وسائل کے تحفظ کیلئے آغا راحت کا بیان حقیقت پر مبنی ہے، عارف قنبری
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
ایم ڈبلیو ایم گلگت کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ سہولت کار حکومت کے کمیشن خور مشیر کی آغا راحت کے خلاف بیان بازی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی کرپشن سے توجہ ہٹانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کی معدنیات، جنگلات، زمینیں و دیگر وسائل کے تحفظ کے حوالے سے قائد ملت جعفریہ سید راحت حسین الحسینی کا بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ آغا راحت نے گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کی ترجمانی کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار عارف حسین قنبری صدر ایم ڈبلیو ایم گلگت نے اپنے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سہولت کار حکومت کے کمیشن خور مشیر کی آغا راحت کے خلاف بیان بازی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی کرپشن سے توجہ ہٹانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
نظام مبنی بر انصاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251028-03-8
سید اقبال ہاشمی
ملک بنے ہوئے آٹھ دہائیاں گزر گئی ہیں لیکن ابھی تک ہم اپنے بنیادی مسائل کا پائدار حل تلاش نہیں کر سکے ہیں ناانصافی کی دہائیاں دیتے دیتے ربع صدی میں ہمارا ایک بازو کٹ گیا لیکن حالات و واقعات کی یکسانیت میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔ چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا ہے۔ ختم کیا ہو؟ سیاست کی بنیاد ہی یہی ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ نظام سلطنت اور انتظام آمدن کے معاملے میں کوئی پیش رفت بالکل بھی نہیں ہوئی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں ہونے والی مفاہمت اس کی عمدہ مثال ہے۔ آرٹیکل 160 کے تحت 1973 کے آئین میں نیشنل فائنانس کمیشن کے خد و خال پہلے ہی بنا دیے گئے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ صدر پاکستان ہر پانچ سال بعد نیشنل فائنانس کمیشن کی تشکیل دیں گے جو کہ ٹیکسوں کے تقسیم کا طریقہ کار وضع کرے گا۔ لیکن اس سلسلے میں قوانین اور تقسیم کے طریقہ کار پر بڑی پیش رفت اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ممکن ہوئی۔ اس میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ صوبوں کا حصہ پچھلے کمیشن میں طے کردہ حصے سے کم نہیں کیا جا سکے گا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ صوبوں کو ملنے والا حصہ صرف آبادی کی بنیاد پر طے نہیں کیا جائے گا بلکہ متعدد پیمانوں کو استعمال کرکے طے کیا جائے گا۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں یہ فیصلہ ہوا کہ غربت، پسماندگی، ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت اور رقبہ کی بنیاد پر ٹیکس ریونیو کا 57.5 فی صد حصہ صوبوں کو ملے گا جو کہ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کو بالترتیب 52، 25، 15 اور 9 فی صد کے حساب سے ادا کی جائے گی۔
اب بھی تمام صوبوں بشمول پنجاب سے یہ آوازیں اٹھتی رہتی ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ میں ہم اپنے بھائیوں کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ پنجاب کی منطق یہ ہے کہ ہماری سب سے زیادہ آبادی اور جی ڈی پی میں سب سے زیادہ حصہ یعنی 61 فی صد کے باوجودِ ریونیو میں نسبتاً کم حصہ ہے۔ بلوچستان اپنے وسیع رقبہ اور معدنی وسائل کی دہائی دیتا ہے تو سندھ سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے باوجود کم حصہ پر شاکی نظر آتا ہے۔ کے پی کے وسائل پر دوسرے صوبوں کی دست درازیوں پر غیر مطمئن ہے۔
پنجاب کی جی ڈی پی کی منطق بادی النظر میں تو بڑی جاندار نظر آتی ہے لیکن ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ جی ڈی پی سے اس معاملے کا تعلق کتنا ہے؟ آسان الفاظ میں جی ڈی پی کسی علاقے میں زراعت، صنعت اور خدمات کی کل سالانہ پیداوار کو کہتے ہیں۔ یہ اس علاقے کا سال بھر کا آؤٹ پٹ ہوتا ہے جس کا فائدہ اس علاقے کے لوگ خود اٹھاتے ہیں۔ اس پر جو ٹیکس دیا جاتا ہے وہ البتہ حکومت وصول کرتی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں ٹیکس تقسیم کیا جاتا ہے نہ کہ جی ڈی پی۔ اس بات کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کا وفاق کی ٹیکس آمدنی میں فی صد حصہ بالترتیب 49، 25، 16 اور 10 فی صد ہے جبکہ جی ڈی پی میں فی صد حصہ 61، 25، 10 اور 3 فی صد ہے۔ اصولی طور پر تو جتنا حصہ جی ڈی پی میں ہے اتنا ہی ٹیکس میں ہونا چاہیے لیکن بہ نسبت جی ڈی پی پنجاب کا ٹیکس میں حصہ حیرت انگیز طور پر کم کیوں ہے؟ سندھ کا برابر کیوں ہے؟ کے پی کے اور بلوچستان کا زیادہ کیوں ہے؟ صرف پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ٹیکس بہ نسبت جی ڈی پی کم جمع ہوتا ہے۔ کیا وہاں ٹیکس چوری زیادہ ہوتی ہے؟ یا کوئی اور عناصر کار فرما ہیں؟ کے پی کے اور بلوچستان زیادہ ٹیکس دیتے ہیں تو اصولی طور پر تو انہیں زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔ نمبروں اور فارمولوں کے گورکھ دھندے میں انصاف گم نہیں ہو جانا چاہیے۔
اب رہا یہ سوال کہ صوبوں کو حصہ ملنے کے بعد کیا یہ پیسہ عوام پر خرچ ہو رہا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں تو پھر بھی صوبائی حکومتیں کچھ کام کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں اور سی پیک کے منصوبوں کی وجہ سے بلوچستان میں بھی ترقی ہو رہی ہے لیکن سندھ میں نہ تو سی پیک کا کوئی قابل ذکر حصہ ہے اور نہ وسائل کی تقسیم مبنی بر انصاف ہے۔ کراچی صوبے کا نوے فی صد ریونیو پیدا کرتا ہے لیکن ترقیاتی منصوبوں میں اس کا حصہ صرف پانچ فی صد ہے اور کراچی کا ابتر حال کسی سے مخفی بھی نہیں ہے۔ کراچی کے ساتھ سمندر ہے تو یہ اس کا قدرتی ایڈوانٹیج ہے۔ جیسے کہ کے پی کے کو پانی اور قدرتی وسائل ، پنجاب کو زراعت اور صنعت اور بلوچستان کو قدرتی وسائل کا ایڈوانٹیج ہے۔ قدرت بے انصاف نہیں ہے۔ کراچی کا بہت سا ریونیو تو ڈرائی پورٹس بنا کر منتقل کیا جا چکا ہے پھر بھی کراچی ریونیو میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے۔ اور اس کی اصل وجہ یہاں کی تجارتی برادری ہے جو کہ صنعت و تجارت کے تمام میدانوں میں ہمیشہ نت نئے آئیڈیاز تواتر سے لے کر آتی رہتی ہے۔
ساری دنیا میں زیادہ تر ٹیکس وصول کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس ہوتا ہے لیکن وفاق سے لڑ جھگڑ کر بمشکل صوبوں کو ایک مناسب حصہ ملنا شروع ہوا ہے۔ ابھی اس میں بھی بہت کچھ پیش رفت باقی ہے جس میں سر فہرست نیتوں کی درستی ہے۔ پیپلز پارٹی نے جس گراس روٹ لیول کا نعرہ لگا کر صوبوں کو حصہ دلوایا تھا اب اسے بلدیاتی سطح پر منتقل کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟ اور اس سلسلے میں پیپلز پارٹی ہی کیا باقی پارٹیاں بھی برابر کی ہی قصور وار ہیں۔
ہم مسلمان ہیں اور پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن معاشی اعداد و شمار کو بھی ہم تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ متوازن سوچ کے ساتھ دیکھیں تو پتا چل جائے گا کہ کہاں کہاں کون کون سی بے ایمانیاں ہو رہی ہیں؟ اور انہیں کیسے درست کیا جا سکتا ہ