اسلام ٹائمز: بھلا کوئی اندازہ کرے، اُس شخص کی مشکلات کا کہ جو دِل و جان سے محنت کرتا ہے، لیکن اسکی محنت کا کوئی حقیقی بدلہ اُسے نہیں ملتا۔ جو اپنی ساری جسمانی قوت و توانائی اپنی مزدوری میں صرف کر دیتا ہے، لیکن وہ سکون سے نہیں جیتا۔ اسکی روزانہ کی جدوجہد اُسکی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتی۔ وہ زمین سے رزق کماتا ہے، لیکن اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بھی اسے زندگی کے ہر پہلو میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ہمارے عہد کا یہ نوحہ ہے کہ یہاں سچائی اور ایمانداری سے محنت کرنیوالا کبھی اپنے پیٹ کی آگ کو پوری طرح نہیں بجھا پاتا، وہ ایک عظیم انسان ضرور ہوتا ہے، لیکن خوشحال انسان نہیں بن پاتا۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے دین، تہذیب اور سماج میں محنت کرنیوالا ایک عظیم شخص تو ہے، لیکن وہ خوشحال کیوں نہیں ہوتا۔؟ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
مزدور صرف وہ شخص نہیں، جو بھٹوں پر اینٹیں اٹھاتا ہے، فیکٹریوں میں مشینوں کے شور میں اپنی سانسیں گنواتا ہے، یا پھر نمک کی کانوں میں دب کر مر جاتا ہے بلکہ ہر وہ شخص مزدور ہے، جو اس ملک میں دن بھر محنت کرتا ہے اور رات کو اس امید کے سائے میں سوتا ہے کہ شاید کل کچھ بدلے گا، لیکن اگلی صبح پھر اُس کیلئے کچھ نہیں بدلتا۔ وہ صرف پانی، گیس اور بجلی کے بِل ادا کرنے کیلئے پیدا ہوتا ہے اور اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلوائے بغیر ہی مر جاتا ہے۔ جس روز وہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر قہوہ پی لے، وہ دِن اس کیلئے عید کا دن ہوتا ہے۔ وہ کبھی چھٹی نہیں کرسکتا، چونکہ چھٹی کرے گا تو کھائے گا کہاں سے۔؟ مزدور یہ سمجھتا ہے کہ دنیا کی تاریخ محض بادشاہوں، طاقتوروں، اشرافیہ اور زورآوروں نے مرتب کی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ تہذیب و تمدّن کی تاریخ صرف جنگوں اور معاہدوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ وہ مزدور کے خون پسینے کا شہکار ہے۔
یہ مزدور ہی ہیں کہ جنہوں نے تہذیبوں کو اٹھایا، سلطنتوں کو سجایا، مگر تاریخ نے ان کے نام صفحۂ حیات پر رقم نہ کیے۔ یومِ مزدور دراصل انہی مزدوروں کے اُسی انمٹ کردار کی بازگشت ہے، جسے طاقِ نسیاں میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ انصاف تب قائم ہوتا ہے، جب برابر کو برابر سمجھا جائے، لیکن ہمارے ہاں مزدور نہ برابر ہے اور نہ اُسے اپنے برابر سمجھا جاتا ہے، وہ ہر روز صرف ایک ٹشو پیپر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی صنعتی انقلاب کے دوران جب کارخانوں نے زمین پر خطرناک دھواں اور آسمان پر زہریلا سایہ پھیلایا تو انسان بھی ایک مشین کا پرزہ بن کر رہ گیا۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیّہ ہے کہ اُس وقت انسان کی قیمت ایک مشین جتنی بھی نہیں بلکہ کسی مشین کے ایک پُرزے جتنی طے کر دی گئی تھی۔ 1886ء کا شکاگو ہمیں اسی المیّے کی یاد دلاتا ہے۔ تاریخ کے اس موڑ پر انسان اتنا بے بس ہوگیا تھا کہ مزدوروں نے صرف آٹھ گھنٹے کے کام کا مطالبہ کیا اور ریاست نے گولیوں سے اُن کا سینہ چیر دیا۔
یہ دن اُن دِنوں میں سے ایک ہے کہ جب ریاست یہ بھول گئی تھی کہ وہ ایک ماں ہے۔ اُس کے بعد جو احتجاج ہوا، وہ محض ایک احتجاج نہیں تھا بلکہ یہ ایک عہدِ نو کا آغاز تھا۔ اس عہدِ نو میں مقتدر اشرافیہ نے یہ تسلیم کیا کہ مزدور کو ہر حال میں اس کی محنت کا مکمل صلہ ملنا چاہیئے اور اُس کا صلہ فقط دو وقت کی روٹی و روزی تک محدود نہیں بلکہ یہ صلہ معیاری اجرت، عزّت، سہولت اور مساوات کی صورت میں مزدور کا انسانی حق ہے۔ اگرچہ آج تک دنیا بھر میں مزدور کا حال اُس مٹی کی مانند ہے، جو کھیت کو سبزہ دیتی ہے، مگر خود خشک رہتی ہے۔ مزدور بیمار ہو تو دوا نایاب، وہ زخمی ہو تو معاوضہ ندارد اور اگر اُس کے آنگن میں بچہ پیدا ہو تو تعلیم کے دروازے بند۔ دوسری طرف اشرافیہ کے بچوں کے لیے اوکسفورڈ اور ہاورڈ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ آج مزدور صرف معاشی غلام نہیں بلکہ علمی اور فکری غلامی میں بھی گرفتار ہے۔
اُس کے بچوں کو سوچنے، سوال کرنے اور شعور حاصل کرنے سے پہلے ہی افلاس کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ مزدور کو غربت کی صلیب سے اُتارنا تبھی ممکن ہے کہ جب اُسے اُس کا جائز مقام دیا جائے اور یہ تبھی ہوسکتا ہے کہ جب تعلیم، انصاف، صحت اور ترقی کو خاندانی وراثت نہیں، انسانی حق سمجھا جائے۔ وہ مزدور جو آج کے دور میں معاشی غلام بن چکا ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہم میں سے ہر وہ شخص ہے، جس کی محنت کبھی اس کا پیٹ نہیں بھرتی، جس کے ہاتھوں کی سختی اور جسم کی تھکاوٹ کا بدلہ اُسے معیاری زندگی کی صورت میں نہیں ملتا۔ وہ اپنی روزمرہ کی جدوجہد میں دن رات ایک کرتا ہے، مگر اُسے اُجرت شکریے کے بجائے یوں دی جاتی ہے کہ جیسے اُس پر کوئی احسان کیا جا رہا ہو۔ وہ مسلسل دوڑتا ہے، کولہو کے بیل کی مانند، لیکن پھر بھی اس کے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں اور اس کی زندگی میں خوشحالی کا تصور محض ایک خواب ہوتا ہے۔
بھلا کوئی اندازہ کرے، اُس شخص کی مشکلات کا کہ جو دِل و جان سے محنت کرتا ہے، لیکن اس کی محنت کا کوئی حقیقی بدلہ اُسے نہیں ملتا۔ جو اپنی ساری جسمانی قوت و توانائی اپنی مزدوری میں صرف کر دیتا ہے، لیکن وہ سکون سے نہیں جیتا۔ اس کی روزانہ کی جدوجہد اُس کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتی۔ وہ زمین سے رزق کماتا ہے، لیکن اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی اسے زندگی کے ہر پہلو میں قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ ہمارے عہد کا یہ نوحہ ہے کہ یہاں سچائی اور ایمانداری سے محنت کرنے والا کبھی اپنے پیٹ کی آگ کو پوری طرح نہیں بجھا پاتا، وہ ایک عظیم انسان ضرور ہوتا ہے، لیکن خوشحال انسان نہیں بن پاتا۔ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارے دین، تہذیب اور سماج میں محنت کرنے والا ایک عظیم شخص تو ہے، لیکن وہ خوشحال کیوں نہیں ہوتا۔؟
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ ایک عظیم کرتا ہے سے نہیں لیکن وہ ہوتا ہے جاتا ہے کی محنت بھی اس
پڑھیں:
کیمو تھراپی کے بغیر علاج، مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری
پنجاب میں کینسر کے مریضوں کے لئے ایک بڑی امید کی کرن روشن ہو گئی ۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور کے میو اسپتال میں پاکستان کے پہلے جدید “کوآبلیشن کینسر ٹریٹمنٹ سینٹر” کا افتتاح کر دیا ہے، جہاں کیمو یا ریڈیو تھراپی جیسے تکلیف دہ طریقوں کے بغیر کینسر کا علاج ممکن ہو سکے گا — اور وہ بھی مفت۔
کیمو تھراپی کے بغیر علاج، مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری
نجی ٹی وی کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا پہلا سینٹر ہے جہاں جدید ترین کوآبلیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے کینسر کا علاج کیا جا رہا ہے۔ اس طریقے سے علاج کا عمل صرف 1 سے 2 گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے اور مریض کو لمبے اور تکلیف دہ سیشنز سے گزرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
چین سے درآمد شدہ مشین — خطے میں صرف پاکستان کے پاس
مریم نواز نے بتایا کہ یہ جدید مشین چین سے درآمد کی گئی ہے، اور چین کے سوا پورے خطے میں کہیں یہ ٹیکنالوجی موجود نہیں۔ انہوں نے چین کے دورے کے دوران اس مشین کو خود دیکھا، ٹیکنالوجی کا جائزہ لیا، اور فوراً پاکستان لانے کی ہدایت کی۔ مشین کے استعمال کے لیے ڈاکٹر شہزاد کو چین بھیجا گیا، جہاں انہوں نے مکمل تربیت حاصل کی۔
ابتدائی کامیابی: 5 مریض مکمل صحتیاب
وزیراعلیٰ کے مطابق، میو اسپتال میں ایک مشین نصب ہو چکی ہے اور اس کے ذریعے پانچ کینسر کے مریضوں کا کامیاب علاج کیا جا چکا ہے، جو اب صحتیاب ہیں۔ جنوبی پنجاب اور راولپنڈی کے لیے مزید مشینیں آرڈر کی جا رہی ہیں، جبکہ نواز شریف کینسر اسپتال کے لیے بھی تین مشینیں منگوائی جا رہی ہیں۔
مفت علاج، سب کے لیے دستیاب
مریم نواز نے کہا کہ یہ مشین 25 کروڑ روپے مالیت کی ہے، جبکہ اس میں استعمال ہونے والا “پروب” 5500 ڈالر کا آتا ہے۔ حکومت پنجاب نے اس منصوبے کے لیے 5 ارب روپے کا بجٹ مختص کر دیا ہے۔ جو مریض اس علاج کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے، ان کے لیے علاج مکمل طور پر مفت ہوگا۔
ذاتی درد، عوامی خدمت
تقریب کے دوران مریم نواز نے جذباتی انداز میں کہا کہ معلوم ہے کینسر کیا ہوتا ہے۔ جب میری والدہ کو کینسر ہوا تو وہ تکلیف میں دنیا سے چلی گئیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے وہ درد دیکھا ہے۔ اکثر مریض خود کینسر سے نہیں، بلکہ کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی کے اثرات سے مر جاتے ہیں۔”
انہوں نے مزید اعلان کیا کہ اب حکومت کڈنی ٹیومرز کے لیے بھی اسی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال آزمانے جا رہی ہے۔
ایک نئی امید، ایک نیا آغاز
پنجاب میں کوآبلیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے کینسر کے علاج کا آغاز صرف ایک طبی کامیابی نہیں، بلکہ مریضوں اور ان کے خاندانوں کے لیے ایک نئی امید ہے۔ یہ اقدام نہ صرف صحت کے شعبے میں انقلابی قدم ہے بلکہ مریضوں کی زندگیوں میں حقیقی فرق لانے کی کوشش بھی ہے۔