وسائل کے تحفظ کیلئے آغا راحت کا بیان حقیقت پر مبنی ہے، عارف قنبری
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
ایم ڈبلیو ایم گلگت کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ سہولت کار حکومت کے کمیشن خور مشیر کی آغا راحت کے خلاف بیان بازی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی کرپشن سے توجہ ہٹانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کی معدنیات، جنگلات، زمینیں و دیگر وسائل کے تحفظ کے حوالے سے قائد ملت جعفریہ سید راحت حسین الحسینی کا بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ آغا راحت نے گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کی ترجمانی کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار عارف حسین قنبری صدر ایم ڈبلیو ایم گلگت نے اپنے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سہولت کار حکومت کے کمیشن خور مشیر کی آغا راحت کے خلاف بیان بازی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی کرپشن سے توجہ ہٹانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
بچے ہمارا مستقبل … ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے!!
رپورٹ: احسن کامرے
اقوام متحدہ کی جانب سے 1954ء میں پہلی مرتبہ بچوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد سے ہر سال 20نومبر کو دنیا بھر میں ’’بچوں کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے جس کا مقصد ان کی تعلیم، صحت، ذہنی تربیت، تحفظ سمیت دیگر بنیادی انسانی حقوق یقینی بنانے کیلئے شعور اجاگر کرنا، کارکردگی کا جائزہ لینا ہے اور اس کی روشنی میں آئندہ کیلئے مزید اقدامات کرنا ہے تاکہ دنیا کا بہتر مستقبل یقینی بنایا جاسکے۔رواں سال بچوں کے عالمی دن کے موقع پر’’ایکسپریس فورم‘‘میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
محمد حبیب
(سوشل کونسلنگ آفیسر واسسٹنٹ ڈائریکٹر
محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)
اقوام متحدہ کا چارٹر برائے حقوق اطفال بچوں کے تمام حقوق جن میں سماجی، معاشی، سیاسی و دیگر شامل ہیں، کا احاطہ کرتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک سمیت پاکستان نے بھی اس کی توثیق کر رکھی ہے اور اس حوالے سے کام کرنے کا پابند ہے۔ بچوں کی تعلیم اور صحت سمیت تمام انسانی حقوق کا تحفظ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف قانون سازی ہوئی ہے بلکہ خصوصی ادارے بھی قائم کیے گئے ہیں جو دن رات کام کر رہے ہیں۔ بچوں کی بہتری کیلئے ’’پنجاب چائلڈ رائٹس پالیسی‘‘ بن چکی ہے، ایک ماہ کے اندر اندر اسے نافذ کر دیا جائے گا۔ پنجاب میں محروم اور بے سہارا بچوں کا قانون موجود ہے ،اسی طرح چائلڈ لیبر، بچوں پر تشدد و دیگر حوالے سے بھی قوانین موجود ہیں۔ پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو بچوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کر رہا ہے بلکہ وہاں ان کی مکمل دیکھ بھال بھی کی جارہی ہے۔بیورو کی باقائدہ ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے جس پر کسی بھی جگہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی رپورٹ کی جا سکتی ہے، اس کے بعد محکمہ فوری طور پر حرکت میں آتا ہے اور متاثرہ بچے کو ریسکیو کیا جاتا ہے۔ بچے کو رہائش دینے کے ساتھ ساتھ اس کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے، جس میں اس کی تعلیم، خوراک، ذہنی و جسمانی صحت و دیگر شامل ہیں۔ اسی طرح محکمہ سوشل ویلفیئر اور بیت المال کے ماڈل چلڈرن ہومز موجود ہیں جہاں محروم اور بے سہارا بچوں کی بحالی کا کام جا ری ہے۔ حکومت ان کی مکمل دیکھ بھال کر رہی ہے۔ ان دونوں اداروں میں بچوں کی رسمی و غیر رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کا بھی خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ بچوں کی تعلیم اور انرولمنٹ میں اضافے کیلئے حکومت پنجاب نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سکولوں کا نظام بہتر کرنے کا آغاز کیا ہے ، نجی شعبے کو سکول دینے سے بچوں کی انرولمنٹ اور نظام تدریس میں بہتری آرہی ہے۔ حکومت ان سکولوں کی مکمل مانیٹرنگ کر رہی ہے۔ پنجاب میں چائلڈ لیبر اور ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، یہ دونوں ہی چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزابھی ملتی ہے۔ انسانی حقوق پالیسی 2018ء میں ایک خصوصی ایکشن پلان اور ٹاسک فورس تشکیل دی گئی جو تمام پسے ہوئے اور نظر انداز طبقات جن میں بچے، بوڑھے، خواجہ سرا و دیگر شامل ہیں، کے حقوق کا خیال رکھتی ہے۔
عامر جعفری
(نمائندہ سول سوسائٹی)
دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن خصوصی اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ بچوں کے حقوق ریاست اور سماج دونوں کی ذمہ داری ہے، اسی لیے اس پر زیادہ بات بھی ہوتی ہے اور اقدامات اٹھانے پر زور بھی دیا جاتا ہے۔ پہلے میلینیم ڈویلپمنٹ گولز تھے جن میں بچوں کے حوالے سے بھی خصوصی معاملات شامل تھے مگر افسوس ہے کہ یہ اہداف حاصل کرنے میں دنیا اور ہم کچھ ناکام رہے۔ آج اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کا دور ہے لیکن دنیا میں سب سے زیادہ نازک صورتحال بچوں کی ہے۔فسلطین اور غزہ میں ہزاروں بچے جس ظلم و بربریت اور بدترین سلوک کا شکار ہیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح یوکرین ، سوڈان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں موجودمسائل سے بچے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کے ذہنی و جسمانی مسائل اور انسانی حقوق کا ذمہ دار کون؟ 21 ویں صدی میں یہ بدترین استحصال دنیا کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ ان بچوں کی تعلیم، صحت سمیت تمام بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ سب کی ذمہ داری ہے، دنیا کو اس پر کام کرنا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا بے حس ہوچکی ہے، کسی کو فرق نہیں پڑتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ملک کی بات کریں تو یہاں بہت قانون سازی ہوئی اور بعض اچھے قوانین بھی موجود ہیں مگر ان کے ہوتے ہوئے بھی بچوں کا استحصال ہو رہا ہے، ان کی زندگی نہیں بدل رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ بچے ہماری ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بچوں کی تعلیم کیلئے کتنا بجٹ رکھا گیا؟ دنیا میں 272 ملین بچے سکول نہیں جاتے، ان میں سے 25 ملین بچے پاکستان میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ڈھائی کروڑ بچے آگے چل کر کیا کریں گے؟ ملک میں ایجوکیشن ایمرجنسی نافذ کی گئی لیکن اہم یہ ہے کہ اقدامات کیا ہوئے؟ہمارے بچوں کی تعلیم کیلئے نہ تو بجٹ میں اضافہ ہوا اور نہ ہی نظام تعلیم بدلا۔ تعلیمی نظام میں جدت نہیں لائی گئی، بچوں کو جدید سکلز اور ہنر کی تعلیم نہیں دی جارہی۔ آج بھی 70 فیصد بچے میٹرک سے آگے تعلیم جاری نہیں رکھتے،یہ بچے تو اپنی عملی زندگی میں بے روزگار رہیں گے، ان میں محرومیوں کی وجہ سے تعصب پیدا ہوگا، یہ جرائم کی طرف راغب ہوں گے، اس کا ذمہ دار کون؟کیا ایسے حالات میں ایک بہتر مستقبل کا خواب پورا ہوسکتا ہے؟ جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ سرکاری سکولوں کی بات کریں تو گزشتہ 25 برسوں میں سوائے دانش سکول کے، کوئی نئے سرکاری سکول نہیں بنائے گے، اب پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سکول نجی شعبے کو دیے جارہے ہیں، میرے نزدیک اس سے نظام تعلیم کو مزید نقصان ہوگا۔ سیاسی جماعتوں کی بات کریں تو گزشتہ 50 برسوں سے ایک ہی منشور کو ردو بدل کے ساتھ پیش کر دیا جاتا ہے، اس میں نیا کیا ہے؟ ہر جماعت کا منشور کم و بیش ایک ہی ہے اور سب اقتدار میں آنے کے بعد ایک جیسا کام ہی کرتے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، غربت، تعلیم، صحت، صاف پانی سمیت دیگر مسائل پر خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ ہمارے ہاں چائلڈ لبیر پر کافی بات ہوتی ہے۔ ہمیں چائلڈ ورک اور چائلڈ لیبر میں فرق کرنا ہے۔ یہ جدید دور ہے جس میں کم عمر بچے بھی سکلز سیکھ کر کام کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو کام کی عادت ڈالنی ہے، انہیں جدید سکلز سکھانی ہیں تاکہ وہ بڑے ہوکر کچھ بہتر زندگی گزار سکیں۔ ہمارے مسائل زیادہ ہیں لیکن ان کا حل ممکن ہے، اس کے لیے وسائل اور سیاسی ول چاہیے، اگر یہ ہوگیا تو پاکستان بچوں کیلئے جنت بن جائے گا۔
آمنہ افضل
(نمائندہ سول سوسائٹی)
20 نومبر کو دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد سابقہ اہداف اور ان پر ہونے والے کام کا جائزہ لینا اور مستقبل کے حوالے سے اہداف طے کرنا ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر برائے حقوق اطفال ایک بہترین دستاویز ہے جس میں بچوں کی تعلیم، صحت سمیت تمام بنیادی حقوق کے تحفظ اور اس حوالے سے کام کی بات کی گئی ہے۔ پاکستان میں بچوں کی صورتحال کا جائزہ لیں تو پنجاب چائلڈ لیبر سروے 2019-20ء کے مطابق چائلڈ لیبر کی تعداد 60 لاکھ ہے جن میں سے 33 لاکھ بچے شعبہ زراعت جبکہ 8 لاکھ بچے فیکٹریوں میں کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح ادارہ شماریات پنجاب کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبے میں 9 لاکھ 12 ہزار گھریلو ملازمین ہیں جن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس کے علاوہ ڈھائی لاکھ بچے اینٹوں کے بھٹوں پر کام کر رہے ہیں جن کا بدترین استحصال ہو رہا ہے۔ ہمارا ادارہ میڈیا مانیٹرنگ بھی کرتا ہے۔ مانیٹرنگ میں یہ سامنے آیا ہے کہ 2019-25ء تک گھریلو ملازمین پر تشدد، ظلم، زیادتی اور قتل کے 196 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 46 کیسز 18 سال سے کم عمر بچیوں کی ہلاکت کے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ عام ہے کہ بہت کم کیسز رپورٹ ہوتے ہیں یا میڈیا میں آتے ہیں لہٰذا حقیقت میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء کے تحت ملازمت کی کم از کم عمر 15 برس ہے جبکہ 16 سے 18 برس تک ہلکا پھلکا کام ہے جس سے ان کی صحت متاثر نہ ہو۔ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے جائزہ لیں تو یونیسیف کے 2024ء کے سروے کے مطابق دو کروڑ تیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے، یہ بہت بڑی تعداد ہے جو لیبر، بھیک اور جرائم کے راستے پر نظر آتی ہے۔ یہ نہ صرف باعث افسوس ہے بلکہ لمحہ فکریہ بھی ہے ۔ اگر ان کیلئے اقدامات نہ کیے گئے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جو بچے سکول جاتے ہیں ان میں سے 70 فیصد بچے میٹرک تک نہیں پہنچ پاتے جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم پرانا ہے، اس میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی رٹہ سسٹم رائج ہے، بچوں کو ہنر کی تعلیم نہیں دی جاتی، تعلیم میں پریکٹیکل شامل نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ان کیلئے کام کے مواقع کم ہیں اور ملک میں ڈگری ہولڈرز بھی بے روزگار ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 25 (اے) کے تحت پانچ سے 16 برس کی عمر تک کے بچوں کی مفت اور معیاری تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے، اس حوالے سے بڑے پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ ہمارے سالانہ جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے جو ناکافی ہے، اسے کم از کم 5 فیصد ہونا چاہیے۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ بچوں کی تربیت کا ہے۔ اس کیلئے پازیٹیو پیرنٹنگ پر کام کرنے کی ضرورت ہے، اس طرح بچوں کی تربیت بہتر ہوگی اور معاشرے کو بھی فائدہ ہوگا۔ حکومت کو اس طرح کے منصوبوں پر کام کرنا چاہیے جو ملک کا مستقبل سنوار سکیں۔ بچوں کی صحت کے حوالے سے معاملات کا جائزہ لیں تو یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2.14 ملین بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔یہ بہت بڑی تعداد ہے لہٰذا حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر بچوں کی غذائیت کی کمی پورا کرنے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہیے،ا س ضمن میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کیلئے فی الفور پروگرام کا آغاز کرنا چاہیے۔ پاکستان میں کم عمری کی شادی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان دس ممالک میں ہوتا ہے جہاں کم عمری کی شادی کی شرح زیادہ ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق یہ شرح 21 فیصد ہے، حکومت کو اس حوالے سے کام کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں ہدف نمبر 8.7 غلامی کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔ اس میں ہر سطح پر، ہر طرح کی غلامی شامل ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز اور بھٹہ مزدور پیشگی قرض لے لیتے ہیں اور کام کرتے ہیں، یہ بھی غلامی کی جدید شکل ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کی پیدائش کے اندراج کا مسئلہ بھی ہے، بے شمار بچے ایسے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے،ا س خلاء کو پر کرنا چاہیے۔ آن لائن ہراسمنٹ بھی بچوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے، ایف آئی اے میں بچوں کے خلاف ہراسمنٹ کے 1200 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ حکومت، سول سوسائٹی سمیت معاشرے کے مختلف طبقات بچوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے کام کر رہے ہیں مگر ابھی بہت سارا کام باقی ہے۔ اس عالمی دن کے موقع پر ہر پہلو کا تفصیل سے جائزہ لینا ہے اور اگلے برس کیلئے نئے اہداف طے کرنے ہیں۔ ہمیں ہر سطح پر چائلڈ لیبر کا خاتمہ کرنا ہے، بچوں کی تعلیم، صحت اور تحفظ یقینی بنانا ہے، ان کی ذہنی اور جسمانی نشونما پر توجہ دینی ہے، انہیں جدید تعلیم سے آراستہ کرنا ہے، لائف سکلز سکھانی ہیں، ایکٹیویٹی بیسڈ لرننگ کی طرف جانا ہے اور ایک بہتر اور قابل انسان بنانا ہے۔ ہمیں والدین اور اساتذہ کی تربیت بھی کرنی ہے تاکہ وہ بچوں کو صحیح معنوں میں تیار کر سکیں۔ ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں بچوں کو یہ بھی سکھانا ہے کہ وہ کس طرح ڈیجیٹل ورلڈ میں ایک محفوظ زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ اقدامات صرف باتوں سے نہیں ہوں گے بلکہ ان کیلئے بجٹ مختص کرکے نیت کے ساتھ کام بھی کرنا ہوگا۔ ہمیں تعلیم کے بجٹ میںبھی اضافہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ جہاں قانون سازی یا ترامیم کی ضرورت ہے وہ بھی لازمی کی جائیں۔ n
Tagsپاکستان