چینی کمپنی نیو نے کم قیمت چھوٹی اور الیکٹرک کار ’’فائر فلائی‘‘ لانچ کردی
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
چین(نیوز ڈیسک)چینی الیکٹریکل وہیکل کمپنی ’’نیو‘‘ نے شنگھائی آٹو شو 2025ء میں اپنی نئی چھوٹی اور الیکٹرک کار فائر فلائی لانچ کردی۔
ماہرین کے مطابق فائر فلائی پاکستان کیلئے ’’الیکٹرک مہران‘‘ ثابت ہوسکتی ہے، نیو کی فائر فلائی کمپنی کی منصوبہ بندی کا مرکزی حصہ ہے تاکہ یہ 5 براعظموں کی 16 نئی مارکیٹس میں قدم رکھ سکے۔
نیو کمپنی کے سی ای او ولیم لی نے بتایا کہ فائر فلائی کئی ممالک میں تیسری پارٹی کے ڈسٹری بیوٹرز اور مقامی پارٹنرز کے ذریعے متعارف کرائی جائے گی جو کہ کمپنی کی پچھلی فروخت کے طریقے سے مختلف ہوگی۔
واضح امکان ہے کہ فائر فلائی پاکستان میں بھی جلد دستیاب ہوگی، کیونکہ یہاں کئی چینی کار کمپنیاں پہلے ہی مقامی ڈسٹری بیوٹرز اور مینوفیکچررز کے ساتھ پارٹنرشپ کررہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نیو نے فائر فلائی کو ایک چھوٹی، سستی گاڑی کے طور پر ڈیزائن کیا ہے جو عملی استعمال کیلئے بہترین ثابت ہوگی۔
فائر فلائی کی اہم خصوصیات کیا ہیں؟
کمپیکٹ سائز: فائر فلائی تنگ گلیوں اور مصروف شاہراہوں کیلئے مثالی ثابت ہوسکتی ہے، جو پاکستان کے شہری علاقوں کیلئے بہترین انتخاب ہوگی۔
رینج: نیو الیکٹرک فائر فلائی ایک چارجنگ پر 300 سے 400 کلومیٹر تک چل سکتی ہے، جو بیٹری کی قسم پر منحصر ہے۔
بیٹری سوئپنگ: یہ بیٹری سوئپ ٹیکنالوجی کو سپورٹ کرتی ہے، لیکن موجودہ سوئپ اسٹیشن ابھی اس کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔ نئے پانچویں نسل کے سوئپ اسٹیشنز جو اگلے سال تک متعارف ہوں گے، فائر فلائی کو نیو اور اونوو گاڑیوں کے ساتھ سپورٹ کریں گے۔
چارجنگ کے آپشنز: اگر بیٹری سوئپنگ دستیاب نہ ہو، تو گاڑی کو روایتی فاسٹ چارجنگ سے چارج کیا جا سکتا ہے۔
انٹیریئر ڈیزائن: سادہ ڈیزائن کے ساتھ ڈیجیٹل ڈسپلے اور اہم کنیکٹڈ سروسز، جیسے موبائل ایپ کنٹرولز اور اوور دی ایئر اپ ڈیٹس۔
قیمت: نیو کی لائن اپ میں فائر فلائی کار کے سب سے سستی گاڑی ہونے کی توقع کی جارہی ہے، یہ بجٹ دیکھ کر گاڑی خریدنے والوں کو متوجہ کرنے کیلئے ڈیزائن کی گئی ہے۔
کمپنی نے فائر فلائی کیلئے کنٹینر اسٹائل بیٹری سوئپ اسٹیشنز کا منصوبہ منسوخ کردیا ہے، تاہم نئے اسٹیشنز پر کام جاری ہے جس سے 2026ء تک انفرااسٹرکچر کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر نیو پاکستان میں کسی مقامی ڈسٹری بیوٹر کے ساتھ شراکت داری کرے اور گاڑی کی قیمت مناسب رکھے، تو یہ پاکستانی ڈرائیورز کیلئے ایک سستی الیکٹرک گاڑی کا اچھا آپشن ہوسکتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے مہران نے کئی سالوں تک سستی سواری فراہم کی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فائر فلائی بیٹری سوئپ کے ساتھ
پڑھیں:
چین نے امریکی کمپنی اینوڈیا کی چِپس خریدنے پر اپنی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر پابندی لگادی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چین کے انٹرنیٹ ریگولیٹر نے ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو امریکی کمپنی اینوڈیا (Nvidia) کی نئی اے آئی چِپس خریدنے سے روک دیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق سائبر اسپیس ایڈمنسٹریشن آف چائنا (سی اے سی) نے علی بابا اور بائٹ ڈانس سمیت دیگر کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اینوڈیا کی خصوصی طور پر چین کے لیے تیار کی گئی RTX Pro 6000D چپ کے آرڈرز اور ٹیسٹنگ کا عمل بند کر دیں۔ یہ ہدایت اس وقت سامنے آئی جب کئی کمپنیوں نے اس پروڈکٹ کے ہزاروں یونٹس خریدنے کا عندیہ دیا اور ٹیسٹنگ بھی شروع کر دی تھی۔
یہ پابندی اس سے پہلے لگائی گئی اینوڈیا کے H20 ماڈل پر عائد قدغن سے بھی سخت تصور کی جا رہی ہے، کیونکہ H20 بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت کے منصوبوں میں استعمال ہو رہا تھا۔ رپورٹس کے مطابق چینی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مقامی چپ ساز ادارے اب ایسے پروسیسرز تیار کر رہے ہیں جو اینوڈیا کے ان برآمدی ماڈلز کے برابر یا بعض صورتوں میں ان سے زیادہ بہتر ہیں۔ اسی لیے چین اب اپنی کمپنیوں کو اینوڈیا پر انحصار ختم کرنے اور مکمل طور پر مقامی سیمی کنڈکٹرز پر منتقل ہونے کی طرف لے جا رہا ہے۔
انوڈیا کے چیف ایگزیکٹو جینسن ہوانگ نے لندن میں میڈیا کو بتایا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے چین میں کمپنی کے مستقبل کے حوالے سے بات کریں گے۔ واضح رہے کہ اینوڈیا نے یہ خصوصی چپس اس وقت متعارف کروائی تھیں جب سابق صدر جو بائیڈن نے کمپنی کو اپنے طاقتور ترین پروڈکٹس چین کو برآمد کرنے سے روک دیا تھا۔ اس پابندی کے بعد کمپنی نے نسبتاً کم طاقتور ماڈلز متعارف کرائے تاکہ وہ چین میں اپنا کاروبار جاری رکھ سکے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ اب ہواوے اور کیمبرکون جیسی مقامی چپ ساز کمپنیاں، اس کے علاوہ بائڈو اور علی بابا جیسے بڑے ادارے، اپنی اے آئی چپ ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق چینی پروسیسرز اس سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ امریکی ماڈلز کا متبادل بن سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ اقدام چین کی اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ امریکا کے ساتھ مصنوعی ذہانت اور سیمی کنڈکٹرز کی دوڑ میں خود کفالت اور بالادستی حاصل کرنا چاہتا ہے۔