سید مہدی شاہ نے ایک پیغام میں کہا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر مہنگائی کی وجہ سے دھاڑی دار طبقے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ اس لئے میں ہمہ وقت کوشاں ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو روزگار، غریبوں کو اسپیشل پیکجز وغیرہ فراہم کرا کر انکی زندگیوں میں خوشحالی لا سکوں۔ اسلام ٹائمز۔ گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے عالمی یوم مزدور کے موقع پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ اس دن کو منانے کا مقصد امریکا کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے۔ انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے کا دن یکم مئی ہے۔ 1884ء میں شکاگو میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھنے والی آواز، اپنا پسینہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا گیا، مگر ان جاں نثاروں کی قربانیوں نے محنت کشوں کی توانائیوں کو بھرپور کر دیا۔ مزدوروں کا عالمی دن کارخانوں، کھتیوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کارگاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے اور یہ محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بنیاد ہیں۔ گورنر سید مہدی شاہ نے مزید کہا کہ مہنگائی مزدوروں کی زندگیوں میں بہت بڑا بحران لے کر آئی ہے۔

گورنر کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات کے پیش نظر مہنگائی کی وجہ سے دھاڑی دار طبقے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔ اس لئے میں ہمہ وقت کوشاں ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو روزگار، غریبوں کو اسپیشل پیکجز وغیرہ فراہم کرا کر انکی زندگیوں میں خوشحالی لا سکوں اور انشاء اللہ ہر گھڑی مزدور طبقے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھوں گا۔ گورنر نے مزید کہا کہ تاریخ گواہ ہے پیپلزپارٹی نے ہمیشہ پسے ہوئے طبقے کی نمائندگی کی، پاکستان میں قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے مزدورں کے ڈھال بن کر ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ لیکن بدقسمتی سے اب بھی مکمل طور پر مزدوروں کو محنت کے حساب سے اجرت نہیں ملتی، آج یکم مئی کے موقع پر مزدوروں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے عہد کرتے ہیں کہ مزدور طبقے کی حقوق کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: گلگت بلتستان

پڑھیں:

طبقاتی شناخت ہی میں مزدور جدوجہد کی کام یابی ہے

مزدوروں کا عالمی دن دنیا بھر میں اس بار اضطرابی ماحول میں منایا جا رہا ہے۔ یورپ کے اکثر ممالک اور امریکا میں دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتیں اقتدار میں آچکی ہیں جو اپنے جوہر میں مزدور دشمن ایجنڈا لیے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کا پاگل پن سرمایہ داری نظام میں پنپنے والی وحشت کا اظہار ہے۔ ٹرمپ کے حالیہ اقدامات نے دنیا کے اربوں محنت کشوں کو بیروزگاری اور مہنگائی کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔

 ٹرمپ نے ٹیرف کے نام پر دنیا کو غیریقینی صورت حال سے دوچار کردیا ہے جس کے بد ترین اثرات مرتب ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ صنعتی ممالک اپنی مصنوعات پر عائد درآمدی ٹیکس کی وجہ سے نہ ختم ہونے والی بے چینی و بے یقینی کا شکار ہیں۔ دنیا بھر کی بڑی اسٹاک ایکسچینج بے سمت کاسٹر رولر کی مانند منڈی کی اندھی بہری قوتوں کے رحم وکرم پر ہیں۔

پورے کا پورا سرمایہ دارانہ نظام معیشت خود اپنی جڑوں پر حملہ آور ہے۔ منڈیوں کے چھن جانے کا خوف اور سرحدیں دیگر ممالک کی مصنوعات کے لیے بند کرنے کا عمل اور پھر اس پر ردعمل بحران کو دو آتشہ کر رہا ہے۔ پیداواری عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے ، ایک جانب مال کی کھپت کی محدودیت بے روزگاری کا باعث بن رہی تو دوسری جانب درآمد شدہ اشیا پر نئے عائد ٹیکسوں نے مہنگائی کا طوفان بپا کر رکھا ہے۔

چین، مشرق بعید، یورپ، کینیڈا، امریکا کی پیداواری اٹھان پر ہنگامی روک سی لگ گئی ہے۔ ہندوستان، جنوبی افریقہ، برازیل، میکسیکو جیسے ممالک کی ابھرتی معشیتیں منہ کے بل گرا چاہتی ہیں۔ بنگلادیش اور پاکستان کی پہلے سے بحران میں مبتلا معیشتیں موجودہ حالات میں سہم سی گئیں ہیں۔

سرمایہ داری کے اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر محنت کش ہورہے ہیں جنہیں بے روزگاری اور مہنگائی کی دو دھاری تلوار ہر لحظہ مجروح کر رہی ہے۔ معاشی بحران ہو تو پہلا نشانہ محنت کش ہوتا ہے اور معاشی ترقی کا ثمر ہو تو یہ بالادست اور طاقت ور طبقات کی وراثت ٹھہرتا ہے اور محنت کش کو آسرا ہی کہ اس کے دن بدلنے والے ہیں۔

منڈیوں کی ازسرنو تقسیم ایک نئے نوآبادیاتی نظام کے خدوخال ابھار رہی ہے ، غزہ میں اسرائیلی بربریت، شام میں اقتدار کی جبری تبدیلی اور روس یوکرائن جنگ جیسے سانحات اور چین کی جنوبی امریکا، افریقہ اور ایشیائی ممالک میں بنا روک ٹوک کثیر سرمایہ کاری ثابت کر رہی ہے کہ طاقت ور کسی قانون اور ضابطے کا پابند نہیں۔ دنیا کے تمام قانون ضابطہ تیزی سے اپنی وقعت کھوچکے ہیں اور ایک ایسی دنیا تخلیق پا رہی ہے جہاں طاقت کا ننگا راج ہے۔

سرمایہ داری کا چلن اربوں انسانوں میں بھوک افلاس بے روزگاری اور بیماری ہی نہیں بانٹ رہا وہ منافع کی حرص میں خطوں کو جنگوں کی ہول ناکیوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے، اس نظام نے ماحولیاتی تباہی کا وہ ساماں پیدا کیا ہے۔ ہم سب کا مسکن یہ کرۂ ارض ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر آ کھڑا ہوا ہے۔ ہم وہ آخری نسل انسانی ہیں جو اپنی دنیا کو بچا سکتی ہے۔

دنیا کو بدنما بنانے میں ہمارے حکم راں بھی کسی سے پیچھے نہیں، اپنے مربیوں کی طرح وہ بھی عوام دشمن اور مزدور دشمن طرز اپنائے ہوئے ہیں۔ محنت طبقہ کے وہ تمام حقوق عملاً سلب ہوچکے ہیں جنہیں اس نے اپنی صدیوں پر محیط طویل جدوجہد سے حاصل کیے تھے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ تحریری تقررنامہ، یونین سازی و اجتماعی سودا کاری، کم از کم اجرت، یکساں کام یکساں اجرت، آٹھ گھنٹے کام، ہفتہ وار تعطیل، سوشل سیکیوریٹی، پینشن، بونس، منافع میں حصہ، سالانہ چھٹیاں، زچگی میں معہ اجرت رخصت جیسے بنیادی حقوق اب لیبر قوانین کی کتابوں میں رہ گئے ہیں، ان کی پاس داری اور عمل درآمد کا تقاضا صنعتی ترقی اور صنعتی امن پر حملہ تصور کرلیا گیا ہے۔ مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات، روزگار کی ضمانت، رہائش کی فراہمی، بہتر پبلک ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی کی فراہمی کا ریاست کی ذمے داری کو قصہ پارینہ بنا دیا گیا ہے۔

ریاست، حکومت اور حکومتی اداروں کا اولین فرض طاقت ور حلقوں کی ہر لحظہ بڑھتی مراعات اور ان کے معاشی و سیاسی مفادات کا تحفظ ٹھہرا ہے۔ زمین داروں، صنعت کاروں، مالیاتی اداروں کے مالکان، سول ملٹری بیوروکریسی اور ان کی نمائندہ سویلین سیاسی اشرافیہ نے زندگی کی آسائشوں سے محروم کروڑوں انسانوں کو مزید اذیت میں مبتلا کرنے کے لیے ایک مقدس اتحاد کر رکھا ہے۔ مختلف ناموں سے موجود سیاسی جماعتیں دراصل ایک بڑی پارٹی کے مختلف ونگز ہیں جنہوں نے عوام کو مذہب، فرقہ، نسل، لسان اور دیگر دل لبھانے والے نعروں اور منشور کی بنیاد پر اپنے گرد جمع کر رکھا ہے تاکہ محنت کشوں کو ایک متبادل طبقاتی شناخت کی بنیاد پر سیاسی و سماجی تنظیم کی جستجو سے روکا جا سکے۔

فریب کا یہ جال پھیلانے میں حکم راں طبقات خاصے کام یاب رہے ہیں، یہ حکم راں طبقات کی کام یابی ہی ہے کہ گمبھیر مسائل کا ادراک ہونے کے باوجود محنت کش اپنی بقا اور حقوق کا تحفظ اپنی طبقاتی شناخت کی بنیاد پر کرنے کی بجائے مذہبی گروہوں، لسانی و علاقائی تنظیموں اور اقتداری سیاست والی پارٹیوں میں ڈھونڈتا دکھائی دیتا ہے۔ محنت کش طبقہ عمومی طور پر اپنے طبقاتی مطالبات پر متحرک و منظم ہونے اور اپنے طبقاتی دشمنوں سے نبردآزما ہونے کی بجائے غیرمعاندانہ تضادات کا ایندھن بننے کے لیے تیار رہتا ہے۔ وہ ان طبقات، افراد اور گروہوں کو اپنا مسیحا گردانتا ہے جو کہ نسلوں سے اس کے مصائب کا ذمے دار ہے۔

 حکم رانوں نے نہایت منظم انداز میں پہلے قوانین اور آئین موجود محنت کشوں کے بنیادی حقوق کو عملاً ناقابل عمل بنایا اور قوانین پر عمل درآمد پر مامور اداروں خصوصاً لیبر ڈیپارٹمنٹ کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا لیبر قوانین کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر سام راجی بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی ایما پر سندھ اور پنج آب میں ’’لیبرکوڈ‘‘ مسلط کرنے کی خطرناک سازش رچائی گئی ہے تاکہ کارگاہوں میں پھیلی لاقانونیت کو قانون کا درجہ دے دیز جائے۔

 نہ رہے بانس، نہ بجے کی بانسری۔

اس گھناؤنی سازش میں محنت کا بین الاقوامی ادارہ اور حکومتی ذمہ دار برابر کے شریک ہیں۔

اگر ترقی یافتہ صنعتی ریاستوں سے لے کر پاکستان جیسی ریاستوں کے حکم راں اپنے سرشت میں محنت کش دشمن ہیں اور وہ اپنے طرزعمل سے ثابت بھی کر رہے ہیں تو پھر محنت کش طبقے کو بھی ملکی اور بین الااقوامی سطح پر ایک نئی صف بندی کی ضرورت ہے جو طبقاتی شناخت کی بنا پر ہو۔ مزدور طبقے نے شکاگو سے لے کر آج تک جب بھی اپنی طبقاتی شناخت کے شعور کے ساتھ جدوجہد کی ہے۔

سرمائے کے عفریت کی ہر شکل کو شکست دینے میں کام یاب رہا ہے۔ مزدور طبقے کو اپنے حقوق اور ایک بڑی سماجی تبدیلی کی جنگ میں دیگر تمام شناختی علامات سے برات کا اعلان کرنا ہوگا تاکہ سرمایہ کے عفریت پر فتح یاب ہوا جاسکے۔

متعلقہ مضامین

  • مزدور طبقہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، خرم نواز گنڈاپور
  • یومِ مزدور پر آج عام تعطیل؛ محنت کش دیہاڑی کی تلاش میں سرگرداں
  • یومِ مزدور پر آج عام تعطیل؛ محنت کش دیہاڑی کی تلاش میں سرگرداں
  • ہر مزدور قابلِ فخر ہے، آئیں اُنہیں عزت اور سہولیات دیں: گورنر سندھ
  • مزدوروں کا عالمی دن: اسلامی تعلیمات اورعصرِ حاضر
  • اسلام محنت کشوں کے حقوق کا درس دیتا ہے، گلبر خان
  • گورنر سندھ کا یوم مزدور کے موقع پر مزدوروں کو خراج تحسین پیش
  • محنت کشوں کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے
  • طبقاتی شناخت ہی میں مزدور جدوجہد کی کام یابی ہے