کراچی بار ایسوسی ایشن سے اظہار یکجہتی، بلوچستان بھر میں عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
بلوچستان بار کونسل کی اپیل پر بلوچستان بھر میں وکلا کی جانب سے کراچی بار ایسوسی ایشن سے اظہار یکجہتی اور 6 نہروں کے قیام کیخلاف عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کیا گیا،
بلوچستان بار کونسل کے مطابق ایڈوکیٹ جلیلہ حیدر کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت درج مقدمے کے خلاف احتجاج بھی بائیکاٹ کا حصہ ہے، اسی سلسلے میں وکلا تنظیموں نے ضلعی کچہری سے پریس کلب تک احتجاجی ریلی بھی نکالی۔
کوئٹہ کی ضلعی عدالت میں وکلا کی جانب سے عدالتی کارروائیوں کے بائیکاٹ کے باعث سائلین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اظہار یکجہتی بائیکاٹ بلوچستان بار کونسل کراچی بار ایسوسی ایشن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اظہار یکجہتی بائیکاٹ بلوچستان بار کونسل کراچی بار ایسوسی ایشن
پڑھیں:
ڈیری فارمرز کا خام دودھ کی فروخت کو سیلز ٹیکس رجیم میں شامل کرنے کا مطالبہ
کراچی:ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ بجٹ میں سیلز ٹیکس کے تحت لائی گئی پالیسی میں ایسے تجارتی ڈیری فارمرز کو بھی شامل کیا جائے جو سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے لیے رجسٹرڈ ہیں مگر ان کے خام دودھ کی فروخت پر تاحال سیلز ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔
وزیر تجارت سردار جام کمال خان کو لکھے گئے ایک خط میں ڈیری اینڈ کیٹل فارمرز ایسوسی ایشن (ڈی سی ایف اے) کے صدر شاکر عمر گجر نے کہا کہ ایسے ڈیری فارمرز جو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں نہیں مگر ٹیکس نیٹ میں آتے ہیں، انہیں اس وقت برابری کا میدان میسر نہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ برانڈ کے تحت فروخت ہونے والا دودھ اور کارپوریٹ فارم کی طرف سے فراہم کردہ دودھ کو تو سیلز ٹیکس کے دائرہ میں شامل کر لیا گیا ہے لیکن رجسٹرڈ تجارتی کسانوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جو کہ مویشی پالنے کے شعبے کے دستاویزی اور منظم طبقے کا حصہ ہیں۔
ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ان تجارتی ڈیری فارموں کو بھی سیلز ٹیکس ریجیم میں شامل کر لیا جائے تو وہ اپنی ان پٹ سیلز ٹیکس کو آؤٹ پٹ سیلز ٹیکس کے خلاف ایڈجسٹ کرسکیں گے جس سے مالیاتی ریلیف ملے گا۔
ڈی سی ایف اے نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جدید ڈیری فارمنگ پاکستان میں تیزی سے ترقی کرنے والا اہم شعبہ ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر مشاورت کے لیے ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے ملاقات کرے تاکہ مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔