ایم ڈبلیو ایم گلگت کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ سہولت کار حکومت کے کمیشن خور مشیر کی آغا راحت کے خلاف بیان بازی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی کرپشن سے توجہ ہٹانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کی معدنیات، جنگلات، زمینیں و دیگر وسائل کے تحفظ کے حوالے سے قائد ملت جعفریہ سید راحت حسین الحسینی کا بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ آغا راحت نے گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کی ترجمانی کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار عارف حسین قنبری  صدر ایم ڈبلیو ایم گلگت نے اپنے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سہولت کار حکومت کے کمیشن خور مشیر کی آغا راحت کے خلاف بیان بازی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی کرپشن سے توجہ ہٹانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

پڑھیں:

ایران کے بارے میں ٹرمپ کی خام خیالی

اسلام ٹائمز: دستاویز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ خلیج فارس کے وسائل کو دشمن کے ہاتھ سے دور رکھنا، اور آبنائے ہرمز کو کھلا رکھنا، امریکہ کے بنیادی مفادات ہیں۔ یہ جملہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کے لیے مشرقِ وسطیٰ کوئی انتخاب نہیں، بلکہ ایک ساختیاتی انحصار ہے۔ وہ مواقع جو امریکہ کھو رہا ہے۔ دستاویز میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے لیے ٹیکنالوجی، ایٹمی توانائی اور دفاعی سرمایہ کاری کے مواقع کا ذکر ہے، لیکن جو بات نہیں کہی گئی، وہ یہ ہے کہ چین اور روس پہلے ہی ان میدانوں میں سرمایہ کاری اور دیرینہ معاہدوں کے ساتھ امریکہ سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔ خصوصی رپورٹ:

امریکی حکومت کی قومی سلامتی کی نئی دستاویز، ایک جامع حکمتِ عملی سے زیادہ، تشہیری تعبیرات، انتخاباتی امیدوں اور غیر حقیقت پسندانہ تجزیوں کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ ایران کی طاقت کے بارے میں عمیق نگرانی، اسرائیل کی بازدارندگی دوبارہ قائم کرنے کی کوششیں، اور امریکی کامیابیوں کے غیر معمولی مبالغہ آمیز دعوے واضح کرتے ہیں کہ واشنگٹن خطے کی بدلتی ہوئی جیوپولیٹیکل صورتِ حال کے مقابلے میں شدید سردرگمی کا شکار ہے۔

33 صفحات پر مشتمل یہ نئی حکمتِ عملی کی دستاویز آنے والے برسوں میں وائٹ ہاؤس کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسیوں کی بنیاد کے طور پر پیش کی جا رہی ہے۔ امریکی سیاسی روایت میں ایسی دستاویز ہمیشہ واشنگٹن کے لیے ایک جامع سکیورٹی روڈ میپ سمجھی جاتی ہے۔ تاہم اس بار یہ دستاویز زیادہ تر ٹرمپ انتظامیہ کی دنیا کو دیکھنے کی عینک کی عکاسی کرتی ہے—جس میں خطرات، رقابتیں اور جیوپولیٹیکل چیلنجز کو مخصوص سیاسی بیانیوں کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔

ایران کے گرد گھومتے تجزیئے:
صرف مغربی ایشیا کے حصے میں ایران کا نام تین بار آیا ہے، لیکن عملی طور پر خطے کے زیادہ تر تجزیے ایران کے گرد گھومتے ہیں۔ ایران کی طاقت کا خوف واضح طور پر ظاہر ہے۔ دستاویز میں ایران کو خطے کا سب سے بڑا غیر مستحکم کرنے والا عنصر قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ دو برس میں اسے نمایاں طور پر کمزور کیا گیا ہے۔ یہ بظاہر ایک سکیورٹی تجزیہ ہے، لیکن حقیقت میں یہ عیاں ہے کہ امریکی سکیورٹی ادارے اب بھی ایران کی بڑھتی ہوئی علاقائی طاقت کے خوف میں مبتلا ہیں، وہ طاقت جو 12 روزہ جنگ اور محورِ مقاومت کی ہم آہنگ کارروائیوں میں پوری شدت سے ظاہر ہوئی، اور جس نے اسرائیلی محاذ کو بھاری اخراجات برداشت کرنے پر مجبور کیا۔

دستاویز میں یہ بھی دعویٰ ہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل کی کارروائیوں اور جون 2025 میں آپریشن کے ذریعے ایرانی جوہری پروگرام کو "شدید نقصان" پہنچایا گیا ہے۔ یہ دعویٰ تکنیکی بنیادوں سے زیادہ سیاسی پروپیگنڈے پر مبنی ہے، کیونکہ عالمی ایٹمی ایجنسی اور متعدد رپورٹس کے مطابق ایران کا جوہری ڈھانچہ شدید حفاظتی اقدامات اور جغرافیائی تنوع کے باعث محدود حملوں سے متاثر نہیں ہوتا۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان امن کا وہم: 
شاید دستاویز کا سب سے عجیب اور غیر حقیقی دعویٰ یہ ہے کہ ٹرمپ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک تفاهم قائم کر دیا ہے۔ نہ اس کی کوئی سفارتی بنیاد ہے، نہ سیاسی اشارہ، اور نہ ہی میدانِ عمل میں ایسی کسی تبدیلی کا ثبوت ملتا ہے۔ یہ دعویٰ دراصل دستاویز کے انتخاباتی اور تشہیری ہونے کی سب سے بڑی علامت ہے، ایسا کارنامہ گھڑنے کی کوشش ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ حقیقت یہ ہے کہ دستاویز میں جس چیز کو ایران کی کمزوری کہا گیا ہے، وہ اصل میں اسرائیل کے لیے بڑھتی ہوئی جنگی لاگت، طاقت کے توازن میں تبدیلی، اور ایران کے اسٹریٹجک اثر میں توسیع کا اشارہ ہے، نہ کہ ایران کی پسپائی۔

مشرقِ وسطیٰ سے امریکی وابستگی کی حقیقت:
دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایران کی کمزوری اور عرب اتحاد کے بعد مشرقِ وسطیٰ امریکہ کے لیے اب مستقل بحران کا منبع نہیں رہا اور واشنگٹن اپنی توجہ چین اور روس جیسے بڑے حریفوں پر مرکوز کر سکتا ہے۔ یہ دعویٰ بھی زمینی حقائق کے خلاف ہے۔ گزشتہ برسوں میں امریکہ شام، عراق اور بحیرۂ احمر میں زیادہ حملوں کا نشانہ بنا، اپنے اڈوں کی حفاظت کے لیے مزید فوجی تعینات کرنے پر مجبور ہوا، اور خطے سے انخلا کا کوئی امکان پیدا نہ کر سکا۔ اصل حقیقت یہ ہے امریکہ کی خطے سے سکیورٹی وابستگی کم نہیں ہوئی، بلکہ بڑھ گئی ہے۔

دستاویز میں اعتراف کیا گیا ہے کہ خلیج فارس کے وسائل کو دشمن کے ہاتھ سے دور رکھنا، اور آبنائے ہرمز کو کھلا رکھنا، امریکہ کے بنیادی مفادات ہیں۔ یہ جملہ ثابت کرتا ہے کہ امریکہ کے لیے مشرقِ وسطیٰ کوئی انتخاب نہیں، بلکہ ایک ساختیاتی انحصار ہے۔ وہ مواقع جو امریکہ کھو رہا ہے۔ دستاویز میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کے لیے ٹیکنالوجی، ایٹمی توانائی اور دفاعی سرمایہ کاری کے مواقع کا ذکر ہے، لیکن جو بات نہیں کہی گئی، وہ یہ ہے کہ چین اور روس پہلے ہی ان میدانوں میں سرمایہ کاری اور دیرینہ معاہدوں کے ساتھ امریکہ سے کہیں آگے نکل چکے ہیں۔

اس ماحول میں نئے مواقع کا دعویٰ حقیقت سے زیادہ سیاسی آرزو رکھتا ہے۔ یہ ایک حکمت عملی نہیں، ایک سیاسی کہانی اور جھوٹا بیانیہ ہے۔ مجموعی طور پر امریکی قومی سلامتی کی یہ نئی دستاویز، تشہیر، انتخاباتی مہم کا پروپیگنڈا اور ناقص تجزیاتی تعبیرات کا مرکب ہے۔ ایران کی قوت سے خوف، اسرائیل کی شکستوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش، اور امریکی کامیابیوں کا مبالغہ آمیز بیانیہ بتاتا ہے کہ واشنگٹن خطے کی تیزی سے بدلتی جیوپولیٹیکل حقیقتوں کے مقابلے میں شدید ابہام کا شکار ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے، ایران نہ کمزور ہوا ہے، نہ محدود، بلکہ ڈیٹرنس کی مضبوطی، علاقائی اثر و رسوخ کی توسیع اور اسٹریٹجک ڈھانچوں کی تقویت کے ساتھ آج پہلے سے زیادہ فیصلہ کن کردار ادا کر رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران کے بارے میں ٹرمپ کی خام خیالی
  • وزیراعظم نے گوادر اور گلگت بلتستان میں بجلی کے منصوبوں کی منظوری دے دی
  • سروں کے سلطان راحت فتح علی خان کی آج 51ویں سالگرہ
  • وزیراعظم نے گوادر اور گلگت بلتستان میں بجلی کے منصوبوں کی منظوری دیدی
  • استاد راحت فتح علی خان آج اپنی 51 ویں سالگرہ منارہے ہیں
  • گلگت، جبری لاپتہ نوجوان کی بازیابی کیلئے تیسرے روز بھی دھرنا
  • آئی ایس او خیبر پختونخوا ریجن کا پہلہ اجلاس عاملہ
  • غزہ نسل کشی سے توجہ ہٹانے کیلیے اسرائیل خطے میں نئے بحران پیدا کر رہا ہے؛ شامی صدر
  • سرمایہ کاری کے تحفظ کیلئے امن و امان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، سہیل آفریدی
  • صوبائی حکومتیں وسائل پر قابض‘ ادارہ جاتی کھیل بحال کیے جائیں:حافظ نعیم