غزہ: حماس نے تمام قیدیوں کی رہائی، 5 سالہ جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کردی
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
اے ایف پی کے مطابق حماس کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حماس قیدیوں کے تبادلے اور 5 سالہ جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔ اسلام ٹائمز ۔ فلسطین، جو پریشان کن ہے، حماس کے ایک عہدیدار نے غزہ میں جاری تنازع کو ختم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جس میں باقی تمام مغویوں کی رہائی اور 5 سالہ جنگ بندی شامل ہوگی۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق حماس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ حماس قیدیوں کے تبادلے اور 5 سالہ جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔ 17 اپریل کو، حماس نے 'جزوی' جنگ بندی کے معاہدے کو مسترد کر دیا جس میں اسرائیل کی تجویز کو واپس کیا گیا تھا، اور اسرائیل نے 45 دن کی جنگ بندی کے بدلے میں 10 زندہ یرغمالیوں کو واپس کرنے کی پیشکش کی تھی۔ سبیٹ مشین گن کے ذریعے فلسطین کو ہراساں کیا گیا ہے، اور اس سے پرزور مطالبہ کیا گیا ہے کہ جنگ بندی کی جائے، جس میں غزہ میں جاری تنازع کا خاتمہ، غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلاء، تمام قیدیوں کا تبادلہ، اور فلسطینی علاقوں میں انسانی امداد کی فراہمی شامل ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سالہ جنگ بندی جنگ بندی کے اے ایف پی
پڑھیں:
حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر اپنا تحریری جواب ثالثوں کو بھیج دیا
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ میں جنگ بندی سے متعلق امریکہ، قطر اور مصر کی حمایت سے تیار کردہ مجوزہ معاہدے پر اپنا باضابطہ تحریری جواب ثالثوں کو بھیج دیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کا جواب مصر اور قطر کو دے دیا گیا ہے، جو اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ فلسطینی حکام نے جواب کی تصدیق تو کر دی ہے لیکن اس کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب قطر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان نرم یا مکمل جنگ بندی کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ مذاکرات کے دوران ایک نیا منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس میں اسرائیلی افواج کے انخلاء، قیدیوں کے تبادلے، اور جنگی مراحل کی وضاحت شامل ہے۔
حماس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اب جنگ بندی کا انحصار اسرائیل کے فیصلے پر ہے۔
ادھر اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک متنازعہ قرارداد منظور کر لی ہے جس میں مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی خودمختاری کو باضابطہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ حماس نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔