Islam Times:
2025-05-01@03:41:24 GMT

خوشحالی کے بغیر عظیم انسان

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

خوشحالی کے بغیر عظیم انسان

اسلام ٹائمز: بھلا کوئی اندازہ کرے، اُس شخص کی مشکلات کا کہ جو دِل و جان سے محنت کرتا ہے، لیکن اسکی محنت کا کوئی حقیقی بدلہ اُسے نہیں ملتا۔ جو اپنی ساری جسمانی قوت و توانائی اپنی مزدوری میں صرف کر دیتا ہے، لیکن وہ سکون سے نہیں جیتا۔ اسکی روزانہ کی جدوجہد اُسکی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتی۔ وہ زمین سے رزق کماتا ہے، لیکن اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھی اسے زندگی کے ہر پہلو میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ہمارے عہد کا یہ نوحہ ہے کہ یہاں سچائی اور ایمانداری سے محنت کرنیوالا کبھی اپنے پیٹ کی آگ کو پوری طرح نہیں بجھا پاتا، وہ ایک عظیم انسان ضرور ہوتا ہے، لیکن خوشحال انسان نہیں بن پاتا۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے دین، تہذیب اور سماج میں محنت کرنیوالا ایک عظیم شخص تو ہے، لیکن وہ خوشحال کیوں نہیں ہوتا۔؟ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

مزدور صرف وہ شخص نہیں، جو بھٹوں پر اینٹیں اٹھاتا ہے، فیکٹریوں میں مشینوں کے شور میں اپنی سانسیں گنواتا ہے، یا پھر نمک کی کانوں میں دب کر مر جاتا ہے بلکہ  ہر وہ شخص مزدور ہے، جو اس ملک میں دن بھر محنت کرتا ہے اور رات کو اس امید کے سائے میں سوتا ہے کہ شاید کل کچھ بدلے گا، لیکن اگلی صبح پھر اُس کیلئے کچھ نہیں بدلتا۔ وہ صرف پانی، گیس اور بجلی کے بِل ادا کرنے کیلئے پیدا ہوتا ہے اور اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوائے بغیر ہی مر جاتا ہے۔ جس روز وہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر قہوہ پی لے، وہ دِن اس کیلئے عید کا دن ہوتا ہے۔ وہ کبھی چھٹی نہیں کرسکتا، چونکہ چھٹی کرے گا تو کھائے گا کہاں سے۔؟ مزدور یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی تاریخ محض بادشاہوں، طاقتوروں، اشرافیہ اور زورآوروں نے مرتب کی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ تہذیب و تمدّن کی تاریخ صرف جنگوں اور معاہدوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ وہ  مزدور کے خون پسینے کا شہکار ہے۔

یہ مزدور ہی ہیں کہ جنہوں نے تہذیبوں کو اٹھایا، سلطنتوں کو سجایا، مگر تاریخ نے ان کے نام صفحۂ حیات پر رقم نہ کیے۔ یومِ مزدور دراصل انہی مزدوروں کے اُسی انمٹ کردار کی بازگشت ہے، جسے طاقِ نسیاں میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ انصاف تب قائم ہوتا ہے، جب برابر کو برابر سمجھا جائے، لیکن ہمارے ہاں مزدور نہ برابر ہے اور نہ اُسے اپنے برابر سمجھا جاتا ہے، وہ ہر روز صرف ایک ٹشو پیپر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی صنعتی انقلاب کے دوران جب کارخانوں نے زمین پر خطرناک دھواں اور آسمان پر زہریلا سایہ پھیلایا تو انسان بھی ایک مشین کا پرزہ بن کر رہ گیا۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیّہ ہے کہ اُس وقت انسان کی قیمت ایک مشین جتنی بھی نہیں بلکہ کسی مشین کے ایک پُرزے جتنی طے کر دی گئی تھی۔ 1886ء کا شکاگو ہمیں اسی المیّے کی یاد دلاتا ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر انسان اتنا بے بس ہوگیا تھا کہ مزدوروں نے صرف آٹھ گھنٹے کے کام کا مطالبہ کیا اور ریاست نے گولیوں سے اُن کا سینہ چیر دیا۔

یہ دن اُن دِنوں میں سے ایک ہے کہ جب ریاست یہ بھول گئی تھی کہ وہ ایک ماں ہے۔ اُس کے بعد جو احتجاج ہوا، وہ محض ایک احتجاج نہیں تھا بلکہ یہ ایک عہدِ نو کا آغاز تھا۔ اس عہدِ نو میں مقتدر اشرافیہ نے یہ تسلیم کیا کہ مزدور کو ہر حال میں اس کی محنت کا مکمل صلہ ملنا چاہیئے اور اُس کا صلہ فقط دو وقت کی روٹی و روزی تک محدود نہیں بلکہ یہ صلہ معیاری اجرت، عزّت، سہولت اور مساوات کی صورت میں مزدور کا انسانی حق ہے۔ اگرچہ آج تک دنیا بھر میں مزدور کا حال اُس مٹی کی مانند ہے، جو کھیت کو سبزہ دیتی ہے، مگر خود خشک رہتی ہے۔ مزدور بیمار ہو تو دوا نایاب، وہ زخمی ہو تو معاوضہ ندارد اور اگر اُس کے آنگن میں بچہ پیدا ہو تو تعلیم کے دروازے بند۔ دوسری طرف اشرافیہ کے بچوں کے لیے اوکسفورڈ اور ہاورڈ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ آج مزدور صرف معاشی غلام نہیں بلکہ علمی اور فکری غلامی میں بھی گرفتار ہے۔

اُس کے بچوں کو سوچنے، سوال کرنے اور شعور حاصل کرنے سے پہلے ہی افلاس کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ مزدور کو غربت کی صلیب سے اُتارنا تبھی ممکن ہے کہ جب اُسے اُس کا جائز مقام دیا جائے اور یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ جب تعلیم، انصاف، صحت اور ترقی کو خاندانی وراثت نہیں، انسانی حق سمجھا جائے۔ وہ مزدور جو آج کے دور میں معاشی غلام بن چکا ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہم میں سے ہر وہ شخص ہے، جس کی محنت کبھی اس کا پیٹ نہیں بھرتی، جس کے ہاتھوں کی سختی اور جسم کی تھکاوٹ کا بدلہ اُسے معیاری زندگی کی صورت میں نہیں ملتا۔ وہ اپنی روزمرہ کی جدوجہد میں دن رات ایک کرتا ہے، مگر اُسے اُجرت شکریے کے بجائے  یوں دی جاتی ہے کہ جیسے اُس پر کوئی  احسان کیا جا رہا ہو۔ وہ مسلسل دوڑتا ہے، کولہو کے بیل کی مانند، لیکن پھر بھی اس کے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں اور اس کی زندگی میں خوشحالی کا تصور محض ایک خواب ہوتا ہے۔

بھلا کوئی اندازہ کرے، اُس شخص کی مشکلات کا کہ جو دِل و جان سے محنت کرتا ہے، لیکن اس کی محنت کا کوئی حقیقی بدلہ اُسے نہیں ملتا۔ جو اپنی ساری جسمانی قوت و توانائی اپنی مزدوری میں صرف کر دیتا ہے، لیکن وہ سکون سے نہیں جیتا۔ اس کی روزانہ کی جدوجہد اُس کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتی۔ وہ زمین سے رزق کماتا ہے، لیکن اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی اسے زندگی کے ہر پہلو میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ہمارے عہد کا یہ نوحہ ہے کہ یہاں   سچائی اور ایمانداری سے محنت کرنے والا کبھی اپنے پیٹ کی آگ کو پوری طرح نہیں بجھا پاتا، وہ ایک عظیم انسان ضرور ہوتا ہے، لیکن خوشحال انسان نہیں بن پاتا۔ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے دین، تہذیب اور سماج میں محنت کرنے والا ایک عظیم شخص تو ہے، لیکن وہ خوشحال کیوں نہیں ہوتا۔؟

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ ایک عظیم کرتا ہے سے نہیں لیکن وہ ہوتا ہے جاتا ہے کی محنت بھی اس

پڑھیں:

اک مودی ہوتا تھا

انڈیا کے پاس 2  ائر کرافٹ کیریر آئی این ایس وکرانت  اور  آئی این ایس وکرانت دتیا ہیں۔ پہلگام حملے کے وقت آئی این ایس وکرانت بحیرہ عرب میں موجود تھا۔ 27 اپریل کو میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ واپس  کرناٹکا میں واقع نیول بیس کدامبا کی جانب لوٹ گیا۔ انڈین نیوی ایک بلیو واٹر نیوی ہے جو کھلے سمندروں میں آپریٹ کرتی ہے۔ پاکستان کی گرین واٹر نیوی ہے جو اپنے پانیوں تک محدود رہتی ہے۔ وکرانت کی نیول بیس کی جانب واپسی یا تو تناؤ میں کمی کا اشارہ ہے یا پھر انڈیا اپنے اس درشنی پہلوان کو حفاظت کے لیے واپس بیس پر بھجوا رہا ہے۔

پہلگام حملے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کے لیے انڈیا کے پاس مناسب ثبوت موجود نہیں ہے۔ دہلی میں انڈین وزارت خارجہ جی 7، جی 20 ، یورپی یونین، لاطینی امریکا کے اہم سفیروں کو بریفنگ دے چکی ہے۔ ان بریفنگز میں اب تک صرف یہ بتایا گیا ہے کہ پہلگام حملے کا پیٹرن یہ بتاتا ہے کہ اس میں پاکستانی گروپ ملوث ہیں۔ اہم ملکوں کے سفیروں نے انڈین حکومت سے کہا ہے کہ پیٹرن ثبوت نہیں اندازہ ہے، اس کی وجہ سے آپ ایک لڑائی شروع نہیں کر سکتے۔

دہلی میں سفارتکاروں کا اندازہ ہے کہ انڈیا کو انٹرنیشنل پریشر کی خاص پرواہ نہیں ہے۔ 2019 میں پلوامہ میں 40 انڈین فوجی مارے گئے تھے۔ جیش محمد پر اس کا الزام لگا تھا۔ خیبرپختون خوا میں مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ پر انڈیا نے تب ائر سٹرائیک کیا تھا۔ اس حملے سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ مودی نے بالاکوٹ سٹرائیک کو میڈیا میں اپنے سٹرانگ مین امیج کے طور پر کامیابی سے پیش کیا تھا۔

یہ  2025 ہے، 2019 میں  بالاکوٹ سٹرائیک کے ساتھ مودی اپنے لیے بینچ مارک بہت ہائی کر چکا ہے۔ اب اسے کوئی ایسا سٹرائیک کرنا ہے جس سے اس کا سٹرانگ مین امیج برقرار رہے بلکہ اور مضبوط ہو۔ یورپ میں انڈیا کی پہلے جیسے حمایت نہیں ہے، وجہ یوکرین جنگ میں روس سے تب سستی گیس تیل خریدنا جب یورپ کو یہ سہولت حاصل نہیں تھی۔ کینیڈا امریکا میں را کی کارروائیوں کے بعد انڈین حمایت میں کمی۔
ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے بھی اسحق ڈار سے بات چیت میں ثالثی کرنے اور کشیدگی کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی بات کی ہے۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی بات کر چکے ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان نے پاکستانی ہم منصب اور ڈپٹی وزیر اعظم اسحق ڈار سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے۔ سعودی حسب معمول پاکستان کے ساتھ ہیں اور کشیدگی میں کمی کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پہلگام واقعے کے وقت انڈین وزیر اعظم سعودی عرب کے دورے پر تھے۔

نتن یاہو نے بھی مودی سے ٹیلی فون پر بات کرنے کے بعد ایک ٹویٹ کی ہے۔ اس ٹویٹ میں انڈیا کو مذہبی دہشتگردی کے خلاف اپنی مکمل سپورٹ کا بتایا ہے۔ ساتھ ہی اپنی اسی ٹویٹ میں نتن یاہو نے ٹرانسپورٹ کمیونیکیشن کاریڈور کی بات بھی کی جو انڈیا کو سعودی عرب کے راستے اسرائیل اور آگے یورپ تک ملائے گا۔ اس کاریڈور کی بات کرتے ہوئے شاعر اصل میں یہ کہہ رہا ہے کہ مہاشے! ایسے پنگے نہ لینا کہ ہوتے کم ہی بگڑ جائیں۔ اسی زمین میں ایرانی شاعری بھی پڑھیں جو نارتھ ویسٹ ٹرانسپورٹ کاریڈور میں انڈیا کا پارٹنر ہے اور چاہ بہار میں بھی۔ اب ثالثی پیشکش پر غور کریں۔

پاکستان ایران اور افغانستان سیکشن کے انڈین ہیڈ آنند پرکاش نے کابل میں افغان عبوری وزیرخارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں متقی نے افغانوں کے لیے تجارتی، سٹوڈنٹ اور ہیلتھ ویزہ کی بحالی اور افغانستان میں سرمایہ کاری کی دعوت کی۔ پرکاش افغان طالبان کے موڈ کا اندازہ لگانے کابل پہنچے تھے۔ ایران اور سعودی عرب کے علاوہ افغانستان بھی کنیکٹویٹی انرجی کاریڈور کے پراجیکٹ کر رہا ہے۔ ان سب میں انڈیا کے علاوہ پاکستان بھی اہم ہے اور موجود بھی ہے۔ یہ سارے ملک انڈیا کو کسی ایڈونچر سے باز رہنے کا مشورہ ہی دے رہے ہیں۔ پاکستان نے ایک ہی دن میں افغان باڈر پر 54 دہشتگردوں کو ہلاک کیا ہے۔ ایسی کارروائی کیا انٹیلی جنس ٹپ کے بغیر ہو سکتی ہے۔ ٹپ کدھر سے آئی ہو گی اس کے لیے پاک اٖفغان حالیہ رابطے دورے اور مذاکرات پر غور کریں۔

پاکستانی وزیراعظم انڈیا کو مشترکہ تحقیقات کی پیشکش کر چکے ہیں۔ اس پیشکش نے پاکستان کی پوزیشن مضبوط کی ہے۔ اب مودی پر ہے کہ وہ اپنے ہی پیدا کردہ اُبال کو نظرانداز کر کے حالات نارمل کرے یا پھر کوئی ایسا پنگا لے جس کے بعد مثالیں بنیں کہ اک مودی ہوتا تھا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

اردو کالم وسی بابا

متعلقہ مضامین

  • محنت کشوں کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے
  • ترقی میں اہم کردار ادا کرنیوالے محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، آصف علی زرداری
  • طبقاتی شناخت ہی میں مزدور جدوجہد کی کام یابی ہے
  • زندہ لاش ہے مزدور۔۔۔۔ !
  • دنیا بھر کے تمام مزدور پیشہ افراد کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں؛ بیرسٹر سلطان محمود
  • ایسا جاندار جس کا سر کاٹ دیا جائے تو بھی ایک ہفتے زندہ رہ سکتا ہے
  • خدمت گاروں کے خدمت گار
  • اک مودی ہوتا تھا
  • چینی قوم کی عظیم نشاۃ ثانیہ کے  خواب کو حقیقت میں تبدیل کریں گے ، چینی صدر