اسلام آباد:

وفاقی وزیرِ خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ریکوڈک تانبے اور سونے کی کان کے منصوبے کے فوائد مقامی آبادی تک بھی پہنچنے چاہیے۔

 وزارتِ خزانہ کے مطابق ان خیالات کا اظہا انہوں نے پیر کو واشنگٹن ڈی سی میں عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے موسم بہار کے اجلاس کے موقع پر انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کی ریجنل وائس پریزیڈنٹ ہیلاچیخوروف اور اُن کی ٹیم کے ساتھ ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

ملاقات میں نجی شعبے کی اصلاحات، توانائی کی منتقلی، مؤثر بلدیاتی نظام، مالیات اور مکمل روزگار جیسے شعبوں میں تعاون کے امکانات پر بات چیت کی گئی۔فریقین نے ڈیورسیفائیڈ پیمنٹ رائٹس پر پیش رفت کا جائزہ بھی لیا۔

وزیرخزانہ نے ریکوڈک تانبے اور سونے کی کان کے منصوبے کے لیے 2.

5 ارب ڈالر کی قرض فنانسنگ میں انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے قائدانہ کردار کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے فوائد مقامی آبادی تک بھی پہنچنے چاہیے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: منصوبے کے

پڑھیں:

الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)

اسلام ٹائمز: چوہان صاحب نے اپنے وصیت نامے میں یہ چبھتا ہوا سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ کیا رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔؟ رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ نہ دینے والے لوگوں کے ہجوم سے گریزاں کچھ ایسے بھی ہیں، جو تاریخ کے موڑ پر حضرت ابوذرؓ، حضرت میثم تمارؓ، حضرت عمار یاسرؓ، اور حضرت حجر بن عدیؓ کی مانند تنِ تنہاء کھڑے ہیں۔ انکا دین، انکا مسلک اور انکا راستہ، عام مسلمانوں سے جدا ہے۔ ایسے لوگ نہ عوام کے خوف سے ڈرے، نہ خواص کی سازش سے گھبرائے، نہ جبر کے سامنے جھکے اور نہ زر کے آگے بکے۔ یہی تو وہ چراغ ہیں، جو ظلمت میں روشن رہے، وہ پہاڑ تھے، جو طوفانوں میں قائم رہے اور وہ اذانیں تھے، جو خاموشیوں میں گونجتی رہیں۔۔۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

ظالم اور جابر کی پرستش بھی کچھ لوگوں کا مذہب ہے۔ کچھ کے بقول منصبِ اقتدار پر زبردستی قابض ہونے والا غاصب حکمران بھی ظلِّ الٰہی بن جاتا ہے۔ اس کی تعظیم واجب اور اس کی اطاعت ثواب کا درجہ جبکہ اس کی مخالفت معصیت و گناہ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ ایک طرف بہت سارے لوگ ظالموں کو مقدس ثابت کرنے کیلئے تقاریر اور کتابوں کے انبار لگا رہے ہیں اور دوسری طرف ہر دور میں ظالموں کے تقدس کی نفی کرنے والے بھی ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ انسان ہوں یا الفاظ، جو بھی ظالموں کی اندھی پرستش کے بجائے عقل، عدل، منطق اور شعور کی خاطر کام آیا، وہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔ عظیم اہداف کیلئے استعمال ہونے والی تحریریں بھی عظیم انسانوں کی طرح زندہ رہتی ہیں۔ خورشید احمد چوہان ایڈووکیٹ صاحب کی وصیّت بعنوان "الہیٰ خزانہ" بھی ایسی ہی ایک نادر تحریر ہے۔ وہ 1944ء میں پیدا ہوئے اور 2006ء میں انہوں نے یہ وصیت نامہ مرتب کیا۔ ان کی یہ وصیّت ایک نہایت اہم خزانے کے متعلق ہے اور اسی لئے اس کتاب کا نام بھی انہوں نے "الہیٰ خزانہ" رکھا ہے۔ باالفاظ دیگر یہ وصیّت نامہ ان کی زندگی کے سماجی مشاہدات اور فکری تجربات کی قلمی صورت ہے۔

محترم  وصیّت نگار نے غوروفکر اور تدبّر کے ساتھ اپنے قلب و ضمیر کا عرق نچوڑ کر ان 541 صفحات میں پیش کر دیا ہے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جن کے نزدیک  غور و فکر کے بغیر نہ تو کوئی خزانہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی حفاظت ممکن ہے۔ میں چند دنوں سے اس کتاب کے سحر میں مبتلا ہوں، یہ کتاب جہاں اپنی زبان و بیان کے لحاظ سے اردو ادب میں ایک خوب صورت اضافہ ہے، وہیں محققانہ مزاج اور منصفانہ رویّہ رکھنے والوں کے لیے بھی ایک انمول تحقیقی خزانہ ہے۔ چوہان صاحب کا اندازِ نگارش ہمارے ہاں کی وصیّت ناموں کی مروّجہ روایت سے بالکل ہٹ کر ہے۔ عموماً وصیتیں جن کے لیے ہوتی ہیں، انہی کے کام کی ہوتی ہیں اور وہی انہیں محفوظ رکھتے ہیں، لیکن یہ وصیت ان سب سے مختلف ہے۔

مجھے اس وصیت نامے پر ابھی بہت کچھ لکھنا ہے، لیکن فی الحال یہ عرض کافی ہے کہ میں کتاب کی تزئین و آرائش یا اس کی سلیس و دلکش زبان پر تبصرہ نہیں کر رہا، نہ ہی مصنف کی ذات، دینداری، یا مسلک سے کوئی غرض رکھتا ہوں۔ میں تو بین السطور جھانکنے کا عادی ہوں۔ بین السطور محتویٰ کے مطابق مصنّف کو  ظالم لوگ سخت ناپسند ہیں اور شاید یہ خامی ہر انسان کے بچپن میں پائی جاتی ہو۔ کتابوں کی دنیا میں مجھے عہدِ کہن سے لے کر آج تک، کوئی ایسا شخص نہیں ملا، جو ظلم و ظالم کو برا کہے بغیر کسی عظیم منصب پر فائز ہوا ہو۔ گویا ظلم سے نفرت اور ظالم کے تقدس کا انکار، انسانی عقل کی معراج کا پہلا زینہ ہے۔ شریعت کی ابتدا بھی "لا الہ" سے ہوتی ہے اور عرفان و سلوک میں سالک کی یہی پہلی منزل ہے۔ "لا" کہنا آسان نہیں؛ اس ایک حرف میں ہزاروں خداؤں اور ظالموں سے انکار پوشیدہ ہوتا ہے۔

اس وصیّت نامے نے مجھے میرا بچپن لوٹا دیا ہے۔ مجھے بچپن میں خدا اس لیے پسند آیا تھا کہ وہ ظالموں سے نفرت کرتا تھا۔ آسمان پر اُڑتے سفید بادلوں کو دیکھ کر مجھے یوں لگتا تھا، جیسے حق و باطل کے لشکر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں۔ آج بھی میرے نزدیک وہ بچپن کا سادہ اور شفاف تصورِ خدا، تمام فلسفوں پر بھاری ہے۔ ہر دور میں اس  طرح کے کئی لوگ اپنے اسی بے داغ بچپن کے ساتھ بڑے ہو جاتے ہیں اور پوری عمر اپنے تصور، وہم و گمان اور خواب و خیال میں ظالموں سے لڑتے رہتے ہیں۔ چوہان صاحب کا یہ وصیت نامہ سالکینِ راہِ خدا کے اسی شفاف مسلک کی نشان دہی کرتا ہے۔ جیسا کہ صفحہ 50 پر انہوں نے لکھا ہے کہ “بچے کی فطرت میں یہ بات موجود ہے کہ وہ ظلم سے نفرت کرتا ہے اور مظلوم سے پیار کرتا ہے۔

خداوند متعال نے مجھ میں یہ خصلت کچھ زیادہ عطا فرمائی تھی کہ میں جب بھی کسی پر ظلم ہوتا دیکھتا (خواہ اپنا و یا بیگانہ ہو، اس کے مقابلہ میں ظالم خواہ کس قدر طاقتور اونچے نصیب والا معزز (Elite) اور خوبصورت گورا چٹا ہی کیوں نہ ہو اور اپنا ہی قریبی رشتہ دار کیوں نہ ہو) میرا خون کھولنا شروع ہو جاتا۔ رنگ متغیر ہو جاتا اور میں بالکل پکا کا میٹر (Meter) ہو جاتا اور فور ظالم سے مکمل طور پر مظلوم کے حق میں ٹکرا جاتا۔ مجھے کوئی بلکہ قطعاً خوف نہ ہوتا کہ ظالم مجھے بھی مظلوم کے ساتھ پیس کر رکھ دے گا، میں پرائی آگ میں کود پڑتا۔” چوہان صاحب کا یہ احساس دراصل انسانی تاریخ کا مجموعی شعور ہے۔ یہ وہ آواز ہے، جو ہر انسان کے ضمیر اور فطرت کی گہرائی سے ابھرتی ہے کہ اگر مظلوم کے مقابلے میں خدا بھی کھڑا ہو تو اس کا بھی انکار کر دو، باقی شخصیات اور بزرگ تو دور کی بات ہیں۔

ایسے مزاج کے لوگوں کے نزدیک ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا انسانیت کی گمشدہ میراث ہے اور یہی حقیقی سیروسلوک کا پہلا قدم۔ ظلم کے تقدس کا تصور فرعونی تہذیب سے بھی پہلے کا ہے اور آج بھی امتِ مسلمہ کے ایک بڑے حصے میں زندہ ہے۔ نہ سوچنے والی اکثریت آج قرآن مجید کو حفظ کرنے، چھاپنے اور رٹنے کے ساتھ ساتھ  ظالموں کے سامنے سجدہ ریز بھی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  وہ الہیٰ خزانہ کہاں گیا، جو قرآن کے ذریعے انسانوں کو بیدار کرنے کے لیے نازل ہوا تھا۔؟ کیا صاحبِ قرآنﷺ نے اس خزانے کے بارے میں کوئی وصیت نہیں کی تھی۔؟

چوہان صاحب نے اپنے وصیت نامے میں یہ چبھتا ہوا سوال بھی اٹھا دیا ہے کہ کیا رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔؟ رسولِ خداﷺ کو قلم و کاغذ نہ دینے والے لوگوں کے ہجوم سے گریزاں کچھ ایسے بھی ہیں، جو تاریخ کے موڑ پر حضرت ابوذرؓ، حضرت میثم تمارؓ، حضرت عمار یاسرؓ، اور حضرت حجر بن عدیؓ کی مانند تنِ تنہاء کھڑے ہیں۔ ان کا دین، ان کا مسلک اور ان کا راستہ، عام مسلمانوں سے جدا ہے۔ ایسے لوگ نہ عوام کے خوف سے ڈرے، نہ خواص کی سازش سے گھبرائے، نہ جبر کے سامنے جھکے اور نہ زر کے آگے بکے۔ یہی تو وہ چراغ ہیں، جو ظلمت میں روشن رہے، وہ پہاڑ تھے، جو طوفانوں میں قائم رہے اور وہ اذانیں تھے، جو خاموشیوں میں گونجتی رہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • اسنیپ چیٹ کا اہم فیچر، صارف بحفاظت گھر پہنچنے کی اطلاع دوستوں کو دے سکے گا
  • شک کی بنیاد پر کسی کو ٹیکس فراڈ کیس میں گرفتار نہ کرنے کی سفارش
  • چینی وزیر اعظم 2025 کی عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس میں شرکت کریں گے، وزارت خارجہ
  • تہران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی ٹیم کے دورہ ایران پر رضامند
  • فیصل بینک اور Faureeنے اسلامک ڈیجیٹل سپلائی چین فنانس اینڈ ایگری ڈیجیٹائزیشن پلیٹ فارم متعارف کرادیا
  • یورو 2024 فائنل میں پہنچنے پر انگلینڈ ویمنز فٹبال ٹیم کو بادشاہ چارلس کی مبارکباد
  • سابق گورنر پنجاب میاں محمد اظہر مقامی قبر ستان میں سپرد خاک، نماز جنازہ میں اراکین اسمبلی اور سیاسی و سماجی شخصیات کی شرکت
  • واشنگٹن ایرانی جوہری منصوبے کو مکمل تباہ کرنے سے قاصر ہے، سابق امریکی وزیر دفاع
  • دریائے شگر میں بڑھتی طغیانی، ہزاروں کنال اراضی اور آبادی خطرے میں