ٹیکس ریٹ بڑھانے کے باوجود جائیداد کی خرید و فروخت پر صرف 33 ارب اضافی ٹیکس جمع ہوسکا
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )ٹیکس کی شرح بڑھانے کے باوجود فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ (جولائی تا مارچ) کے دوران غیر منقولہ جائیداد کی خرید و فروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس (ڈبلیو ایچ ٹی) کی مد میں 169ارب روپے جمع کئے جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ وصولی 136 ارب روپے تھی۔
نجی ٹی وی جیونیوزکے مطابق ایف بی آر نے ٹیکس شرحوں میں اضافے کے بعد جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس کی رقم میں 50 فیصد اضافہ کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن اب تک مالی سال 2024-25کے پہلے نو ماہ میں ٹیکس وصولی گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریباً 24فیصد بڑھی ہے۔
غیر منقولہ جائیداد کی فروخت پر دفعہ 236C کے تحت ٹیکس کی شرح ٹیکس سال 2021 میں فائلرز کے لئے ایک فیصد اور نان فائلرز کے لئے 2فیصد تھی، جسے ٹیکس سال 2023 میں بڑھا کر فائلرز کے لئے 2 فیصد اور نان فائلرز کے لئے 4 فیصد کر دیا گیا۔ یہ ودہولڈنگ ٹیکس (ڈبلیو ایچ ٹی) کی شرح ٹیکس سال2024میں بڑھا کر فائلرز کے لئے 3فیصد اور نان فائلرز کے لئے 6 فیصد کر دی گئی۔
غیر منقولہ جائیداد کی خریداری پر ایڈوانس ٹیکس ،ٹیکس سال 2021میں فائلرز کے لئے ایک فیصد اور نان فائلرز کے لئے 2 فیصد تھا، جسے 2023 میں بڑھا کر فائلرز کے لئے 2 فیصد اور نان فائلرز کے لئے 7.
ٹیکس شرحوں میں اس زبردست اضافے کے باوجود جائیداد کے شعبے نے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ (جولائی تا مارچ) کے دوران خرید و فروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس (ڈبلیو ایچ ٹی) کی مد میں169ارب روپے ادا کئے ہیں۔جائیداد کے شعبے کی ٹیکسوں کی صورت میں شراکت گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 136ارب روپے تھی، جو موجودہ مالی سال میں اب تک 24.3 فیصد کے اضافے کیساتھ سامنے آئی ہے تاہم حکومت نے جائیداد پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) ختم کرنے کے لئے ایک سمری پیش کی ہے لیکن اس کی قومی خزانے میں شراکت رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں 2ارب روپے سے کم رہی ہے۔
حکومت کے اعلیٰ عہدیداران نے دی نیوز کو اعتماد میں لے کر بتایا کہ وفاقی کابینہ نے تاحال فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) پر اپنی منظوری نہیں دی ہے اور اسے بل کی شکل میں پارلیمنٹ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔اگرچہ حکومت کی خواہش تھی کہ ایف ای ڈی کو ختم کرنے کے لئے ایک آرڈیننس جاری کیا جائے لیکن آئی ایم ایف اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ فائلر کے لئے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح 3فیصد، تاخیر سے فائل کرنے والوں کے لئے 5 فیصد اور نان فائلرز کے لئے 7فیصد تھی۔ ذرائع نے کہا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 236سی جائیداد کی فروخت پر ایڈوانس ٹیکس سے متعلق ہے اور اس میں فائلرز کے لئے 3فیصد اور نان فائلرز کے لئے 6فیصد ٹیکس کی شرح ہے۔
دفعہ 236سی کے تحت ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں 84ارب روپے جمع کئے ہیں، جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ رقم 65ارب روپے تھی۔ دفعہ 236کے تحت ایف بی آر نے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں85ارب روپے جمع کئے ہیں جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ رقم 71ارب روپے تھی۔
حکومت نے جائیداد کے شعبے سے حاصل شدہ منافع پر 15فیصد کیپیٹل گینز ٹیکس (سی جی ٹی) عائد کیا تھا لیکن یہ آئندہ انکم ٹیکس ریٹرنز کے ساتھ عائد ہوگا۔
وزیراعلیٰ اور گورنر پختونخوا کو افغانستان سے ڈیل کی اجازت نہیں دیں گے: وزیر دفاع
مزید :ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: نے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں فیصد اور نان فائلرز کے لئے بڑھا کر فائلرز کے لئے کے پہلے نو ماہ میں جائیداد کی خرید کے لئے ایک فیصد کر دی ایف بی آر ٹیکس سال روپے تھی ٹیکس کی کی شرح میں یہ
پڑھیں:
حکومت کا 2600 ارب کے قرضے قبل از وقت واپس اور سود میں 850 ارب کی بچت کا دعویٰ
اسلام آباد:حکومت نے 2600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کرنے اور سود میں 850 ارب روپے کی بچت کا دعویٰ کیا ہے۔
وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 74 سے کم ہوکر70 فیصد ہوگئی ہے اور حکومت نے پہلی بار ملکی تاریخ میں 2,600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے قرضوں کے خطرات کم ہوئے اور سیکڑوں ارب روپے کی سود کی بچت ہوئی ہے، لہٰذا محض اعداد و شمار پر قرضوں کی صورتحال کا اندازہ لگانا درست نہیں۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان کی قرض صورتحال پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پائیدار ہے۔ حکومت کا قرض و معیشت کے متوازن تناسب پر توجہ دینا، قبل از وقت قرضوں کی ادائیگیاں، سود کی لاگت میں کمی اور بیرونی کھاتوں کا استحکام، ملکی معیشت کو سنبھالا دینے، خطرات کم کرنے اور ذمہ دارانہ مالی نظم و ضبط کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔
وزارت خزانہ کی جانب سے منگل کو جاری کردہ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ جی ڈی پی کے تناسب سے قرض، ری فنانسنگ، رول اوور خطرات میں کمی اور سود ادائیگیوں میں بچت قرض حکمتِ عملی کے کلیدی اجزا ہیں۔
وزارتِ خزانہ کا مزید کہناہے کہ حکومت کی قرض حکمتِ عملی کا مقصد قومی قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا، قرضوں کی ری فنانسنگ، رول اوور کے خطرات کم کرنا اور سود کی ادائیگیوں میں نمایاں بچت یقینی بنانا ہے تاکہ ملکی مالی استحکام کو پائیدار بنایا جا سکے۔
وزارت خزانہ نے واضح کیا ہے کہ صرف قرضوں کی کل رقم دیکھ کر ملکی قرضوں کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ افراطِ زر کے ساتھ کل رقم کا بڑھنا فطری ہے۔ قرضوں کی پائیداری کا درست پیمانہ یہ ہے کہ انہیں معیشت کے حجم کے تناسب (ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی) سے جانچا جائے جو عالمی سطح پر بھی معیار مانا جاتا ہے۔
اس پیمانے پر پاکستان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ مالی سال 2022 میں قرضوں کی شرح 74 فیصد تھی جو مالی سال 2025 میں کم ہو کر 70 فیصد رہ گئی ہے۔ اس دوران حکومت نے قرضوں کے خطرات کم کیے اور عوام کے اربوں روپے سود کی ادائیگیوں سے بچائے ہیں۔
وزارتِ خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے پہلی بار ملکی تاریخ میں 2,600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے جس سے قرضوں کے خطرات کم ہوئے اور سینڑوں ارب روپے کی سود کی بچت ہوئی۔ مالی نظم و ضبط کے باعث مالی سال 2025 میں وفاقی خسارہ کم ہو کر 7.1 ٹریلین روپے رہا جو گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے تھا۔ معیشت کے حجم کے حساب سے خسارہ 7.3 فیصد سے گھٹ کر 6.2 فیصد پر آ گیا ہے جبکہ مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس بھی حاصل کیا گیا۔
اس دوران مجموعی قرضوں میں سالانہ 13 فیصد اضافہ ہوا جو پچھلے 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔ وزارت خزانہ نے مزید بتایا کہ محتاط قرض مینجمنٹ اور شرح سود میں کمی کے نتیجے میں مالی سال 2025 میں سود کی مد میں بجٹ کے مقابلے میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
رواں مالی سال کے بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے 8.2 ٹریلین روپے رکھے گئے ہیں جو گزشتہ سال 9.8 ٹریلین روپے تھے۔ قبل از وقت قرضوں کی واپسی سے قرضوں کی میچورٹی مدت بہتر ہوئی ہے، جس سے قرضوں کے خطرات کم ہوئے ہیں۔ مالی سال 2025 میں پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4 سال سے بڑھ کر ساڑھے 4 ہو گئی ہے، جبکہ ملکی قرضوں کی اوسط میچورٹی بھی 2.7 سال سے بڑھ کر 3.8 سال سے زائد ہو گئی ہے۔
وزارت خزانہ نے کہا کہ بہتر مالی نظم و ضبط کا اثر بیرونی شعبے پر بھی مثبت پڑا ہے اور مالی سال 2025 میں 14 سال بعد پہلی بار 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاوٴنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا ہے، جس سے بیرونی مالی دباوٴ میں کمی آئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں جزوی اضافہ ادائیگیوں کے توازن کے لیے حاصل سہولیات مثلاً آئی ایم ایف کے توسیعی فنڈ پروگرام اور سعودی آئل فنڈ جیسی نان کیش سہولیات کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے روپے میں ادائیگی نہیں کرنی پڑتی۔ تقریباً 800 ارب روپے کا اضافہ صرف زرمبادلہ کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہوا ہے، نہ کہ نئے قرض لینے سے۔