آئیے! آج آپ کو رمضان چاچا کی کچھ باتیں بتاتا ہوں۔ تھے بوڑھے، لیکن ہمت اور حوصلہ کڑیل جواں تھا، کام ان کا سبزی بیچنا تھا، رہتے تنہا، چھوٹے سے کچے گھر میں تھے لیکن ارادوں کے کمال پکے تھے۔ یہ ارادہ اور عزم ہی تو تھا کہ کہتے تھے کہ مرتے مرجاؤں گا لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا منظور نہیں اور ہوا بھی ایسا ہی، حال ہی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔
جب بیمار ہوئے تو سمجھ گئے تھے کہ اب وقت رخصت قریب ہے، تو انھی دنوں اپنے ایک نیک دل پڑوسی کو پیسے سپرد کرتے ہوئے یہ گزارش کی میرے کفن دفن کا انتظام اس رقم سے باآسانی ہوجائے گا اور اگر کچھ بچ جائیں تو قریب کی مسجد میں وضو خانہ زیرِ تعمیر ہے، اس میں ایصالِ ثواب کی نیت سے ملا دینا اور پھر بعد از انتقال، سارے انتظامات بھی باآسانی تکمیل پا گئے اور ایصالِ ثواب کی نیت بھی پوری ہوئی۔
رمضان چاچا جب سبزی بیچنے محلے میں آتے تھے تو اکثر سلام دعا ہوجاتی تھی، صوم صلوٰۃ کے پابند تو تھے ہی، زندگی سے جڑے دیگر معاملات کو بھی احکامِ شریعت کے تابع رکھنے کی ہر دم کوششوں میں مصروف رہتے تھے، ناجائز منافع خوری سے نفرت اور حصول رزق حلال کی کوششوں سے پیار تھا۔
ایک دن احمد کو اُن سے سبزی لیتے دیکھا اور بحث کرتے ہوئے بھی ( احمد میرے کزن عبیر کے بیٹے کا نام ہے، ہم ایک ہی محلے میں رہتے ہیں ) احمد کو چاچا نے بتائے کسی سبزی کے 25 روپے تھے لیکن اس کا اصرار تھا کہ قیمت کم کر کے 20 روپے کردی جائے۔
رمضان چاچا اُسے بہت پیار سے سمجھا اور قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن اس کی بڑھتی تکرار تمام کوششوں کو بے سود کیے دے رہی تھی، پھر وہ کچھ دیر کو خاموش ہوئے اور احمد سے ایک گلاس پانی مانگا، گرمیوں کے دن تھے، سورج آگ برسا رہا تھا، احمد پانی لینے گیا تو انھوں نے جیب سے ( کئی جگہوں سے پھٹا) رومال نکالا، پسینا پوچھا اور کچھ دیر قریب بنے چبوترے پر بیٹھ گئے۔
پھر احمد پانی لے لایا، ٹھیلا چونکہ گھر کے بالکل سامنے تھا شاید اسی لیے، وہ ننگے پاؤں ہی باہر آگیا تھا، رمضان چاچا نے پانی پیا، سبزی تولی اور اسے دے دی۔ (پیسے 20 روپے ہی لیے تھے۔) ’’ سنو احمد … بیٹا چپل پہنے رکھا کرو، گلی میں پتھر اورکانچ وغیرہ پڑے ہوتے ہیں، چبُھ گئے تو تکلیف ہوگی۔‘‘ بس اتنا کہہ کر انھوں نے احمد کے سر پر ہاتھ رکھا اور دھیرے دھیرے ٹھیلا بڑھاتے آگے نکل گئے تھے۔
پھر احمد گھر کے اندر گیا اور نہایت پُرجوش انداز میں اپنے امی، ابو کو بتانے لگا کہ کیسے وہ پورے پانچ روپے بچانے میں کامیاب ہوا تھا۔ امی، ابو کا یہ سننا تھا کہ لگے ہونے اس پر صدقے واری۔ ’’یہ ہوتی ہے ہوشیاری اور چالاکی، آج بچائے گا توکل کام آئیں گے نا، شاباش بیٹا، بس آج سے گھر کے سودے کی خریداری تمہارے ذمے‘‘ پھر جب یہ باتیں ہوگئیں تمام، تو اسی رات وہ لوگ ایک شاندار ہوٹل آئے تھے۔
احمد اچھے نمبروں سے پاس ہوا تھا، اسی خوشی میں رات کا کھانا باہرکھانے کا پروگرام بنا تھا،کامیابی کے افق پر ستاروں کی گنتی کا پیچھا کرتے، اُس تھری اسٹار ہوٹل میں، قیمتوں کو بھی چاند چڑھے تھے … تین لوگوں کے کھانے کا بل ہزاروں میں بنا تھا، جسے نہایت آرام سے، بغیرکسی حیل و حجت ادا کردیا گیا تھا۔ (شاندار ہوٹل کے اُس پرُسکون ماحول میں کسی بحث و مباحثے کی گنجائش تھی بھی نہیں) جاتے، جاتے ویٹر کو بھی ’’ ٹپ‘‘ کی مد میں اچھے خاصے پیسے تھما دیے گئے تھے۔
پتہ نہیں ہمارے یہاں ایسا کیوں ہوتا ہے، جہاں بچت ہوسکتی ہو، وہاں خوب لُٹایا جاتا ہے اور پھر بچت ہی کے نام پرکسی کی ’’حق تلفی ‘‘ کو نہایت آرام سے چالاکی اور ہوشیاری کا نام دے دیا جاتا ہے۔ بات صرف رمضان چاچا سے قیمت پر کی جانے والی تکرار اور مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے کی نہیں، پورے ہفتے کے مختلف دنوں میں لگنے والے جا بجا بچت بازاروں میں دیکھیں نہ کہ کیا ہو رہا ہے، ان مارکیٹوں کا احوال بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔
یہ بازار اشیاء خورونوش کی کم قیمتوں کے حوالے سے کا فی شہرت رکھتے ہیں۔ پھل، سبزی، دالیں، چاول، سرف، صابن، کپڑے، برتن، غرضیکہ روزمرہ کی زندگی سے جڑی تقریبا تمام اشیا ئے ضروریہ ان بازاروں میں موجود ہوتی ہیں، سبزی اور فروٹ کے ٹھیلے تو جا بجا لگے ہوتے ہیں، اب ظاہر ہے جیسا مال ویسی قیمت، اس لیے ان ٹھیلوں پر سجے پھل، سبزیاں اور دیگر اشیاء معیاری نقطہ نگاہ سے مختلف درجات کی حامل ہوتی ہیں۔
اب ہماری دکھوں کے مارے اور انتہائی بے چارے غریب عوام،کیا کرتے ہیں، ذرا وہ بھی سُن لیجیے، ان ٹھیلوں پر جایا جاتا ہے، سب سے پہلے قیمت پوچھی جاتی ہے ( حالانکہ بیچنے والا چیخ ، چیخ کر پیسے بتا رہا ہوتا ہے) پھر اصرار قیمت کو مزید کم کرنے پرکیا جاتا ہے اور اگر پیسے کم ہوجائیں تو پھولے نہیں سمایا جاتا، پھر جناب کیا ہوتا ہے کہ ٹھیلے والے سے مانگی جاتی ہے، ایک عدد تھیلی اور پھر چھانٹی کا مصروف ترین عمل شروع ہو جاتا ہے۔
خوب اچھے اچھے بڑے بڑے آلو، پیاز، ٹماٹر، سیب اور ناشپاتیاں چھانٹ لی جاتی ہیں اور باقی ذرا نسبتا کم معیاری اشیاء کس کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں؟ یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی، بہرحال پھر رات گئے تک ٹھیلوں پر بچ جانے والی چیزوں کو اونے، پونے داموں فروخت کردیا جاتا ہے۔
کیونکہ بہت سی ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جنھیں اگر ٹھیلے والے گھر واپس لے جائیں تو اگلے دن تک خراب ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے تو بہرحال، بازاروں میں تو یہ سب ہو رہا ہوتا ہے، لیکن زندگی کے دیگر معاملات میں بھی بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے۔
اب بات یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں ہونا کیا چاہیے؟ تو جناب ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ خرید و فروخت کے علاوہ اور ایسے کونسے معاملات ہیں جہاں ہم سے حق تلفی جیسا گناہ سرزد ہو رہا ہے اور پھر ایسے گناہوں سے خود کو بچا لیا جائے، رمضان چاچا جیسے ایماندار لوگوں سے قیمتوں کی کمی پر بحث نہ ہو تو اچھا ہے، بازاروں میں خراب سامان ہر گز نہیں لیا جائے، لیکن جب قیمتیں اگرکافی حد تک کم ہوں، تو پھر معیار پر اس حد تک سمجھوتا کہ آلو، سیب ، ٹماٹر اورکینو چھوٹے، بڑے، درمیانے سب قبول کر لیے جائیں، تو اس میں کوئی بُری بات نہیں۔
ایسا نہیں کہ قیمتوں پر بحث و تکرار ہونی نہیں چاہیے، ضرور ہونی چاہیے، لیکن اگر حق تلفی سے جڑے مسئلے کو پیش نظر رکھ کر یہ کام ہو، تو پھر کیا ہی خوب ہو۔ خرید و ٖفروخت کے معاملات میں جہاں خریداروں پر ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، وہیں فروخت کنندگان بھی بری الذمہ نہیں۔ بے ایمانی، ناجائز منافع خوری، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی سب بدترین عمل ہیں، ان سے اجتناب لازمی ہے۔
آئیے! ایک ایسے نظام کی تشکیل میں اپنا اپنا کردار ادا کریں کہ جہا ں نہ صرف خریدنے اور بیچنے، بلکہ زندگی سے جڑا ہر معاملہ احکام خداوندی اور شرعی اصولوں کے عین مطابق ہو۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتی ہیں اور پھر ہوتا ہے جاتا ہے حق تلفی
پڑھیں:
پانی
ٹرین سبک رفتاری سے چلے جا رہی تھی، شام کے سائے پھیل رہے تھے۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ دریائے سندھ ہے۔‘‘
’’یہ دریائے سندھ ہے لیکن یہ تو بہت چھوٹا سا ہے۔‘‘
اس کی آنکھوں میں حیرت پنہاں تھی۔ دریائے سندھ کا پاٹ واقعی سکڑ کر بہت کم نظر آ رہا تھا، دور خشکی میں کشتیاں کھڑی نظر آ رہی تھیں، غالباً اپریل یا مئی کا مہینہ تھا۔ توقع سے زیادہ گرمی پڑ رہی تھی۔ بارش کا دور دور پتا نہ تھا۔ یہ ابھی چند برسوں پہلے کی ہی بات ہے۔
دریائے سندھ دنیا کے بڑے دریاؤں میں سے ایک ہے جو پاکستان میں اسکردو سے ہوتا ہوا ہندوکش سے ہوتا دریائے گلگت سے ملتا ہے پھر اس میں دریائے استور سے ہوتا اونچے پہاڑوں سے تربیلا کے مقام پر اسے تربیلا ڈیم کے ذریعے کنٹرول کیا گیا یہ آگے دریائے کابل سے ملتا کالا باغ تک جاتا ہے وہی کالا باغ جس کے ڈیم بنانے کے جھگڑے ہماری نسل ہوش سنبھالنے سے سنتی آئی ہے۔
یہ ایک طویل دریا ہے جو اپنے اندرکئی دریاؤں کو سموتا پہاڑوں، نشیبی میدانی علاقوں سے ہوتا بہتا چلا جا رہا ہے۔ مقامات بدلتے اس کے نام بدلتے جاتے ہیں پر یہ وہی تاریخی دریا ہے جس سے کئی کہانیاں منسوب ہیں۔ مذہبی تہوار، قبائل کے روایتی تہوار، محبت کی داستانیں، جنگیں اور بھی بہت کچھ لیکن ان دنوں یہ موضوع دوسری طرح کا ہے لیکن جو بھی ہے بات توجہ طلب ہے۔
بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق ہے، یہ شوق سائنس فکشن سے ہوتا جاسوسی کہانیوں تک پہنچ گیا اور عمر کے ساتھ ساتھ بڑوں کے لیے قلم چلتا رہا لیکن بچپن میں کچھ ایسا تھا کہ جس نے ایک ناول جوکہ بچوں کے لیے ہی تحریرکیا تھا، جس کا عنوان تھا ’’ واٹر بم۔‘‘ یہ الگ بات کہ ہر انسان بچپن میں اپنے آپ کو بڑا پرفیکٹ سمجھتا ہے لیکن یہ ایک ایسی حقیقت بھی ہے کہ جسے جھٹلانا مشکل ہے۔
پانی دنیا کے لیے ایٹم بم کی مانند ہوتا جا رہا ہے یہ شاید عجیب سا محسوس ہو لیکن آج ہم پینے کے پانی کی جس طرح بے قدری کر رہے ہیں تو وہ وقت قریب ہے کہ ہم خدانخواستہ کسی بری صورت حال میں گھر جائیں۔ یہ ایک مفروضہ ہے اور مفروضے جھوٹے بھی ہوتے ہیں کہ ہم ایسے حالات نہ پیدا کریں کہ ان مفروضات کو سچ کر دکھائیں۔ ہم بھی اپنے آپ کو ماہر قلم کار سمجھ کر لکھتے گئے لیکن شکر ہے خدا کا وہ ناول چھپ نہ سکا۔
ہم یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے اندرکیا کمزوریاں ہیں، نقائص ہیں لیکن ان کو دورکرنا تو درکنار اس پر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ہمارے اداروں کی ناقص پالیسیاں۔ آج صرف شہرکراچی کو ہی اٹھا کر دیکھ لیں، کیا کچھ تبدیل ہوا ہے۔ کراچی کی پرانے زمانے کی ویڈیوز ملاحظہ فرما لیں، خود سمجھ میں آجائے گا کہ پہلے کے حالات کیسے تھے اور آج کیا ہیں۔
صفائی کے ناقص انتظامات تو ایک جانب بقول سوشل میڈیا کے مطابق نشہ کرنے والے ان افراد نے شہر کے پلوں، سڑکوں کے گرد حفاظتی باڑھوں کو نگلنے کے ساتھ اب برجز کے نیچے سے لوہے کے سریوں کو بھی نگلنا شروع کر دیا ہے۔ یہ موضوع اب دریائے سندھ کی مانند کہیں سے کہیں بہتا چلا جا رہا ہے کہ شکوے شکایات بہت۔
دریائے سندھ کے حوالے سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جو معاہدہ طے پایا تھا، کیا اس پر واقعی عمل ہو رہا ہے۔ انڈیا نے جن تیرہ پروجیکٹس پر کام شروع کر رکھے ہیں، کیا ان کی صحت پر کوئی اثر پڑا ہے کہ وہ رک کر نہیں دے رہے اور یہاں ہم آپس میں ہی ایک رکابی کی کھینچا تانی میں لگے ہیں۔
نہ تم بات کرو نہ ہم کچھ کہیں، والی کہانی میں کوئی صداقت ہے تو یہ کہ اس میں ہمارا ہی نقصان ہے۔ باہر والے ہمارے بخیے ادھیڑنے پر لگے ہیں اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے پر تلے ہیں۔ موسمی تبدیلیوں سے ہونے والے مسائل الگ سے سر اٹھا رہے ہیں۔
بھارت آگے بڑھ کر ترقی کی راہوں پر دوڑنا چاہتا ہے ،ایسا کرنے میں اسے کوئی روک ٹوک نہیں ہے وہ بھی اندرونی خلفشاروں کا شکار ہے لیکن اپنے ملک کے وسائل کے لیے، ترقی کے لیے وہ ایک پلیٹ فارم پر ہیں۔ اندرونی مسائل پر ایک دوسرے سے تُو تکار چلتی رہتی ہے، ہنگامے شور اٹھ رہے ہیں، اقلیتی مسائل بے شمار ہیں، مسلمانوں کا جینا دوبھر لیکن اپنے ملک کی ترقی کے لیے وہ ایک ہوکر سوچ رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔
تفصیل سے دیکھیں تو پانی کی صورت حال سندھ اور پنجاب کے درمیان کافی اونچ نیچ کا شکار نظر آتی ہے۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پانچ دریاؤں کا مالک آج پانی کے مسائل میں گھرا ہے، ہیڈ پنجند کے مقام پر دریائے چناب، ستلج، بیاس، جہلم اور راوی آ کر ملتے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے پنجاب پانچ دریاؤں کی سرزمین کہلاتا ہے۔ دریائے راوی کے تصور سے ہی ایک خوبصورت تصور ذہن میں ابھرتا تھا آج دریائے راوی کی جو حالت ہے اسے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ کبھی یہاں لاہور کی اشرافیہ چہل قدمی اور دوڑ لگایا کرتی تھی۔
پانیوں پر پہرے لگ جائیں تو وہ سڑ جاتے ہیں، تعفن و غلاظت کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔ ہم اپنے اندر کے حالات کو سنوار نہیں سکتے تو بگاڑنے کی کوشش بھی نہ کریں۔ انسانوں کو پینے کے پانی کی ضرورت ہے، یہ ان کا بنیادی حق ہے اسے سلب کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ہمارے جیسے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک گھر کے مختلف حصوں میں رہتے اس انتہائی اشد ضروری نعمت پر اتنا واویلا کیوں؟
یہ بھی تو دیکھیں کہ ہمارے پانیوں پر باہر سے جن لوگوں نے نقب لگائی ہوئی ہے، اسے کیسے چھڑانا ہے۔ کسی ایک بندے کے سپرد اتنی اہم ذمے داری لگا کر نہ بیٹھیں، مل جل کر اس صورتحال کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ سیاست کرنے کے اور بھی مقامات ہیں، اس نعمت خداوندی پر شکر ادا کریں۔ جنوبی افریقہ کی جانب دیکھیں، پانی کی کمی نے کس طرح انسانوں کو مشکلات میں گھیرا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک پیش گوئی کے مطابق 2030 کی دنیا میں تازہ پانی کی طلب چالیس فی صد تک بڑھ جائے گی جس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں، آبادی میں اضافہ اور انسانی رویوں میں تبدیلی بتائی گئی ہے۔
صاف پانی کی ہمارے ملک میں کمی نہیں لیکن اس کے محفوظ کرنے کے طریقے اور ذرائع میں کمی اور تکنیکی خرابیاں ہیں۔ شہری نظام میں سیوریج کے مسائل اس قدر ہیں کہ جس نے آبی وسائل کو پیچیدہ بنا دیا ہے جو اکثر مدغم ہو کر شہریوں کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔
اس پر کہا جاتا ہے کہ پانی ضایع نہ کیا جائے، شہر میں ہر اضافی آبادی کا بوجھ بھی ان مسائل کو ہوا دے رہا ہے جو اپنی مرضی کے تحت سڑکوں کے ارد گرد گزرنے والے مین پانی کے پائپوں کو توڑ کر اپنے کام کرتے ہیں اب چاہے وہ بہتا ہوا ایک نالہ ہی کیوں نہ بن جائے، ایک بگڑی ہوئی ترتیب ہے جو اوپر سے لے کر نیچے تک چلی جا رہی ہے۔ آج سے برسوں پہلے ڈالی گئی ناقص سیوریج کا جال جو شاید کسی پلمبرکا ہی کارنامہ لگتا ہے شہر کی زبوں حالی اور پانی کی بربادی کا حال سناتا ہے۔
لہٰذا توجہ اس بات پر دینی چاہیے کہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرکے پانی کے ضیاع کو روکیں۔ شہروں کی آبادی بڑھنے کے تناسب سے ان کے حصے مقرر کریں اور ایک ہو کر ان باہر کے بلّوں کو مار بھگائیں جو ہمارے گھر کے دودھ پر جھپٹا مارتے ہیں، ٹھیک ہے کہ بلّوں نے کچھ دے دلا کر کچھ وقت تو گزار ہی لیا، پر اب ہم نے تہیہ کرکے اپنے ملک کے لیے کام کرنا ہے کہ لڑنے جھگڑنے سے کچھ نہیں بنتا، بگڑ ہی جاتا ہے اور تیسرا حصہ ہڑپ کر جاتا ہے۔