Express News:
2025-07-26@10:45:24 GMT

کچھ باتیں عام سی

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

آئیے! آج آپ کو رمضان چاچا کی کچھ باتیں بتاتا ہوں۔ تھے بوڑھے، لیکن ہمت اور حوصلہ کڑیل جواں تھا، کام ان کا سبزی بیچنا تھا، رہتے تنہا، چھوٹے سے کچے گھر میں تھے لیکن ارادوں کے کمال پکے تھے۔ یہ ارادہ اور عزم ہی تو تھا کہ کہتے تھے کہ مرتے مرجاؤں گا لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا منظور نہیں اور ہوا بھی ایسا ہی، حال ہی میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔

جب بیمار ہوئے تو سمجھ گئے تھے کہ اب وقت رخصت قریب ہے، تو انھی دنوں اپنے ایک نیک دل پڑوسی کو پیسے سپرد کرتے ہوئے یہ گزارش کی میرے کفن دفن کا انتظام اس رقم سے باآسانی ہوجائے گا اور اگر کچھ بچ جائیں تو قریب کی مسجد میں وضو خانہ زیرِ تعمیر ہے، اس میں ایصالِ ثواب کی نیت سے ملا دینا اور پھر بعد از انتقال، سارے انتظامات بھی باآسانی تکمیل پا گئے اور ایصالِ ثواب کی نیت بھی پوری ہوئی۔

رمضان چاچا جب سبزی بیچنے محلے میں آتے تھے تو اکثر سلام دعا ہوجاتی تھی، صوم صلوٰۃ کے پابند تو تھے ہی، زندگی سے جڑے دیگر معاملات کو بھی احکامِ شریعت کے تابع رکھنے کی ہر دم کوششوں میں مصروف رہتے تھے، ناجائز منافع خوری سے نفرت اور حصول رزق حلال کی کوششوں سے پیار تھا۔

ایک دن احمد کو اُن سے سبزی لیتے دیکھا اور بحث کرتے ہوئے بھی ( احمد میرے کزن عبیر کے بیٹے کا نام ہے، ہم ایک ہی محلے میں رہتے ہیں ) احمد کو چاچا نے بتائے کسی سبزی کے 25 روپے تھے لیکن اس کا اصرار تھا کہ قیمت کم کر کے 20 روپے کردی جائے۔ 

رمضان چاچا اُسے بہت پیار سے سمجھا اور قائل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن اس کی بڑھتی تکرار تمام کوششوں کو بے سود کیے دے رہی تھی، پھر وہ کچھ دیر کو خاموش ہوئے اور احمد سے ایک گلاس پانی مانگا، گرمیوں کے دن تھے، سورج آگ برسا رہا تھا، احمد پانی لینے گیا تو انھوں نے جیب سے ( کئی جگہوں سے پھٹا) رومال نکالا، پسینا پوچھا اور کچھ دیر قریب بنے چبوترے پر بیٹھ گئے۔ 

پھر احمد پانی لے لایا، ٹھیلا چونکہ گھر کے بالکل سامنے تھا شاید اسی لیے، وہ ننگے پاؤں ہی باہر آگیا تھا، رمضان چاچا نے پانی پیا، سبزی تولی اور اسے دے دی۔ (پیسے 20 روپے ہی لیے تھے۔) ’’ سنو احمد … بیٹا چپل پہنے رکھا کرو، گلی میں پتھر اورکانچ وغیرہ پڑے ہوتے ہیں، چبُھ گئے تو تکلیف ہوگی۔‘‘ بس اتنا کہہ کر انھوں نے احمد کے سر پر ہاتھ رکھا اور دھیرے دھیرے ٹھیلا بڑھاتے آگے نکل گئے تھے۔

پھر احمد گھر کے اندر گیا اور نہایت پُرجوش انداز میں اپنے امی، ابو کو بتانے لگا کہ کیسے وہ پورے پانچ روپے بچانے میں کامیاب ہوا تھا۔ امی، ابو کا یہ سننا تھا کہ لگے ہونے اس پر صدقے واری۔ ’’یہ ہوتی ہے ہوشیاری اور چالاکی، آج بچائے گا توکل کام آئیں گے نا، شاباش بیٹا، بس آج سے گھر کے سودے کی خریداری تمہارے ذمے‘‘ پھر جب یہ باتیں ہوگئیں تمام، تو اسی رات وہ لوگ ایک شاندار ہوٹل آئے تھے۔ 

احمد اچھے نمبروں سے پاس ہوا تھا، اسی خوشی میں رات کا کھانا باہرکھانے کا پروگرام بنا تھا،کامیابی کے افق پر ستاروں کی گنتی کا پیچھا کرتے، اُس تھری اسٹار ہوٹل میں، قیمتوں کو بھی چاند چڑھے تھے … تین لوگوں کے کھانے کا بل ہزاروں میں بنا تھا، جسے نہایت آرام سے، بغیرکسی حیل و حجت ادا کردیا گیا تھا۔ (شاندار ہوٹل کے اُس پرُسکون ماحول میں کسی بحث و مباحثے کی گنجائش تھی بھی نہیں) جاتے، جاتے ویٹر کو بھی ’’ ٹپ‘‘ کی مد میں اچھے خاصے پیسے تھما دیے گئے تھے۔

 پتہ نہیں ہمارے یہاں ایسا کیوں ہوتا ہے، جہاں بچت ہوسکتی ہو، وہاں خوب لُٹایا جاتا ہے اور پھر بچت ہی کے نام پرکسی کی ’’حق تلفی ‘‘ کو نہایت آرام سے چالاکی اور ہوشیاری کا نام دے دیا جاتا ہے۔ بات صرف رمضان چاچا سے قیمت پر کی جانے والی تکرار اور مہنگے ہوٹل میں کھانا کھانے کی نہیں، پورے ہفتے کے مختلف دنوں میں لگنے والے جا بجا بچت بازاروں میں دیکھیں نہ کہ کیا ہو رہا ہے، ان مارکیٹوں کا احوال بھی ملاحظہ فرما لیجیے۔

یہ بازار اشیاء خورونوش کی کم قیمتوں کے حوالے سے کا فی شہرت رکھتے ہیں۔ پھل، سبزی، دالیں، چاول، سرف، صابن، کپڑے، برتن، غرضیکہ روزمرہ کی زندگی سے جڑی تقریبا تمام اشیا ئے ضروریہ ان بازاروں میں موجود ہوتی ہیں، سبزی اور فروٹ کے ٹھیلے تو جا بجا لگے ہوتے ہیں، اب ظاہر ہے جیسا مال ویسی قیمت، اس لیے ان ٹھیلوں پر سجے پھل، سبزیاں اور دیگر اشیاء معیاری نقطہ نگاہ سے مختلف درجات کی حامل ہوتی ہیں۔

اب ہماری دکھوں کے مارے اور انتہائی بے چارے غریب عوام،کیا کرتے ہیں، ذرا وہ بھی سُن لیجیے، ان ٹھیلوں پر جایا جاتا ہے، سب سے پہلے قیمت پوچھی جاتی ہے ( حالانکہ بیچنے والا چیخ ، چیخ کر پیسے بتا رہا ہوتا ہے) پھر اصرار قیمت کو مزید کم کرنے پرکیا جاتا ہے اور اگر پیسے کم ہوجائیں تو پھولے نہیں سمایا جاتا، پھر جناب کیا ہوتا ہے کہ ٹھیلے والے سے مانگی جاتی ہے، ایک عدد تھیلی اور پھر چھانٹی کا مصروف ترین عمل شروع ہو جاتا ہے۔

خوب اچھے اچھے بڑے بڑے آلو، پیاز، ٹماٹر، سیب اور ناشپاتیاں چھانٹ لی جاتی ہیں اور باقی ذرا نسبتا کم معیاری اشیاء کس کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں؟ یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی، بہرحال پھر رات گئے تک ٹھیلوں پر بچ جانے والی چیزوں کو اونے، پونے داموں فروخت کردیا جاتا ہے۔

کیونکہ بہت سی ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جنھیں اگر ٹھیلے والے گھر واپس لے جائیں تو اگلے دن تک خراب ہوجانے کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے تو بہرحال، بازاروں میں تو یہ سب ہو رہا ہوتا ہے، لیکن زندگی کے دیگر معاملات میں بھی بہت کچھ ایسا ہوتا ہے جو حق تلفی کے زمرے میں آتا ہے۔

اب بات یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں ہونا کیا چاہیے؟ تو جناب ہونا تو یہ چاہیے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ خرید و فروخت کے علاوہ اور ایسے کونسے معاملات ہیں جہاں ہم سے حق تلفی جیسا گناہ سرزد ہو رہا ہے اور پھر ایسے گناہوں سے خود کو بچا لیا جائے، رمضان چاچا جیسے ایماندار لوگوں سے قیمتوں کی کمی پر بحث نہ ہو تو اچھا ہے، بازاروں میں خراب سامان ہر گز نہیں لیا جائے، لیکن جب قیمتیں اگرکافی حد تک کم ہوں، تو پھر معیار پر اس حد تک سمجھوتا کہ آلو، سیب ، ٹماٹر اورکینو چھوٹے، بڑے، درمیانے سب قبول کر لیے جائیں، تو اس میں کوئی بُری بات نہیں۔ 

ایسا نہیں کہ قیمتوں پر بحث و تکرار ہونی نہیں چاہیے، ضرور ہونی چاہیے، لیکن اگر حق تلفی سے جڑے مسئلے کو پیش نظر رکھ کر یہ کام ہو، تو پھر کیا ہی خوب ہو۔ خرید و ٖفروخت کے معاملات میں جہاں خریداروں پر ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، وہیں فروخت کنندگان بھی بری الذمہ نہیں۔ بے ایمانی، ناجائز منافع خوری، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی سب بدترین عمل ہیں، ان سے اجتناب لازمی ہے۔

آئیے! ایک ایسے نظام کی تشکیل میں اپنا اپنا کردار ادا کریں کہ جہا ں نہ صرف خریدنے اور بیچنے، بلکہ زندگی سے جڑا ہر معاملہ احکام خداوندی اور شرعی اصولوں کے عین مطابق ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہوتی ہیں اور پھر ہوتا ہے جاتا ہے حق تلفی

پڑھیں:

’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا

مدین(نیوز ڈیسک) مدین کے پہاڑوں سے اُٹھنے والی ایک معصوم آواز، چودہ سالہ فرحان… جسے والدین نے دین کی روشنی کے لیے سوات کے چالیار مدرسے بھیجا، واپس آیا تو ایک بےجان جسم تھا، چہرے پر نیلے نشانات، کمر پر تشدد کے زخم، اور آنکھوں میں زندگی کے بجائے سناٹا تھا۔

تین دن پہلے پیش آنے والا یہ لرزہ خیز واقعہ آج بھی والد ایاز کے لفظوں میں سسک رہا ہے۔ فرحان کے والد نے بتایا، ’میں نے مہتمم صاحب سے ویڈیو کال پر بات کی، کہا کہ بچہ شکایت کر رہا ہے، تکلیف میں ہے… مگر مہتمم نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘

والد کے مطابق، شام ساڑھے چھ بجے دوبارہ رابطہ ہوا۔ مہتمم نے اطمینان سے کہا، ’بچہ ٹھیک ہے، خوش ہے۔‘ باپ نے دل کو تسلی دی کہ شاید بیٹے کا دل لگ گیا ہے، مگر اسی وقت وہ بچہ کسی کونے میں ظلم کے پنجوں میں تڑپ رہا تھا۔

ایاز کہتے ہیں، ’میں نے کہا بچہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، مگر پھر سنبھل جاتا ہے… شاید اسی وقت اُن درندوں نے اُسے مار ڈالا تھا۔‘ آنکھوں میں نمی اور آواز میں درد لیے وہ بولے، ’میرے فرحان کو پانی تک نہیں دیا گیا… وہ پیاسا مار دیا گیا!‘

فرحان کے چچا نے جب مہتمم کو فون پر بتایا کہ بچے نے ناپسندیدہ رویے کی شکایت کی ہے، تو مہتمم نے قسمیں کھا کر سب الزامات جھٹلا دیے۔ چچا کے مطابق، ’مہتمم کا بیٹا بھی قسمیں کھا رہا تھا… وہی جس پر میرے بھتیجے کو نازیبا مطالبات کرنے کا الزام ہے۔‘

یہ محض ایک بچے کی موت نہیں، ایک خواب کی، ایک نسل کی، اور والدین کے یقین کی موت ہے۔ تین سال سے فرحان اس مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہر ماہ پانچ ہزار روپے دے کر والدین یہ سمجھتے رہے کہ ان کا بیٹا دین سیکھ رہا ہے۔ مگر مدرسے کی چھت تلے وہ ظلم سیکھ رہا تھا، مار سہہ رہا تھا، اور آخرکار خاموشی سے دم توڑ گیا۔

پولیس نے دو اساتذہ سمیت 11 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم مہتمم تاحال مفرور ہے۔ مدرسے کے طلبہ نے انکشاف کیا ہے کہ وہاں مار پیٹ معمول کی بات ہے، اور کئی بچے خوف کے عالم میں جیتے ہیں۔ مقتول بچے کے نانا نے الزام عائد کیا ہے کہ فرحان سے جنسی خواہش کا تقاضا کیا جا رہا تھا، جس پر اُس نے مزاحمت کی۔

واقعے کے بعد خوازہ خیلہ بازار میں عوام کا جم غفیر نکل آیا۔ ہاتھوں میں فرحان کی تصویر، زبان پر ایک ہی نعرہ — ”قاتلوں کو سرعام پھانسی دو!“

ضلعی انتظامیہ نے مدرسے کو سیل کر دیا ہے، مگر سوال اب بھی باقی ہے — کتنے فرحان، کتنی ماؤں کی گودیں، کتنے والدوں کی امیدیں، اس نظام کے درندوں کی بھینٹ چڑھیں گی؟

یہ صرف فرحان کی کہانی نہیں… یہ ہر اُس معصوم کی کہانی ہے جو تعلیم کے نام پر کسی وحشی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کی تحریک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں، عرفان صدیقی
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے، بیرسٹر گوہر
  • مذاکرات کا عمل آگے نہیں بڑھ سکا لیکن اب بہتری کی طرف جانا چاہیے: بیرسٹر گوہر
  • میٹرک بورڈ ملتان کے نتائج میں رکشہ ڈرائیور کے بیٹے کی آرٹس گروپ میں پہلی پوزیشن
  • میٹرک بورڈ ملتان کے امتحان میں رکشہ ڈرائیور کا بیٹا سب پر بازی لے گیا
  • شاہ محمود قریشی کی رہائی ‘مفاہمت یا پھر …
  • اب پارٹی کی اندر کی باتیں باہر نہیں آئیں گی، بیرسٹر گوہر
  • شہباز گل آستین کا سانپ، تم نے عمران خان کو دھوکہ دیا، ایجنسیوں کو وہ باتیں بتائیں جن کا عمران خان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا : اعظم سواتی
  • شہباز گل آستین کا سانپ، تم نے عمران خان کو دھوکہ دیا، ایجنسیوں کو وہ باتیں بتائیں جن کا عمران خان کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا : اعظم سواتی 
  • ’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا