Islam Times:
2025-06-15@10:11:49 GMT

خوشحالی کے بغیر عظیم انسان

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

خوشحالی کے بغیر عظیم انسان

اسلام ٹائمز: بھلا کوئی اندازہ کرے، اُس شخص کی مشکلات کا کہ جو دِل و جان سے محنت کرتا ہے، لیکن اسکی محنت کا کوئی حقیقی بدلہ اُسے نہیں ملتا۔ جو اپنی ساری جسمانی قوت و توانائی اپنی مزدوری میں صرف کر دیتا ہے، لیکن وہ سکون سے نہیں جیتا۔ اسکی روزانہ کی جدوجہد اُسکی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتی۔ وہ زمین سے رزق کماتا ہے، لیکن اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھی اسے زندگی کے ہر پہلو میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ہمارے عہد کا یہ نوحہ ہے کہ یہاں سچائی اور ایمانداری سے محنت کرنیوالا کبھی اپنے پیٹ کی آگ کو پوری طرح نہیں بجھا پاتا، وہ ایک عظیم انسان ضرور ہوتا ہے، لیکن خوشحال انسان نہیں بن پاتا۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے دین، تہذیب اور سماج میں محنت کرنیوالا ایک عظیم شخص تو ہے، لیکن وہ خوشحال کیوں نہیں ہوتا۔؟ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

مزدور صرف وہ شخص نہیں، جو بھٹوں پر اینٹیں اٹھاتا ہے، فیکٹریوں میں مشینوں کے شور میں اپنی سانسیں گنواتا ہے، یا پھر نمک کی کانوں میں دب کر مر جاتا ہے بلکہ  ہر وہ شخص مزدور ہے، جو اس ملک میں دن بھر محنت کرتا ہے اور رات کو اس امید کے سائے میں سوتا ہے کہ شاید کل کچھ بدلے گا، لیکن اگلی صبح پھر اُس کیلئے کچھ نہیں بدلتا۔ وہ صرف پانی، گیس اور بجلی کے بِل ادا کرنے کیلئے پیدا ہوتا ہے اور اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوائے بغیر ہی مر جاتا ہے۔ جس روز وہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر قہوہ پی لے، وہ دِن اس کیلئے عید کا دن ہوتا ہے۔ وہ کبھی چھٹی نہیں کرسکتا، چونکہ چھٹی کرے گا تو کھائے گا کہاں سے۔؟ مزدور یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی تاریخ محض بادشاہوں، طاقتوروں، اشرافیہ اور زورآوروں نے مرتب کی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ تہذیب و تمدّن کی تاریخ صرف جنگوں اور معاہدوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ وہ  مزدور کے خون پسینے کا شہکار ہے۔

یہ مزدور ہی ہیں کہ جنہوں نے تہذیبوں کو اٹھایا، سلطنتوں کو سجایا، مگر تاریخ نے ان کے نام صفحۂ حیات پر رقم نہ کیے۔ یومِ مزدور دراصل انہی مزدوروں کے اُسی انمٹ کردار کی بازگشت ہے، جسے طاقِ نسیاں میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ انصاف تب قائم ہوتا ہے، جب برابر کو برابر سمجھا جائے، لیکن ہمارے ہاں مزدور نہ برابر ہے اور نہ اُسے اپنے برابر سمجھا جاتا ہے، وہ ہر روز صرف ایک ٹشو پیپر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی صنعتی انقلاب کے دوران جب کارخانوں نے زمین پر خطرناک دھواں اور آسمان پر زہریلا سایہ پھیلایا تو انسان بھی ایک مشین کا پرزہ بن کر رہ گیا۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیّہ ہے کہ اُس وقت انسان کی قیمت ایک مشین جتنی بھی نہیں بلکہ کسی مشین کے ایک پُرزے جتنی طے کر دی گئی تھی۔ 1886ء کا شکاگو ہمیں اسی المیّے کی یاد دلاتا ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر انسان اتنا بے بس ہوگیا تھا کہ مزدوروں نے صرف آٹھ گھنٹے کے کام کا مطالبہ کیا اور ریاست نے گولیوں سے اُن کا سینہ چیر دیا۔

یہ دن اُن دِنوں میں سے ایک ہے کہ جب ریاست یہ بھول گئی تھی کہ وہ ایک ماں ہے۔ اُس کے بعد جو احتجاج ہوا، وہ محض ایک احتجاج نہیں تھا بلکہ یہ ایک عہدِ نو کا آغاز تھا۔ اس عہدِ نو میں مقتدر اشرافیہ نے یہ تسلیم کیا کہ مزدور کو ہر حال میں اس کی محنت کا مکمل صلہ ملنا چاہیئے اور اُس کا صلہ فقط دو وقت کی روٹی و روزی تک محدود نہیں بلکہ یہ صلہ معیاری اجرت، عزّت، سہولت اور مساوات کی صورت میں مزدور کا انسانی حق ہے۔ اگرچہ آج تک دنیا بھر میں مزدور کا حال اُس مٹی کی مانند ہے، جو کھیت کو سبزہ دیتی ہے، مگر خود خشک رہتی ہے۔ مزدور بیمار ہو تو دوا نایاب، وہ زخمی ہو تو معاوضہ ندارد اور اگر اُس کے آنگن میں بچہ پیدا ہو تو تعلیم کے دروازے بند۔ دوسری طرف اشرافیہ کے بچوں کے لیے اوکسفورڈ اور ہاورڈ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ آج مزدور صرف معاشی غلام نہیں بلکہ علمی اور فکری غلامی میں بھی گرفتار ہے۔

اُس کے بچوں کو سوچنے، سوال کرنے اور شعور حاصل کرنے سے پہلے ہی افلاس کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ مزدور کو غربت کی صلیب سے اُتارنا تبھی ممکن ہے کہ جب اُسے اُس کا جائز مقام دیا جائے اور یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ جب تعلیم، انصاف، صحت اور ترقی کو خاندانی وراثت نہیں، انسانی حق سمجھا جائے۔ وہ مزدور جو آج کے دور میں معاشی غلام بن چکا ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہم میں سے ہر وہ شخص ہے، جس کی محنت کبھی اس کا پیٹ نہیں بھرتی، جس کے ہاتھوں کی سختی اور جسم کی تھکاوٹ کا بدلہ اُسے معیاری زندگی کی صورت میں نہیں ملتا۔ وہ اپنی روزمرہ کی جدوجہد میں دن رات ایک کرتا ہے، مگر اُسے اُجرت شکریے کے بجائے  یوں دی جاتی ہے کہ جیسے اُس پر کوئی  احسان کیا جا رہا ہو۔ وہ مسلسل دوڑتا ہے، کولہو کے بیل کی مانند، لیکن پھر بھی اس کے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں اور اس کی زندگی میں خوشحالی کا تصور محض ایک خواب ہوتا ہے۔

بھلا کوئی اندازہ کرے، اُس شخص کی مشکلات کا کہ جو دِل و جان سے محنت کرتا ہے، لیکن اس کی محنت کا کوئی حقیقی بدلہ اُسے نہیں ملتا۔ جو اپنی ساری جسمانی قوت و توانائی اپنی مزدوری میں صرف کر دیتا ہے، لیکن وہ سکون سے نہیں جیتا۔ اس کی روزانہ کی جدوجہد اُس کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتی۔ وہ زمین سے رزق کماتا ہے، لیکن اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی اسے زندگی کے ہر پہلو میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ہمارے عہد کا یہ نوحہ ہے کہ یہاں   سچائی اور ایمانداری سے محنت کرنے والا کبھی اپنے پیٹ کی آگ کو پوری طرح نہیں بجھا پاتا، وہ ایک عظیم انسان ضرور ہوتا ہے، لیکن خوشحال انسان نہیں بن پاتا۔ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے دین، تہذیب اور سماج میں محنت کرنے والا ایک عظیم شخص تو ہے، لیکن وہ خوشحال کیوں نہیں ہوتا۔؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ ایک عظیم کرتا ہے سے نہیں لیکن وہ ہوتا ہے جاتا ہے کی محنت بھی اس

پڑھیں:

انسان نما روبوٹس کا پہلا کک باکسنگ مقابلہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیجنگ (اسپورٹس ڈیسک )ٹیکنالوجی کی دنیا میں نیا سنگ میل عبور کرلیا گیا، چین میں انسان نما روبوٹس کا پہلا کک باکسنگ مقابلے کا انعقاد کیا گیاہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق باکسنگ مقابلہ چین کے شہر ہانگژو میں ہوا، جس میں روبوٹس نے ایک دوسرے پر مکے اور لاتیں برسائیں جبکہ شائقین نے اس منفرد مظاہرے کو بھرپور دلچسپی سے دیکھا۔ یہ مقابلہ چائنا میڈیا گروپ کا حصہ تھا، جسے سرکاری ادارے چائنا سینٹرل ٹیلی ویژن نے براہِ راست نشر کیا، مقابلے میں معروف چینی کمپنی یونی ٹری روبوٹکس کے تیار کردہ G1 ماڈل روبوٹس نے حصہ لیا۔ ہر فائٹ دو حصوں پر مشتمل تھی، پہلا حصہ حرکات کی نمائش پر مبنی تھا، جبکہ دوسرے حصے میں تین سے دو منٹس کی فائٹنگ رانڈز شامل تھے۔ مزید پڑھیں: انگلینڈ میں 426 رنز کے تعاقب میں ٹیم 2 رنز پر آٹ روبوٹ کو پوائنٹ صرف اس وقت ملتا جب وہ مخالف کے جسم یا سر پر حملہ کرتا، روبورٹس آسانی سے کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے، تربیت یافتہ آپریٹرز انہیں جوئسٹکس کے ذریعے ریموٹ کنٹرول سے چلا رہے تھے۔ یونی ٹری روبوٹکس کے ڈائریکٹر وانگ چیشن کے مطابق یہ آسان نہیں تھا کہ روبوٹس کو انسانی حرکات سکھائی جائیں، ہم نے پیشہ ور کک باکسرز کی حرکات کا ڈیٹا اکٹھا کیا اور پھر اے آئی سے روبوٹس نے انہیں ورچوئل دنیا میں سیکھا۔ ماہرین کے مطابق یہ مقابلہ چین کی تیزی سے ترقی کرتی روبوٹکس انڈسٹری کے لیے ایک ٹرین تھرو کمپٹیشن ماڈل ہے، جس سے نوجوان ماہرین اور محققین کو عملی تربیت کا موقع ملے گا اور نئی ٹیکنالوجیز میں جدت آئے گی۔ یونٹری کے روبوٹس اس سے قبل 2025 کے اسپرنگ فیسٹیول گالا میں انسانوں کے ساتھ رقص کر چکے ہیں، بعد ازاں مارچ میں ان کے G1 ماڈلز نے سائیڈ فلپ اور کک اپ جیسی حرکات سے سب کو حیران کر دیا۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت سے مذاکرات نہیں ہونگے تو کشیدگی میں اضافہ ہوتا جائے گا: بلاول
  • وزیراعلیٰ سندھ کا بھارتی طیارے کے حادثے پر اظہارافسوس
  • انسان کی اصل ارتقائی منزل ؟
  • ایران پر اسرائیل کا حملہ
  • انسان نما روبوٹس کا پہلا کک باکسنگ مقابلہ
  • کراچی: گڑھے میں گرنے والا محنت کش دم گھٹ کر جاں بحق
  • پاکستان کوکھل کربھارت کے خلاف بات کرنے پرعالمی دباؤ کا سامنا کرناپڑتاہے
  • پاکستانی معاشی کامیابیوں کو عالمی اداروں  نے تسلیم کیا، خوشحالی کا خواب پورا کرینگے: وزیر خزانہ
  • عظیم ماں
  • پشاور: دنیا سے رخصت ہوتا 14 سالہ لڑکا 5 خاندانوں کو انمول خوشیاں دے گیا