فلم اسٹار خوشبو خان نے اپنی زندگی کے دکھوں سے پردہ اٹھا دیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک)فلم، ڈرامہ اور تھیٹر میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی معروف فلمی اداکارہ خوشبو خان نے پہلی بار اپنی نجی زندگی، دکھوں اور اندرونی کشمکش کے حوالے سے حیران کن انکشافات کیے ہیں۔
وہ حال ہی میںایک شو میں بطور مہمان شریک ہوئیں، جہاں ان کی گفتگو نے شائقین کے دلوں کو چھو لیا۔
خوشبو خان نے بتایا کہ ان کا فنی سفر صرف 7 سال کی عمر میں شروع ہو گیا تھا، جب وہ بطور چائلڈ آرٹسٹ کام کرنے پر مجبور ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ، یہ میری پسند نہیں تھی۔ میں ہمیشہ سے ٹیچر بننا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے شوبز میں دھکیلا گیا، اور یہ سب ایک معمول میں بدل گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ مسلسل کام کرتی رہیں اور اسی دوران اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکیں، جس کا انہیں آج بھی شدید افسوس ہے۔
اداکارہ نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بے شمار قربانیاں دیں، چاہے وہ دوست ہوں، خاندان والے ہوں یا کوئی خاص شخص سب سے وفا کی، لیکن بدلے میں صرف دھوکہ ملا۔
میں نے سب کے لیے جیا، سب کی مدد کی، مالی طور پر بھی اور جذباتی طور پر بھی۔ لیکن جب مجھے ضرورت پڑی، سب نے منہ موڑ لیا۔ ان کا کہنا تھا۔
خوشبو خان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے ڈپریشن کا شکار رہی ہیں۔ وہ مہینوں اپنے کمرے میں بند رہیں، کسی سے بات نہیں کی، صرف روتی رہیں۔
اداکارہ نے کہ، مجھے لگتا تھا میں صرف تھکی ہوئی ہوں، لیکن دراصل میں ڈپریشن میں تھی۔ میں نے اس سے خود ہی لڑا، اور خود ہی نکلی، لیکن اس عمل میں اندر سے ٹوٹ گئی۔
خوشبو خان کی شادی معروف فلمی اداکار ارباز خان سے ہوئی ہے، اور اس جوڑے کے دو بچے ہیں۔ اگرچہ ان کی ذاتی زندگی بظاہر خوشحال دکھائی دیتی ہے، لیکن انٹرویو میں سامنے آنے والی حقیقتیں بتاتی ہیں کہ وہ اندر سے ایک مسلسل جدوجہد سے گزر رہی ہیں۔
اداکارہ کی صاف گوئی اور دل کو چھو لینے والی گفتگو نے سوشل میڈیا پر بھی ہلچل مچا دی ہے۔ مداحوں نے نہ صرف ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ ان کے حوصلے اور ہمت کو بھی سراہا۔
مزیدپڑھیں:صارفین کی حقیقی عمر کی تصدیق کیلئے میٹا نے اے آئی کا سہارا لے لیا
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
الوداع، ڈاکٹر مختار، لیکن ٹھہریے!
ایچ ای سی 2002ء میں، جبکہ ملک کا آئین معطل تھا، ایک آرڈی نینس کے ذریعے وجود میں لائی گئی۔ اس آرڈی نینس کو جنرل مشرف کے جاری کردہ دیگر قوانین کی طرح ایل ایف او اور 17ویں ترمیم کے ذریعے تسلسل عطا کیا گیا۔ 2010ء میں 18ویں ترمیم کے بعد اس تسلسل کو جاری رکھا گیا۔ تاہم اس ترمیم نے قانون سازی کےلیے ’مشترک فہرست‘ کا خاتمہ کرکے تعلیم سمیت ایسے تقریباً تمام امور صوبوں کی طرف منتقل کردیے۔ تاہم اس وقت کے چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر عطاء الرحمان سپریم کورٹ جا پہنچے اور فریاد کی کہ اگر ایچ ای سی کو صوبوں کے حوالے کردیا گیا، تو بربادی آجائے گی۔
افتخار محمد چودھری صاحب کی عدالت تھی، مرضی کے فیصلے تھے۔ چنانچہ 12 اپریل 2011ء کو انہوں نے مختصر حکمنامہ جاری کرکے ایچ ای سی کو اپنا سابقہ کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ چودھری صاحب کے دوسرے کئی مختصر حکمناموں کی طرح اس حکمنامے کی تفصیلی وجوہات بھی کبھی سامنے نہیں آئیں اور 14 سال بعد بھی ایچ ای سی اسی مختصر حکمنامے کے بل بوتے پر قائم ہے۔
اس دوران میں ایک اور تبدیلی آئی جس نے ایچ ای سی کےلیے عملاً بہت سارے مسائل پیدا کیے۔’دہشت گردی کے خلاف اتحاد‘ کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ’اتحادیوں کی مدد کےلیے فنڈ‘ کی مد میں کئی بلین ڈالر ملتے تھے۔ اس مدد کا وافر حصہ ایچ ای سی کے ذریعے اعلی تعلیم کی طرف منتقل کیا گیا۔ چنانچہ ایچ ای سی نے بہت سارے لوگوں کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کےلیے بھیجا، باہر سے پڑھے ہوؤں کو یہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے کےلیے بلایا، کئی بین الاقوامی کانفرنسیں کیں، مختلف تحقیقی پروجیکٹس کےلیے رقوم دیں، اور بظاہر کچھ عرصے کےلیے یونیورسٹیوں اور اعلی تعلیم کے مراکز میں بڑی ہلچل نظر آئی۔ اس دور میں ’ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی‘ کی پالیسی بھی اختیار کی گئی اور دھڑا دھڑ یونیورسٹیاں قائم کی گئیں۔ پھر ان یونیورسٹیوں میں بہت سارے نئے شعبے بھی قائم کیے گئے اور کئی نئے پروگرام جاری کیے گئے۔ ایچ ای سی کے کرتا دھرتا 10 انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ‘کی مجسم تصویر بنے نظر آتے تھے کہ اچانک ’کولیشن سپورٹ فنڈ‘ کے سوتے خشک ہوگئے اور ایچ ای سی پر ہن برسنا بند ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: اخلاقیات پر مصنوعی ذہانت کے ساتھ ایک مکالمہ
اس کے بعد معلوم ہوا کہ کئی یونیورسٹیاں تو صرف اینٹوں اور پتھروں کی عمارت کی صورت میں ہیں اور ان میں کئی شعبے صرف کاغذات میں ہی پائے جاتے ہیں، کئی پروگرام ایسے ہیں جن میں طلبہ موجود ہی نہیں، کئی لوگ جو اسکالرشپ لے کر باہر گئے، وہ واپس ہی نہیں آئے، کئی پروجیکٹ بس نام ہی کے پروجیکٹ تھے۔ ’تحقیقی مجلات‘کا ڈراما الگ۔ Egyptology یعنی ’مصریات‘ کے موضوع پر ایک بوگس مجلے میں پاکستان کے آئینی مسائل پر چند صفحات کا مقالہ شائع ہو جسے 3 مقالہ نگاران نے لکھا ہو اور وہ مجلہ ایچ ای سی کے اعلی درجے کے مجلات میں شامل ہو! یہ صرف ایک مثال ہے، ورنہ تحقیقی مجلات کے نام پر جو کھیل رچایا گیا ہے، اس کی تفصیلات بہت اندوہناک ہیں۔
ایچ ای سی کا آرڈی نینس اسے ’ریگولیٹر‘ کی حیثیت نہیں دیتا، نہ ہی اس کی دفعہ 10 جو ایچ ای سی کے اختیارات کے متعلق ہے، اسے ایسا کوئی اختیار دیتی ہے، لیکن ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں پر اپنی مانی قائم کرنے کے لیے خود کو ریگولیٹر کے طور پر ان پر مسلط کیا ہوا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جب پچھلے سال سپریم کورٹ میں مقدمہ آیا کہ سرکاری یونیورسٹیوں کا معیار بہت زیادہ گر گیا ہے اور وہاں انتظامی بدعنوانی اور مالیاتی کرپشن کے علاوہ علمی زوال کی بدترین صورتحال ہے، تو ایچ ای سی نے سپریم کورٹ کے سامنے گربہ مسکین بن کرکہا تحریری موقف یہ دیا کہ یونیورسٹیاں اپنے امور میں خود مختار ہیں اور ایچ ای سی تو انہیں صرف سفارشات ہی دے سکتی ہے!
ڈاکٹر مختاراحمد کا ایچ ای سے کے چیئرمین کے طور پر دور کل ختم ہوا۔ وہ 2014ء سے 2018ء تک ایچ ای سی کے چیئرمین رہے۔ اس کے بعد اگست 2022ء میں انہیں پھر 2 سال کےلیے چیئرمین بنایا گیا۔ واضح رہے کہ پہلے چیئرمین ایچ ای سی کے عہدے کی مدت 4 سال تھی لیکن 2021ء میں ایک ترمیم کے ذریعے اسے 2 سال کردیا گیا۔ اسی سال ایک اور ترمیم کے ذریعے یہ بھی قرار دیا گیا کہ چیئرمین کے عہدے پر 2 دفعہ سے زائد کسی کو تعینات نہیں کیا جائے گا۔ اس کے باوجود جولائی 2024ء میں ڈاکٹر مختار کو ایک سال کی توسیع دی گئی جو قطعی غیر قانونی تھی۔ تاہم اس لاقانونیت کے خلاف قانونی کارروائی ایک سال میں پوری نہیں ہوسکی اور کل اس ایک سال کی مدت کا بھی اختتام ہوگیا۔
ڈاکٹر مختار نے آخر میں بہت کوشش کی کہ کسی طرح انہیں مزید ایک سال کی توسیع ملے، یا کم از کم اتنا کیا جائے کہ جب تک نیا چیئرمین ایچ ای سی تعینات نہ ہو، انہیں عہدے پر کام کرنے دیا جائے، لیکن یہ مقامِ شکر ہے کہ اس بار حکومت نے قانون کی خلاف ورزی سے انکار کیا کیونکہ ایچ ای سی آرڈی نینس میں صراحت کے ساتھ قرار دیا گیا ہے کہ چیئرمین کا عہدہ خالی ہونے پر ایچ ای سی کے مستقل ارکان میں کسی کو عارضی چیئرمین کے طور پر تعینات کیا جائے گا اور یہ تعیناتی زیادہ سے زیادہ 3 ماہ کےلیے ہوگی جس کے دوران میں مستقل چیئرمین کی تعیناتی کی جائے گی۔ چنانچہ کل جاری کیے گئے نوٹی فیکیشن کے مطابق وزارتِ تعلیم کے سیکریٹری کو، جو ایچ ای سی کے مستقل ارکان میں سے ہیں، 3 مہینوں کے لیے عارضی چیئرمین مقرر کرلیا گیا ہے۔
ڈاکٹر مختار تقریباً ایک عشرے تک ایچ ای سی کے سربراہ رہے۔ چنانچہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اس دوران میں سرکاری یونیورسٹیوں میں ایڈ ہاک ازم کا راج رہا اور پچھلے سال سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ وفاقی اور صوبائی سرکاری یونیورسٹیوں میں تقریباً 2 تہائی یونیورسٹیاں ایسی ہیں جن میں وائس چانسلر کا عہدہ خالی ہے یا اس پر عارضی تعیناتی کی گئی ہے، یہی حالت رجسٹرار، ڈین اور دیگر عہدوں کی رہی ہے۔
مزید پڑھیے: اسلامی جمہوریہ میں طلاق کا غیر اسلامی قانون
سرکاری یونیورسٹیاں سالہا سال سے مالیاتی بحران کا شکار ہیں؛ بیشتر یونیورسٹیوں میں تنخواہوں اور پنشن کی مد میں دینے کےلیے رقم ہی پوری نہیں ہوتی، لیکن سرکاری ٹیلی وژن کو ایک انٹرویو میں ڈاکٹر مختار نے کہا کہ اس سال کے وفاقی بجٹ میں یونیورسٹیوں کےلیے وہی رقم ہے جو 2017ء سے انہیں دی جاتی رہی ہے؛ مزید یہ کہ یونیورسٹیوں کا ڈیویلپمنٹ بجٹ جو پچھلے سال 61 بلین تھا، اس سال اس میں شدید کمی کرکے اسے 39 بلین کردیا گیا ہے!
انٹرویو میں ڈاکٹر مختار نے مزید کہا کہ کسی زمانے میں پاکستانی یونیورسٹیوں میں سالانہ صرف 850 تحقیقی مقالات شائع ہوتے تھے، جبکہ اب سالانہ 40 ہزار تحقیقی مقالات شائع ہوتے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان 40 ہزار مقالات کے نتیجے میں ملک میں کیا انقلاب برپا ہوا ہے؟ جعلی مجلات، جعلی مقالات، جعلی تحقیق، ایچ ای سی کی اس پالیسی نے قوم کو دیا کیا ہے؟
پچھلے سال سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ سرکاری یونیورسٹیوں کے فیصلہ ساز اداروں، سینڈیکیٹ، سینیٹ، بورڈ آف گورنرز وغیرہ کے اجلاس ہوتے ہی نہیں ہیں۔ ایچ ای سی نے یہ ساری باتیں تسلیم کیں۔ سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں ان امور اور دیگر متعلقہ امور پر ایچ ای سی، وزارتِ تعلیم، وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سرکاری یونیورسٹیوں کو تفصیلی احکامات دیے گئے۔ یہ فیصلہ پچھلے سال اکتوبر 2024ء میں جاری کیا گیا۔ تقریباً 10 مہینے ہوچکے۔ اب صورتحال کیا ہے۔ صرف ایک یونیورسٹی کا معاملہ دیکھ لیجیے جس کا انتظام اس دوران میں ڈاکٹر مختار نے براہِ راست سنبھالا۔
مزید پڑھیں: ایران کے خلاف اسرائیلی و امریکی جارحیت: اہم قانونی سوالات
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی ریکٹر کو تفصیلی طور پر چارج شیٹ کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے انہیں معطل کرتے ہوئے وزارتِ تعلیم کو حکم دیا کہ انہیں ہٹا کر یونیورسٹی کےلیے اہل ریکٹر کی تعیناتی مستقل بنیادوں پر کی جائے اور جب تک یہ نہ ہو، ایچ ای سی کے چیئرمین عارضی طور پر ریکٹر کی ذمہ داریاں سنبھال کر معاملات کو درست کرلیں۔ مزید سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ یونیورسٹیوں میں عارضی تعیناتی 6 مہینوں سے زیادہ مدت کےلیے نہ ہو۔ ڈاکٹر مختار نے نومبر 2024ء میں اس یونیورسٹی کے ریکٹر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ قانوناً انہیں اپریل 2025ء تک سارے کام نمٹا کر یہاں سے نکل جانا چاہیے تھے، لیکن ابھی تک اس یونیورسٹی کےلیے مستقل ریکٹر کی تعیناتی کےلیے اشتہار تک نہیں دیا گیا۔ یونیورسٹی کے آرڈی نینس کے مطابق بورڈ آف گورنرز کا اجلاس ہر 3 مہینوں میں کم ازکم ایک دفعہ ہونا لازمی ہے اور سپریم کورٹ نے اس کا صریح حکم بھی دیا تھا، لیکن ڈاکٹر مختار نے 7 مہینوں میں کوئی میٹنگ نہیں بلائی، حالانکہ کئی معزز ارکان نے بارہا میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا۔ یونیورسٹی کا بجٹ بھی بورڈ سے منظور ہونا لازمی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بجٹ منظور ہوئے بغیر ڈاکٹر مختار یونیورسٹی کے اخراجات کس قانون کے تحت چلاتے رہے؟
اور سو سوالوں کا ایک سوال: کیا ڈاکٹر مختار کے اس ایک عشرے پر محیط دور کا علمی و مالیاتی آڈٹ کبھی ہوسکے گا؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
افتخار محمد چودھری ایچ ای سی چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر عطاء الرحمان