اسرائیل اس وقت شدید جنگلاتی آگ کے بحران سے دوچار ہے جس نے کئی رہائشی علاقوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حکام نے صورتحال کو قومی ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے فوری بین الاقوامی مدد طلب کی ہے۔

آگ بدھ کے روز بھڑکی اور تیز ہواؤں کے باعث تیزی سے مختلف علاقوں میں پھیل گئی، جس کے بعد یروشلم اور تل ابیب کو ملانے والی اہم ہائی وے 1 سمیت کئی سڑکیں بند کر دی گئیں۔ متعدد علاقوں سے لوگوں کا انخلا کرایا جا چکا ہے جبکہ فضا میں دھوئیں کے باعث شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے یونان، قبرص، اٹلی، کروشیا اور بلغاریہ سے مدد کی اپیل کی تھی، جس کے بعد ان ممالک کی فائر فائٹنگ ٹیمیں، طیارے اور آلات اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔ تاہم خراب موسم امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

مزید پڑھیں: نوشکی: تیل سے بھرے ٹرک میں آگ لگنے سے دھماکا، متعدد افراد جھلس گئے

وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ ہم ایک قومی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ تمام دستیاب وسائل کو متحرک کرکے جانوں کے تحفظ اور آگ پر قابو پانا ہماری اولین ترجیح ہے۔

ریسکیو ایجنسی مغین ڈیوڈ ایڈوم (MDA) کے مطابق سینکڑوں افراد خطرے میں ہیں جبکہ کم از کم 16 شہری دھوئیں سے متاثر ہو چکے ہیں جنہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔ آگ بجھانے کے لیے فوجی اہلکار، فائر فائٹرز اور ہیلی کاپٹرز مشترکہ کارروائی میں مصروف ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل اپنا 77 واں یوم آزادی منانے کی تیاری کر رہا تھا، تاہم ایمرجنسی کی وجہ سے یروشلم میں مرکزی تقریب منسوخ کر دی گئی ہے۔ حکام نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر مجاز علاقوں میں بون فائر یا باربی کیو سے گریز کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل تل ابیب وزیر دفاع اسرائیل کاٹز یروشلم.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل تل ابیب

پڑھیں:

ویٹ لینڈ شہر’’ سے‘‘بے ترتیب لان‘‘تک:شہروں میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کہانیاں

بیجنگ : حیاتی تنوع انسانی فلاح و بہبود سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور انسانی بقا اور ترقی کی ایک اہم بنیاد ہے۔ چین حیاتیاتی تنوع سے متعلق کنونشن پر دستخط اور توثیق کرنے والے اولین فریقوں میں سے ایک ہے ، اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کوششوں میں نتیجہ خیز کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین کے زمینی حیاتیاتی نظام کی 90 فیصد اقسام اور قومی کلیدی تحفظ کے تحت جنگلی حیات کی 74 فیصد آبادی کو مؤثر طریقے سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ ان میں، شہری علاقوں میں ماحولیاتی تحفظ ایک اہم حصہ ہے. حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور لوگوں کی ماحولیاتی بہبود کو بہتر بنانے کے علاوہ، یہ اقدام ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں لوگوں کے شعور کو بڑھانےمیں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے.ویٹ لینڈز کنونشن کے فریقوں کی 15 ویں کانفرنس میں ، چین کے مزید نو شہروں کو’’ انٹرنیشنل ویٹ لینڈ شہروں‘‘کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس طرح اب چین میں ایسے شہروں کی کل تعداد 22 ہو گئی ہے جو دنیا میں پہلے نمبر پر ہے ۔’’انٹرنیشنل ویٹ لینڈ سٹی‘‘ ویٹ لینڈز کے ماحولیاتی تحفظ میں شہروں کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔ یہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے چین کی شہری تعمیر میں ماحولیاتی تحفظ کو سراہنے کی عکاسی کرتا ہے۔چین کے ویٹ لینڈ شہروں کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں۔ مثال کے طور پر، شی زانگ خوداختیار علاقے کے لہاسا میں لالو ویٹ لینڈ نیشنل نیچر ریزرو دنیا کی سب سے بلند اور سب سے بڑی شہری قدرتی ویٹ لینڈ ہے، صوبہ زے جیانگ کے ہانگ چو میں شی شی نیشنل ویٹ لینڈ پارک نے میں انسان، پانی میں مچھلی اور شہر میں پانی” کا شاعرانہ منظرنامہ تخلیق کیا ہے ، اور صوبہ فوجیئن کے فوچو نے ساحلی زمینوں کو پرندوں کی جنت میں تبدیل کرنے اور مقامی ثقافتی خصوصیات کو برقرار رکھنے کے درمیان بہترین توازن قائم کیا ہے۔عام طور پر ویٹ لینڈ کے بارے میں لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ یہ شہروں سے دور ہوتے ہیں جہاں پرندوں کی بہتات ہوتی ہے ۔تاہم ، ویٹ لینڈ شہروں نے ویٹ لینڈ کے ماحولیاتی نظام کو شہری ماحول کے ساتھ یکجا کر دیا ہے، جس سے نہ صرف حیوانات و نباتات کو متنوع مسکن میسر آئے ہیں بلکہ شہریوں کو بھی فطرت کے قریب تر رہنے اور تفریح کرنے کا ماحول ملا ہے. دوسری جانب، یہ ویٹ لینڈ شہر ، شہری منصوبہ بندی و انتظام کے لیے بھی کچھ مختلف نقطہ ہائے نظر فراہم کرتے ہیں، جہاں ماحولیاتی تنوع اور شہری کمیونٹی کی منظم و خوبصورت ضروریات کے درمیان توازن تلاش کیا گیا ہے۔ شہری منصوبہ بندی میں نظم و ضبط شہری جمالیات اور افعالی ہم آہنگی کا بنیادی عنصر ہے، جو نہ صرف جگہ کی منظم ترتیب میں ظاہر ہوتا ہے، بلکہ معاشرتی انتظام کے نظامی نوعیت کی بھی عکاسی کرتا ہے.ان میں بیجنگ اور واشنگٹن ڈی سی کے محور پر مبنی منصوبہ بندی مثالیں ہیں۔ لیکن ضرورت سے زیادہ باقاعدگی کے اصرار نے بھی کچھ مسائل کو جنم دیا ہے۔ حال ہی میں، امریکہ میں ایک’’غیر منظم‘‘ لان نے گرما گرم بحث کو جنم دیا ہے. نیو یارک میں ایک چینی نے روایتی لان میں مختلف اقسام کے پودے اگائے،جس سے شہد کی مکھیاں اور تتلیاں بھی وہاں آئیں اور ایک چھوٹا ماحول دوست باغ بن گیا۔انہوں نے سوچابھی نہیں تھا کہ اس باغ کے لئے 2،000 ڈالر کا جرمانہ نوٹس ملے گا۔کچھ مغربی ممالک میں، ایک صاف ستھرے اور منظم لان کو اقتصادی حیثیت اور سماجی وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے اور یہ گھروں کی ظاہری شکل کے معیارات میں سے ایک ہے، یہاں تک کہ یہ جائیداد کی قیمت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ایک “غیرمنظم” لان کے حوالے سے ہمسایے شکایات کر سکتے ہیں ، یہاں تک کہ ہزاروں ڈالر تک جرمانے بھی لاگو ہو سکتے ہیں ۔ حامیوں کا کہنا ہے کہ نظم و ضبط کی پاسداری ضروری ہے۔ جبکہ مخالفین کا خیال ہے کہ ” منظم” لان کو برقرار رکھنے کے لیے بہت زیادہ دیکھ بھال کی لاگت آتی ہے، پانی کا ضیاع ہوتا ہے اور ماحولیاتی تنوع کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ درحقیقت،منظم لان اور شہر میں ویٹ لینڈ، دونوں انسانیت اور فطرت کے درمیان تعلقات کے عکاس ہیں۔ لان میں کھلنے والے ہر گل قاصدی کو توڑنےاور مقررہ اونچائی سے لمبے ہر گھاس کو کاٹنے سے فطرت پر مکمل کنٹرول کا اعلان کرنا ہو، یا کنکریٹ کے جنگل میں جنگلی حیات کے لیے کچھ رہائش گاہ محفوظ رکھ کر قدرت سے ہاتھ ملانا ہو ،یہ ایک انتخاب ہے۔لیکن ،اصل میں یہ ایک واحد انتخاب والا سوال نہیں ہونا چاہئے۔انسانوں نے شہروں میں آباد ہو کر فطرت کے درندوں کے خطرے سے بچنے کی کوشش کی، انہوں نے تہذیبی نظم و ضبط قائم کیا تاکہ جنگل کی بے ترتیبی سے بچا جا سکے۔ لیکن آخرکار، انسان پھر بھی فطرت کا ہی حصہ ہے۔امریکی نیچر لسٹ رائٹر مائیکل پولن کا خیال ہے کہ فطرت اور انسانی ثقافت کو متضاد قرار دینا ایک بے بنیاد انتخاب ہے۔ برطانیہ اور امریکہ کے’’مئی میں گھاس نہ کاٹنے‘‘ کے اقدام سے لے کر نیدرلینڈز کے’’اینٹیں اور جنگلی پن‘‘ کے منصوبے تک، یہ سب انسانی تہذیبی نظم و ضبط اور فطری تحفظ کے درمیان توازن کی تلاش کی عملی مثالیں ہیں۔جاپان کے’’ہر چیز میں روح‘‘ کے تصور سے لے کر چین کے‘‘فطرت اور انسان کے اتحاد’’ تک، پھر‘‘کرہ ارض پر زندگیوں کے ہم نصیب معاشرے ’’ سے پہاڑ اور شفاف پانی انمول اثاثے ہیں‘‘ کے ترقیاتی تصور تک، یہ سب انسان اور فطرت کے باہمی تعلق پر انسانی غور و فکر اور جوابات ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب لوگوں کو احساس ہو جائے کہ فطرت اور انسان ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہیں، ماحولیاتی تنوع اور انسانی فلاح و بہبود کا تعلق کوئی زیرو سم گیم نہیں ہے، تو ثقافتی تنوع کی بقا بھی مزید امکانات کو جنم دے گی۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • ملک بھر میں 3 اگست تک ممکنہ سیلابی صورتحال، این ڈی ایم اے کا الرٹ جاری
  • فرانس اور برطانیہ کے بعد کینیڈا کا بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر غور
  • ویٹ لینڈ شہر’’ سے‘‘بے ترتیب لان‘‘تک:شہروں میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کی کہانیاں
  • بیجنگ میں شدید بارشوں سے تباہی، 30 افراد ہلاک، ہزاروں بے گھر
  • پیوٹن کا نیتن یاہو سے ہنگامی رابطہ، پسِ پردہ کیا ہے؟
  • غزہ کی صورتحال انسانیت کے ماتھے پر بدنماء داغ ہے، ناروے
  • نائب وزیراعظم کا امریکی وزیر خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ، ٹیرف پر بات چیت
  • وزیر خارجہ اسحق ڈار اور ترکیہ کے وزیر خارجہ کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ
  • نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار کا ترکیے کے وزیرخارجہ ہاقان فیدان سے ٹیلی فونک رابطہ
  • اسحاق ڈار کا ایرانی وزیر خارجہ سے ٹیلیفونک رابطہ، غزہ بحران پر تبادلہ خیال