صرف موسمی یا فطری آفت نہیں، بلکہ ایک منظم حکومتی و انتظامی ناکامی کی داستان ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں مون سون سیزن اب ایک قدرتی معمول سے بڑھ کر ایک انسانی بحران کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ اس بار جولائی میں ہونے والی ہلاکتیں، جن کی تعداد درجنوں سے بڑھ کر سیکڑوں تک جا پہنچی، صرف بارش یا سیلاب کا نتیجہ نہیں، بلکہ ناقص انفرا اسٹرکچر، سیاحتی علاقوں میں انتظامی غفلت اور قبل از وقت انتباہی نظام کی غیر فعالیت کی علامت ہے۔
سیاح، جن میں مرد ، خواتین اور بچے شامل تھے، اپنی چھٹیوں کو خوشگوار بنانے کی امید لیے شمالی علاقہ جات کا رخ کرتے ہیں، مگر کمزور پُل، ندی نالوں کے قریب غیر محفوظ کیمپنگ اور مسلسل بارشوں کے باوجود حکومتی خاموشی ان کی زندگیوں کا چراغ بجھا دیتی ہے۔یہ المیہ فقط چند علاقوں تک محدود نہیں۔ اسلام آباد جیسے دارالحکومت میں بھی نکاسیِ آب کا ناقص نظام عوامی زندگی کو مفلوج کردیتا ہے۔
راولپنڈی کا نالہ لئی ایک بار پھر خبروں میں ہے جہاں بارش کے بعد پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو جاتی ہے اور حکومتی ادارے فقط ’’ الرٹ جاری‘‘ کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقامات، جنھیں ملکی معیشت کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے، بدترین انفرا اسٹرکچر، بغیر پلاننگ کی تعمیرات اور غیر تربیت یافتہ مقامی انتظامیہ کی وجہ سے انسانی جانوں کے لیے خطرناک بن چکے ہیں۔
اگر ہم ان حادثات کا غیر جذباتی، حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاحتی علاقوں میں مون سون کے دوران بغیر کسی نگرانی کے عوام کو جانے کی اجازت دینا دانشمندی ہے؟ جب متعلقہ اداروں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کئی دن پہلے موصول ہو جاتی ہے، توکیا یہ اداروں کی ذمے داری نہیں کہ وہ متاثرہ علاقوں میں سیاحت پر وقتی پابندی عائد کریں؟ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری پالیسی ہمیشہ ردعمل پر مبنی ہوتی ہے، پیشگی حکمتِ عملی کا فقدان ہمیں ہر بار انسانی جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے سے سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے، بارشوں کا نظام غیر متوازن ہو چکا ہے، اور فلیش فلڈز اب ایک معمول بن چکے ہیں۔ برساتی جھیلوں اور تالاب کا رجحان بھی ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے، حالانکہ یہ اگر ہوں تو ان سے زیر زمین سطح آب، جو ہمارے شہری علاقوں میں تیزی سے نیچے جارہی ہے، اسے بڑھانے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔
ہمیں اپنے موسمیاتی پیٹرن کا عمیق مطالعہ کر کے ضرورت کے مطابق منصوبے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سال مون سون میں سیکڑوں جانوں اور اربوں روپے کے نقصانات کا سلسلہ رک سکے اور اربن فلڈنگ کا مستقل اور دیر پا حل تلاش کیا جائے۔ بارش سے ہونے والے حادثات کو دیکھا جائے تو ان میں انتظامی سے زیادہ انسانی غفلت نمایاں نظر آتی ہے۔ ہر سال حکومت کی جانب سے مون سون سے قبل احتیاطی تدابیر اختیارکرنے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر شہریوں کی جانب سے حکومتی ہدایات کو نظر اندازکیا جاتا ہے، اگر عوام سب کچھ حکومت پر چھوڑنے کے بجائے اپنے تئیں بھی برسات کے موسم میں تھوڑی سی احتیاط کریں تو بارشوں سے ہونیوالے جانی نقصان کی شرح کو بہت کم کیا جا سکتا ہے۔
ملک میں حالیہ اموات صرف قدرتی آفات کی وجہ سے نہیں ہوئیں، بلکہ یہ ریاستی نااہلی، ناقص شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی بے حسی کا نتیجہ تھیں۔ ہم نے اپنے قدرتی نالوں پر تجاوزات قائم کیں، درخت کاٹ کر عمارتیں بنائیں، کھلی زمینوں کو سیمنٹ اور تارکول میں بدل دیا اور بارش کے پانی کے قدرتی بہاؤ کو بند کردیا۔ جب پانی کا راستہ بند ہوتا ہے تو وہ اپنا راستہ خود بناتا ہے، اور پھر اس کی راہ میں جو بھی آئے، وہ تباہی کی زد میں آ جاتا ہے۔اس المیے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ حکومتوں نے عوام کو موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی خطرات کے بارے میں شعور دینے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
پارلیمان کو چاہیے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر باقاعدہ قانون سازی کرے، صوبائی اسمبلیاں اس کی توثیق کریں اور ہر سطح پر اس پر عملدرآمد کی نگرانی کی جائے۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ ان سانحات کے بعد بھی کوئی بڑی پالیسی تبدیلی یا سنجیدہ تجزیہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حادثات کے بعد چند روزہ اخباری بیانات، کچھ دکھاوے کی میٹنگز اور پھر حسبِ معمول خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ نہ ہی کوئی باقاعدہ انکوائری کی جاتی ہے، نہ ہی ذمے داران کا تعین ہوتا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، نئے موضوعات زیرِ بحث آجاتے ہیں اور پچھلے حادثات محض یاد داشت کا حصہ بن جاتے ہیں۔
شدید بارشیں بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلی کا نتیجہ سمجھی جا رہی ہیں، جو آنے والے وقت میں پاکستانیوں کی طرز زندگی کو بدل کر کے رکھ دے گی، اس بگڑتی ہوئی صورت حال کی ایک بڑی وجہ شمالی علاقوں، خاص طور پر گلگت بلتستان میں گلیشیئرزکے تیزی سے پگھلنے کو قرار دیا جا رہا ہے، ایک وقت میں ان گلیشیئرزکی تعداد سات ہزار سے زیادہ بتائی جاتی تھی، لیکن ان کا غیر متوقع طور پر تیزی سے ختم ہونا پاکستان بھر میں بدلتے موسموں کا واضح ثبوت ہے۔ درختوں کی تیزی سے کٹائی اور ان کی جگہ نئے درخت نہ لگانے سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو مزید سنگین بنا دیا ہے، ایک غیر یقینی مستقبل کی جھلک 2010 میں ہنزہ وادی میں عطا آباد جھیل کے قیام کے ساتھ دیکھی گئی۔سیاحت کو اگر محفوظ بنایا جانا ہے تو اس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
سب سے پہلے تو مون سون سیزن کے دوران حساس علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کی جائے۔ اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ بندی درکار ہے جس میں مقامی حکومت، پولیس، محکمہ موسمیات، اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ادارے باہم مربوط ہو کر فیصلے کریں۔ دوسرا، مقامی کمیونٹیز کو اس حوالے سے تربیت دی جائے کہ وہ خود بھی قدرتی آفات میں بروقت ردعمل دے سکیں، اور باہر سے آنے والے سیاحوں کی حفاظت کر سکیں۔
تیسرا، سیاحوں کے لیے ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے جس میں سفر سے پہلے رجسٹریشن، راستوں کی معلومات اور خطرناک علاقوں سے اجتناب جیسی ہدایات لازمی ہوں۔ انفرا اسٹرکچرکی تعمیر میں پائیداری اور موسمی حالات کو مدنظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ یہ بات اب بار بار ثابت ہو چکی ہے کہ کمزور پل، ناقص سڑکیں اور غیر محفوظ ہوٹل یا کیمپنگ ایریاز حادثات کا سبب بنتے ہیں۔ اگر حکومت سیاحت کو معیشت کا انجن بنانا چاہتی ہے، تو اسے انفرا اسٹرکچر پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بھی ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں، بشرطیکہ ان میں شفافیت اور پائیداری کو یقینی بنایا جائے۔موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بھی ہمیں اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
درختوں کی بے دریغ کٹائی، جنگلات کی تباہی اور بغیر منصوبہ بندی کے تعمیرات نے لینڈ سلائیڈنگ اور زمین کی کمزوری میں اضافہ کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کو نہ صرف ایک جامع نیشنل کلائمیٹ ایڈاپٹیشن پالیسی کی ضرورت ہے بلکہ اس پالیسی کو ضلعی سطح تک نافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ مقامی سطح پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہو سکیں۔یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی جان صرف ایک عدد نہیں، بلکہ ایک خاندان، ایک نسل اور ایک خواب کا نام ہوتی ہے۔
جب ایک سیاح کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے پیچھے رہ جانے والے افراد عمر بھر کے دکھ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اگر ایک جان بھی محفوظ کی جا سکتی ہو تو اس کے لیے اقدامات کرنا حکومت اور معاشرے دونوں کی اخلاقی ذمے داری ہے۔آخر میں، ہمیں بحیثیتِ قوم یہ طے کرنا ہوگا کہ کیا ہم ہر سال مون سون میں سانحات کا سامنا کرنے کو اپنی تقدیر سمجھ چکے ہیں، یا ہم اس دائرے کو توڑ کر ایک ذمے دار، محفوظ اور منصوبہ بند معاشرہ بننے کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو اس کا آغاز آج، ابھی اور یہیں سے ہونا چاہیے۔ قدرتی آفات کو ہم نہیں روک سکتے، مگر اپنے رویوں، پالیسیوں اور ترجیحات کو ضرور بدل سکتے ہیں تاکہ قدرتی آفات سے جنم لینے والے مسائل پر جلد از جلد قابو پا سکیں۔