کچی آبادی کا مطلب کچے گھر ہیں تو 90 فیصد بلوچستان کچی آبادی ہے، جسٹس جمال مندوخیل
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
اسلام آباد:
سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ کچی آبادی کا مطلب کچے گھر ہیں تو 90 فیصد بلوچستان کچی آبادی ہے۔
کچی آبادیوں سے متعلق کیس کی سماعت سپریم کورٹ آئینی بینچ کے روبرو ہوئی، جس میں عدالت نے آئندہ سماعت پر چیئرمین، ممبر پلاننگ سی ڈی اے اور سیکرٹری لا اینڈ جسٹس کو طلب کرلیا۔ عدالت نے کچی آبادیوں سے متعلق قائم ورکنگ کمیٹی کے میٹنگ منٹس بھی مانگ لیے۔
دورانِ سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ سی ڈی اے کی کچی آبادیوں کے لیے پالیسی کیا ہے؟ سندھ میں تو کچی آبادی ایکٹ موجود ہے۔ جس پر وکیل سی ڈی اے منیر پراچہ نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس سے متعلق قانون سازی کرے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سی ڈی اے کا کام ہے کہ وفاقی حکومت کو کچی آبادیوں سے متعلق قانون سازی تجویز کرے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ڈپلومیٹک انکلیو کے پاس بھی کچی آبادی ہے، یہ کتنی خطرناک بات ہے۔
وکیل سی ڈی اے نے بتایا کہ کچھ کچی آبادیوں کو تو ہم تسلیم کرتے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کس قانون کے تحت سی ڈی اے کچھ کچی آبادیوں کو تسلیم کرتا ہے کچھ کو نہیں۔ وکیل نے بتایا کہ قانون کوئی نہیں ہے، بس کچھ کو ہم ویسے ہی تسلیم کرتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کچی آبادی کہتے کس کو ہیں۔ کچی آبادی اگر کچے گھر ہیں تو 90 فیصد بلوچستان کچی آبادی ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ 2016ء سے سپریم کورٹ نے کچی آبادیوں سے متعلق قانون سازی کی حکم دے رکھا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 2015 سے مقدمہ زیر التوا ہے اور آج تک 10 سال ہوگئے کچھ نہیں ہوا۔
سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ عدالت کے حکم امتناع کی وجہ سے اسلام آباد میں کچی آبادیاں اور تجاوزات بڑھتے جا رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سی ڈی اے کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوتی۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے نے کہا کہ سی ڈی اے
پڑھیں:
نان فائلرز کے لیے خوشخبری: کیش نکلوانے پر ٹیکس سے متعلق اہم نرمی متعارف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: نان فائلرز کے لیے بینک سے یومیہ کیش نکلوانے کی ٹیکس فری حد بڑھا دی گئی ہے۔ اب نان فائلرز روزانہ 75 ہزار روپے تک کیش نکلوائیں گے تو اس پر کوئی ایڈوانس ٹیکس نہیں کٹے گا۔ اس سے قبل یہ حد 50 ہزار روپے تھی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ایف بی آر حکام نے فنانس بل پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 75 ہزار روپے سے زائد کی رقم نکلوانے پر نان فائلرز کے لیے ایڈوانس ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے، جو اب 0.8 فیصد تک ہو گی۔
ایف بی آر حکام کا کہنا تھا کہ ای کامرس کاروبار پر بھی انکم ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ کپڑوں کے آن لائن کاروبار پر 2 فیصد، الیکٹرونکس پر 0.5 فیصد جبکہ دیگر آن لائن کاروباروں پر 1 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔ رجسٹرڈ آن لائن کاروباری افراد اپنی آمدنی پر انکم ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہوں گے اور کسٹمرز کے آرڈر بک کرانے پر ان کی بلنگ تفصیلات کو آن لائن ریٹرن تصور کیا جائے گا۔
حکام کے مطابق بینک یا کورئیر سروس ایف بی آر کے مجاز نمائندے کے طور پر کام کریں گے اور ٹیکس کی رقم وصول کر کے جمع کروائیں گے۔ آن لائن کاروبار کرنے والے افراد انکم ٹیکس کی مد میں کسٹمرز سے اضافی رقم نہیں لیں گے۔
ایف بی آر کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح میں بھی اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔ گوگل، یوٹیوب اور فیس بک سمیت تمام ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ایڈوانس ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کی تجویز ہے، تاکہ ان کمپنیوں کو پاکستان میں اپنے دفاتر قائم کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ اگر یہ کمپنیاں پاکستان میں باقاعدہ دفاتر قائم کرتی ہیں تو ان پر صرف 5 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا۔