بھارت کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
بھارت کے خلاف کشمیری عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈا مسترد کر دیا، شدید نعرے بازی
آزاد کشمیر کے شہروں میرپور، ڈڈیال، چکسواری، اسلام گڑھ اور دیگر علاقوں میں بھارت کے خلاف کشمیری عوام نے احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
مظاہرین نے مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں کا قتل بھارتی خفیہ ایجنسیوں اور فورسز کی دہشتگردی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: متنازعہ وقف بل کے باعث پورا بھارت ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا
ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا کر ریلی کے شرکا نے کہا کہ بھارت اپنی فورسز کی دہشتگردی کو چھپانے کے لیے پاکستان پر الزامات اور حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ پوری قوم اس وقت پاک فوج کے شانہ بشانہ بھارت کو دندان شکن جواب دینے کے لیے تیار ہے۔
احتجاجی مظاہرے میں وکلا، سول سوسائٹی، تاجروں اور طلبا سمیت تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں : مودی ٹرمپ ملاقات، وائٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ
مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر اس خطے میں جنگ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پوری دنیا کو مسئلہ ہوگا، انڈیا نے پہلگام میں جو آپریشن کیا اس کی مذمت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے غلط الزام لگا پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی، پاکستان میں انڈین دہشتگردی کا ثبوت کلبھوشن کی صور ت میں موجود ہے۔
شرکا نے کہا کہ انڈیا کسی غلط فہمی میں نہ رہے ہم منہ توڑ جواب دیں گے، تم اگر پانی بند کرو گے تو ہم تہماری سانسیں بند کریں گے، پھر ان دریاؤں میں خون بہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news احتجاجی مظاہرے آزاد کشمیر بھارت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احتجاجی مظاہرے بھارت
پڑھیں:
تنزانیہ میں صدارتی انتخابات کے خلاف پُرتشدد مظاہرے، ہلاکتیں 700 تک پہنچ گئیں
تنزانیہ میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کر گئے، جن میں ہلاکتوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور امن و امان مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔
اپوزیشن جماعت کے ترجمان کے مطابق صرف دارالسلام میں 350 اور موانزا میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار پارٹی کارکنوں نے اسپتالوں اور طبی مراکز سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مصدقہ معلومات کے مطابق کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اصل تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی بدامنی کے باعث ملک بھر میں فوج تعینات کردی گئی ہے، جب کہ انٹرنیٹ سروس بند اور کرفیو نافذ ہے۔ کئی شہروں میں احتجاج تشدد میں بدل گیا، مشتعل مظاہرین نے دارالسلام ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا، بسوں، پیٹرول پمپس اور پولیس اسٹیشنز کو آگ لگا دی اور متعدد پولنگ مراکز تباہ کر دیے۔
بحران کی جڑ حالیہ صدارتی انتخابات ہیں جن میں صدر سامیہ سُلوحو حسن نے 96.99 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو انتخابی دوڑ سے قبل ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات “جمہوریت پر کھلا حملہ” اور “عوامی مینڈیٹ کی توہین” ہیں۔
تنزانیہ میں اس وقت نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کا بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔