ہم امن کے خواہاں لوگ کس کرب سے گزر رہے ہیں یہ احساس کرنا آج بہت مشکل ہے کیونکہ پورا خطہ اک عجیب ہولناک اور جذباتی کیفیت میں مبتلا ہے،ہم امن پسندوں کے درد کو آج سمجھنا اتنا ہی مشکل درد ہے جیسے شکم مادر کے درد میں لوٹنے والی ماں کے احساس اور کیفیت کو سمجھنا،ہم امن کی آشا کے دیپ جلانے کی خواہش اور امید کے پیغامبر کیوں کر خطے کے امن کو تنگ نظر مذہب پرستی کی بھینٹ چڑھنے دیں۔
کیوں نہ ہم امن،پیار اور محبت کی منڈلیاں سجائیں اور اپنی نسل میں بٹوارے کی سوچ کی جگہ باہمی ربط اور مثبت سوچ کے دیے جلائیں،ایسا ممکن ہے اور ایسا ہو بھی سکتا ہے،بس صرف ہمیں اپنے لہجے اور گفتگو کو غور و فکر اور اپنا پن دینا ہے،نفرت کی تمام شاخوں کو کاٹ کر انسان کی حرمت اور عزت کو مقدم رکھنا ہے۔
جعفر ایکسپریس کا افسوسناک واقعہ ہو یا پہلگام کا متشدد واقعہ،ان دونوں واقعات کی کھوجنا مل بیٹھ کر کرنے سے ہی امن کی کرن سر ابھارے گی،ایسا آج بھی ممکن ہے کہ ہم آپس میں ایک پڑوسی کی طرح مل بیٹھ کر خطے سے نفرت،تشدد اور دوری کو ختم کرکے مل بیٹھ کر دہشت گردی کے تمام راستے بند کردیں اور خطے کی سیاسی اور معاشی آزادی کی جنگ مل بیٹھ کر طے کریں،یہ ممکن ہے کیوں کہ مشکل فیصلے کڑے وقت پر کرنا ہی دانشمندی کہلاتا ہے۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ کنول کی فطری صلاحیت حشرات اور پانی کے ضرر رساں کیڑوں سے لڑ کر جدوجہد کے نتیجے میں سارے منفی کرداروں کی روک تھام یا ٹانگ کھینچنے کے عمل سے بچتے بچاتے اپنے اعتماد اور صلاحیت سے نمو پا کر دنیا میں خوبصورتی اور عزم کا نشان بن کر’’کنول‘‘ بنتا ہے۔ اسی طرح ’’چنبیلی‘‘ کے پھول کی بھینی بھینی خوشبو شام سمے سے رات کے خنک پہر تک انسانی تخلیق کے وہ گوشے وا کر دیتی ہے جن سے دوستی، محبت، امن اور سنگی سے محبت بھرے جذبات کی آمیزش انسان پر وہ سحر طاری کردیتی ہے جو سب کے لیے امن و سکون کی شانتی کا پیغام ہوتا ہے۔
سوچتا ہوں کہ ہم ’’کنول‘‘ کی خوبصورت جدوجہد اور چنبیلی کی جہاں کو معطر کردینے والی صلاحیت کو نجانے کیوں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے گریز پا ہیں، ہمارے ہاں جانے کیوں ماضی کی دانش کو کریدنے اور اس میں چھپے ہوئی زندگی کو دیکھنے اور غورکرنے کا رجحان کیوں تنزلی کی طرف جارہا ہے۔
کیا ٹیکنالوجی کی جدت نے واقعی ہماری دانش پرکاری ضرب لگادی ہے کہ ہم ماضی کی دانش پر غور و فکرکو مکمل بھول چکے ہیں، لگتا ایسا ہی ہے کہ آج کی نسل کو ٹیکنالوجی کی ترقی کی آڑ میں جہاں دانش پر غور و فکر سے روکا جا رہا ہے، وہیں نوجوان نسل جدید ٹیکنالوجی کے پیچھے ایسا سرپٹ دوڑ رہی ہے کہ نہ اس میں سماج کو بنانے کی فکر ہے اور نہ ہی اہل دانش کے ان مثبت رویوں کو دیکھنے کی فرصت ہے جن پر غور و فکر پیدا کرنا آج کے سماج کا نہ صرف فرض ہے بلکہ اہل دانش کی فکر میں تحقیق کے بعد اس میں مزید وسعت پیدا کرنے کی ضرورت بھی ہے۔
اب تو نوجوان نسل سماجی بیگانگی کے ایسے پھیرے میں مبتلا ہو چکی ہے جہاں وہ جھوٹ کو سچ، ملامت کو مزاحمت اور انتشار کو جدوجہد سمجھنے لگی ہے۔ اس مرحلے پر جب سماج سیاسی اور معاشی بے راہ روی کا شکار رہے گا تو خطے کی ترقی اور آپسی ہم آہنگی کے تخلیقی سوتے کیونکر پھوٹیں گے؟ ایسے ماحول اور جاں سوز لمحات میں میرے دیس میں شنگھائی سربراہی کانفرنس نے ایک مرتبہ پھر دو روٹھے پڑوسیوں کو ایک دوسرے سے باہمی ربط اور آپسی رشتوں کو مضبوط کرنے کا بہانہ فراہم کیا تھا، جس سے فائدہ اٹھایا جانا دراصل دانش کی فتح کہلایا جاسکتا تھا۔
پاکستان میں شنگھائی سربراہ کانفرنس کے اس اہم موقعے پر تو یہ ممکن تھا کہ بھارت اپنے قومی پھول ’’کنول‘‘ ایسا اور پاکستان اپنے قومی پھول ’’چنبیلی‘‘ ایسی مہک امن کی خاطر خطے کے امن پرور عوام میں اس طرح بکھیر دیں کہ دونوں ممالک کے عوام آپسی رشتوں کو ’’کنول‘‘ اور ’’چنبیلی‘‘ کی خوبصورتی اور تازگی مانند استوار کریں، خطے میں ’’چنبیلی‘‘ اور ’’کنول‘‘ کی سیوا کر کے ان دونوں قومی پھولوں ایسے رویے اپنی زندگی اور اپنے رہن سہن کا شعار بنا لیں۔ دونوں ممالک کے امن پرور عوام ہمیشہ سے ایک دوجے کے دکھ سکھ کے ساتھی اور ساجھے دار رہے ہیں اور ایسا ہونا آج بھی ممکن ہے۔
جب دس برس کے وقفے کے بعد شنگھائی سربراہ کانفرنس میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر جی اسلام آباد آسکتے ہیں، بلاول بھٹو بطور وزیر خارجہ بھارت جاسکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کے بیچ اہل دانش، صحافی، فن و ثقافت کے مہان فنکار اور کرکٹ، ہاکی، فٹ بال کے کھلاڑی کیوں نہیں ایک دوسرے سے مل کر خطے کے ان دو ممالک کی معاشی، سیاسی اور امن و شانتی کی آشا کو ایک دوسرے کے عوام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
ایسا ہوسکتا ہے، ہوتا رہا ہے، پردھان منتری واجپائی کے امن کو بھارت کی سرکار خطے کی ترقی اور محبت میں تقسیم در تقسیم کرسکتی ہے، کیونکہ ایسا ہوتا رہا ہے جب پاکستان اور بھارت کے بچھڑے خاندان ویزے کی سہولت کے تحت ملے ہیں، ایک دوجے کے دکھ سکھ کی ساجھے داری اور رشتے داری کی ہے۔
یہ ماضی قریب ہی کی بات ہے کہ پاک انڈیا فورم، سارک ممالک کے طلبہ وفود، اہل دانش اور صحافی ایک دوسرے کے ممالک میں آسانی سے آتے رہے ہیں اور محبتوں کو بڑھاتے رہے ہیں اور ایک دوجے کے ساتھاری رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا دونوں ممالک کی سرکار اور وزارت خارجہ کے بس میں یہ بات نہیں کہ معاشی محرومی کے شکار خطے کے دو پڑوسی ممالک کے عوام کی خوشحالی کو ’’کنول‘‘ مانند خوبصورت اور ’’چنبیلی‘‘ مانند امن اور محبت سے معطر کردیں؟ ایسا ہونا اس وقت ہی ممکن ہے جب عملی اقدامات کیے جائیں اور متنازعہ امور اور جنگی بیانات سے پرہیزکیا جائے۔بقول ساحر لدھیانوی کہ!
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مل بیٹھ کر ایک دوسرے غور و فکر اہل دانش اور محبت ممالک کے ممکن ہے رہے ہیں کے امن خطے کے امن کی
پڑھیں:
عوام کی خدمت پر تنقید کی جارہی ہے، ایسا کرنے والوں کی بے بسی سمجھتی ہوں، مریم نواز
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ عوام کی خدمت اور عملی اقدامات پر آج ان پر تنقید کی جا رہی ہے، مگر وہ بخوبی جانتی ہیں کہ ایسے اعتراضات محض بے بسی کا اظہار ہیں۔
میانوالی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہاکہ گجرات جو انتظامی لحاظ سے پنجاب کے بڑے شہروں میں شمار ہوتا ہے، وہاں ڈرینج سسٹم موجود ہی نہیں تھا۔ اب صوبائی حکومت 26 ارب روپے کی خطیر لاگت سے نیا نظام قائم کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا جلالپور پیروالا کا دورہ، سیلاب متاثرین میں امدادی چیک تقسیم کیے
انہوں نے کہاکہ پنجاب کے تمام شہری برابر ہیں، صرف بیانات دینا اور دعوے کرنا آسان ہوتا ہے، مگر اصل خدمت کے لیے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔
سیلاب میں جس کی جان چلی گئی ہے اس کو 10 لاکھ ملے گا ، جن کا مکمل گھر گر گیا ان کو 10 لاکھ اور جن کے گھر کا کچھ حصہ گرا ہے انکو 5 لاکھ روپے دیے جائیں گے جبکہ جس کی گائے یا بھینس بہہ گئی ہے ان کو 5 لاکھ ملے گا ،وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز pic.twitter.com/9crSE6yaJB
— WE News (@WENewsPk) September 15, 2025
وزیراعلیٰ نے کہا کہ گزشتہ 3 ماہ کی مسلسل بارشوں کے بعد بدترین سیلابی صورتحال کا سامنا ہے، مگر اس کڑے وقت میں بھی کچھ لوگ صرف تنقید کو ہی اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔
مریم نواز نے کہاکہ جب وہ دریائے روای میں کشتی پر گئیں تو یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اگر کوئی حادثہ پیش آجاتا تو کیا ہوتا، لیکن وہ جانتی ہیں کہ اس طرح کی باتیں صرف ناقدین کی لاچاری کو ظاہر کرتی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہاکہ سیلاب متاثرین کے لیے تین وقت کے کھانے کا بندوبست کیا گیا ہے، ہر خیمہ بستی میں موبائل اسپتال قائم کیا گیا ہے جبکہ جانوروں کی دیکھ بھال اور چارے کا انتظام بھی موجود ہے۔
انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ سیلاب سے ہونے والے تمام نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا، اور اس مقصد کے لیے ابھی سے عملی اقدامات شروع کر دیے گئے ہیں۔
مریم نواز نے کا کہنا تھا کہ پانی میں ڈوبنے اور دیواریں گرنے کے واقعات میں 100 جانیں ضائع ہوئیں۔ جاں بحق افراد کے لواحقین کو فی کس 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جن کا مکمل کچا مکان تباہ ہوا انہیں 10 لاکھ روپے، جزوی نقصان والے گھروں کے مالکان کو 5 لاکھ روپے، بڑے مویشی جیسے گائے یا بھینس کے مرنے یا بہہ جانے پر 5 لاکھ روپے جبکہ چھوٹے جانوروں کے نقصان پر 50 ہزار روپے فی کس ادا کیے جائیں گے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ ماضی میں امداد کی حد 4 لاکھ روپے تک محدود تھی، لیکن اب وہ 10،10 لاکھ روپے دینے جا رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرین کو ایئر لفٹ کرنے کے لیے پنجاب حکومت کتنے ڈرون استعمال کررہی ہے؟
مریم نواز نے اعلان کیا کہ سیلاب متاثرین ہمارے مہمان ہیں اور جب تک وہ اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹتے، حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی۔
2022 میں سیلاب آیا تو اس وقت کے وزیراعظم نے فضائی دورہ کیا، عینک ٹھیک کی نیچے دیکھا اور کہا او ہو بہت نقصان ہوگیا ہے سیلاب آنے کے کل 15 دنوں بعد ان کو ہوش آیا اور اس کیمپ پر جاکر تصویریں بنوا کر آئے جہاں مریم نواز کا ریسکیو کیمپ بنا ہوا تھا ، مریم نواز pic.twitter.com/LRcnqgel7t
— WE News (@WENewsPk) September 15, 2025
انہوں نے عمران خان کا نام لیے بغیر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ 2022 میں جب سیلاب آیا تو اس وقت کے وزیراعظم نے فضائی دورہ کیا، عینک ٹھیک کی، نیچے دیکھا اور کہا او ہو! بہت نقصان ہوگیا ہے، سیلاب آنے کے کل 15 دنوں بعد ان کو ہوش آیا اور اس کیمپ پر جاکر تصویریں بنوا کر آئے جہاں مریم نواز کا ریسکیو کیمپ بنا ہوا تھا۔آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بے بسی تنقید سیلاب متاثرین مخالفین مریم نواز وزیراعلٰی پنجاب وی نیوز