سفری رکاوٹیں: برطانوی حکومت پر ملکی سیاحتی شعبے کو سبوتاژ کرنے کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 اپریل 2025ء) برطانوی دارالحکومت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق لندن ہی میں قائم ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل (WTTC) نے سال 2024ء کے لیے اپنی رپورٹ میں الزام عائد کیا ہے کہ برٹش گورنمنٹ کی طرف سے غیر ملکیوں کے برطانیہ کے سفر پر لگائی جانے والی پابندیوں اور رکاوٹوں سے ملکی سیاحتی شعبے کو اتنا زیادہ نقصان ہو رہا ہے کہ لندن حکومت کا یہ رویہ برٹش ٹورزم انڈسٹری کو ''سبوتاژ کرنے‘‘ کے مترادف ہے۔
برطانوی معیشت کو پہنچنے والا نقصانڈبلیو ٹی ٹی سی کی اس سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یورپ کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے والے برطانیہ میں 2024ء میں بین الاقوامی مہمانوں اور سیاحوں نے مجموعی طور پر جو رقوم خرچ کیں، وہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پہلے کے مقابلے میں 2.
(جاری ہے)
بریگزٹ کے بعد برطانوی امیگریشن، تجارت اور سیاحت پر پڑنے والے اثرات
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس مختصر یا طویل قیام کے لیے جتنے بھی غیر ملکیوں نے برطانیہ کا سفر کیا، انہوں نے وہاں مجموعی طور پر 40.3 بلین پاؤنڈ خرچ کیے۔
سفر و سیاحت سے متعلق عالمی کونسل کے اعداد و شمار کے مطابق یہ رقوم 2019ء میں کورونا وائرس کی عالمی وبا کے آغاز سے پہلے کے مقابلے میں 5.3 فیصد کم تھیں۔ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل برطانیہ میں سیاحتی شعبے کی نمائندہ تنظیم بھی ہے۔
لندن حکومت پر لگایا جانے والا الزاملندن میں قائم ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل کی صدر جولیا سمپسن ہیں، جو ماضی میں لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے ملکی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی مشیر بھی رہی ہیں۔
انہوں نے یہ سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں نے پچھلے پورے سال کے دوران جو رقوم خرچ کیں، ان کی مالیت اب کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پہلے کے دور کے کم از کم برابر ہو جانا چاہیے تھی۔دنیا کا سب سے بڑا تعطیلاتی بحری جہاز، لاگت ایک ارب یورو
لیکن 2019ء اور 2024ء میں سیاحوں کی طرف سے برطانیہ میں خرچ کردہ ان رقوم میں فرق 2.2 بلین پاؤنڈ سے بھی زیادہ بنتا ہے، جس کی ذمے دار بڑی حد تک برطانوی حکومت ہے۔
جولیا سمپسن نے کہا کہ اس بہت بڑی کمی کی وجہ برطانوی حکومت کے وہ دانستہ پالیسی اقدامات ہیں، جو غیر ملکی مہمانوں کے لیے عملی طور پر ''سفری پابندیوں اور رکاوٹوں‘‘ کا سبب بنتے ہیں۔
بڑے ذیلی عواملورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل نے لندن حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے جن عوامل کو سیاحتی شعبے کی وجہ سے برطانوی معیشت میں ممکنہ گہما گہمی میں مقابلتاﹰ کمی کا ذمے دار ٹھہرایا، وہ ایک دو نہیں بلکہ کئی اور متنوع تھے۔
وینس ڈے ٹور ٹیکس پانچ یورو فی سیاح، اچانک جائیں تو دس یورو
جولیا سمپسن نے بتایا کہ غیر ملکی وزیٹرز کو، جن بالواسطہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں نیا متعارف کردہ برطانیہ کے سفر سے پہلے کا لازمی الیکٹرانک سفری اجازت نامہ یا ڈیجیٹل پرمٹ اور ٹیکس فری شاپنگ کا فقدان بھی شامل ہیں اورساتھ ہی فضائی سفر کرنے والے مسافروں سے وصول کیے جانے والے محصولات بھی۔
جاپان حد سے زیادہ سیاحت سے پیدا شدہ بحران کے حل کی تلاش میں
ان کے مطابق یہ تمام عوامل برطانیہ کے سیاحتی سفر کو مشکل اور مہنگا اور یوں کم پرکشش بنا دیتے ہیں۔
جولیا سمپسن نے بتایا، ''برطانیہ کی مجموعی قومی پیداوار میں سفر و سیاحت کے شعبے کا حصہ 10 فیصد بنتا ہے۔ لیکن بین الاقوامی مہمانوں کی طرف سے برطانیہ میں خرچ کردہ رقوم کے لحاظ سے ہم ابھی تک واپس وہاں نہیں پہنچے، جہاں کئی دوسرے ممالک کب کے پہنچ چکے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ برطانیہ اس حوالے سے اپنے کئی ساتھی یورپی ممالک سے پیچھے رہتا جا رہا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ حکومت نے ''ابھی تک اس شعبے کو کسی بھی حوالے سے اپنی ترجیح نہیں بنایا۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سیاحتی شعبے برطانیہ میں جولیا سمپسن کے مطابق غیر ملکی سے پہلے
پڑھیں:
پنجاب حکومت کی گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی
پنجاب حکومت نے گندم کے معاملے پر کسانوں کے گھروں پر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی کرادی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی زیر صدارت اجلاس کے دوران اپوزیشن رکن رانا شہباز نے ایوان میں کسانوں کے گھر چھاپوں کا معاملہ اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے کسانوں کی گندم نہیں خریدی جس سے کسان کا نقصان ہوا، پھر حکومت نے کہا اپنی گندم اسٹور کر لیں اور اب جب کسان نے گندم جمع کرلی تو کسانوں کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔
اس پر اسپیکر اسمبلی ملک احمد خان نے معاملے کو انتہائی سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک کسان نے کسی جگہ گندم رکھی ہے وہاں ظاہر ہے کئی کسانوں نے رکھی ہوگی، اب اسی جگہ کو ذخیرہ اندوزی کہا جائے تو یہ مسئلہ ہے۔
اسپیکر اسمبلی نے سوال کیا کہ ایسی صورت حال میں کسان کہاں جائیں؟ انہوں نے ہدایت کی کہ پنجاب حکومت کسانوں کے مسائل کو حل کرے اور صوبائی وزیر ذیشان رفیق معاملے کو دیکھیں کیونکہ یہ مسئلہ بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ کسان سے بائیس سو میں گندم خریدی گئی اور آج قیمت چار ہزار پر چلی گئی ہے، اس کو حکومت کو دیکھنا چاہیے اور گندم جمع کرنے والے کسانوں کے گھروں پر چھاپے نہیں پڑنے چاہیں۔
اس پر پارلیمانی سیکرٹری خالد محمود رانجھا نے کسانوں کے گھروں پر گندم جمع کرنے کے معاملے پر چھاپے نہ مارنے کی یقین دہانی کرائی۔