Express News:
2025-09-18@23:30:19 GMT

درآمدات اور اس کا متبادل اب ضروری ہے

اشاعت کی تاریخ: 31st, July 2025 GMT

مالی سال 2024-25 کی تجارت خارجہ کی تفصیلی رپورٹ منظر عام پر آئی تو معلوم ہوا کہ ایک بار پھر وہی پرانا قصہ دہرا دیا گیا ہے۔ باہر سے خریداری زیادہ اور کمائی کم۔ 32 ارب ڈالر برآمد کے مقابلے میں مالی سال 2024-25 کی کل درآمدی مالیت 58 ارب 38 کروڑ 59 لاکھ ڈالرز کی رہیں جب کہ اس سے بھی گزشتہ مالی سال 2023-24 کی درآمدات 54 ارب 77 کروڑ 91 لاکھ ڈالر کے باعث 6.

58 فی صد کا اضافہ ہوا۔ اس کے کئی الم ناک پہلو ہیں۔

80 برس ہونے کو آئے ہیں، بہت سی درآمدات کا متبادل تیار کر سکتے تھے لیکن اس طرف توجہ کم اور درآمد پر توجہ زیادہ رہی۔ ہماری زمین زرخیز ہے، کسان محنتی ہیں لیکن پھر بھی ہم نے فوڈ گروپ کی درآمدات پر 8 ارب 15 کروڑ ڈالرز خرچ کر دیے۔ بے شک پام آئل درآمد کریں، چائے درآمد کریں، دالیں درآمد کریں اور اب جلد ہی چینی بھی درآمد کریں گے اور گزشتہ مالی سال ایک ارب ڈالرز سے زائد کی کپاس بھی درآمد کر لی۔

 اس کے علاوہ ہم دودھ سے بنی بچوں کی غذائی اشیا اورکئی اشیائے خوراک درآمد کرتے ہیں۔ اس طرح تو معلوم ہوا کہ پاکستان کی معیشت کی کہانی ایک ایسے گھر کی ہے جہاں وہ ہر چیز باہر کی خریدنا پسند کرتا ہے اور ہر ماہ اس کا بجٹ اتھل پتھل ہو جاتا ہے اور پھر قرض دار بن جاتا ہے۔

ہم نے 9 ارب ڈالرز کے مشینری آئٹمز خریدے، شاید یہ سوچا ہو کہ اس کا نصف ہی اپنے ملک میں چھوٹی بڑی مشینری تیار کر لیتے۔4 یا 5 ارب ڈالر بچ جاتے تو کیا برا تھا؟ ٹرانسپورٹ گروپ کے کیا کہنے، ہم اپنی کاریں نہیں خریدتے، اگرچہ وہ اسمبل ہی ہوتی ہیں، 2 ارب 44 کروڑ ڈالرز اس گروپ پر نچھاورکر چکے، نتیجے میں کروڑوں روپے کی مہنگی ٹرانسپورٹ سڑکوں پر رواں دواں ہیں۔

کبھی سوچا پاکستان جیسا غریب ملک آخر کروڑوں کی گاڑیاں کیوں درآمد کرے، کون ہیں ان کے خریدار۔ پاکستان میں کاروبار کر رہے ہیں تو کتنا ٹیکس ادا کیا؟ ان درآمدات کو اکثر و بیشتر ان ہی صنعتی امیر ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے جو بہت بڑے انسانی حقوق کے علم بردار بھی کہلاتے ہیں، لیکن ’’غزہ‘‘ میں ہونے والے ظلم کے خلاف خاموش ہیں یا پھر غزہ جنگ رکوانے کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش ہوتی ہے، تو وہاں اسرائیل کے حمایتی بن جاتے ہیں۔

ہم درآمدات کا متبادل کب تیار کریں گے۔ ہم کبھی 98 کروڑ ڈالرز کی گندم منگوا لیتے ہیں، کبھی 5 لاکھ ٹن چینی شاید درآمد کرنا پڑ جائے کیوں کہ جس طرح سے مافیاز نے مارکیٹ سے چینی ہی غائب کردی ہے، دالیں، تیل، دوائیں اور ٹائروں سے لے کر ادرک، لہسن، ٹماٹر تک باہر سے درآمد کر رہے ہوتے ہیں۔ 2023-24 کے مقابلے میں درآمدات میں اضافہ ہوا اور ہر شے کی درآمد تقریباً بڑھیں۔ پاکستان لاکھوں میٹرک ٹن چاول، اربوں ڈالر کے سستے ٹیکسٹائل مصنوعات اور دیگر اشیا سستے داموں فروخت کرتا ہے اور گھٹتے ہوئے برآمدی بل کو ہر سال قبول کر لیتا ہے۔

ہم صنعتی ملک بننے کا خواب بھی دیکھتے ہیں اور کارخانہ دار فیکٹریوں کو تالا لگا کر دبئی بھی چلے جاتے ہیں۔ وہاں کاروبار کرتے ہیں اور یہاں بے روزگاری آ جاتی ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ 80برس ہونے کو ہیں اور ابھی تک محنتی کسان، زرخیز زمین، بہترین نہری نظام، تجربہ کار زرعی ماہرین کے ہوتے ہوئے بھی پاکستان زرعی خودکفالت حاصل نہ کرسکا۔کبھی گندم کم پیدا ہوتی ہے تو درآمد کرتے ہیں، کبھی کپاس کم پیدا ہو تو پھر درآمد کر لیتے ہیں، دالیں کم پیدا ہوتی رہتی ہیں اور درآمد بڑھتی رہتی ہے۔ دودھ پیدا کرنے والا پانچواں بڑا ملک ہے پھر بھی دودھ سے بنی بچوں کی غذائی اشیا درآمد کر رہے ہیں۔ پاکستان عالمی تجارت کا حصہ ہے لیکن ارد گرد کے ممالک کے مقابلے میں ہمارا شیئر ایک فی صد سے کہیں کم ہے۔

ہم بتدریج درآمدی ملک بنتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ رائے دینے والے مشورہ دینے والے بجٹ سیٹ کرنے والے، درآمدات کی صلاح دینے والے، روپے کی قدر کو کم کرنے کی تجویز دینے والے سب کے سب ہی درآمدی ہیں، بیرون ملک کے ہیں ، غیر ملکی ہیں، ہزاروں کارخانوں کو تالے لگے ہیں، تین شفٹوں والے در پر آگئے۔ دو شفٹوں میں فیکٹریاں چلتی تھیں اب ایک شفٹ پر گزارا ہو رہا ہے۔ یہ صنعتی بحالی ہے یا صنعتی بدحالی ہے۔ پھر مزدور تو بے روزگار ہوتے چلے جائیں گے۔ حکومت درآمدات کا متبادل تیار کرنے کی راہ پر چلے۔ ابھی دو ہی سال گزرے ہوں گے جب درآمدی بل 80 ارب ڈالر تک جا پہنچا تھا۔ پھر سے درآمدی بل میں اضافہ شروع ہوگیا ہے۔ اسی راستے پر مسلسل چلتے رہے تو وہ سال دور نہیں جب درآمدی بل 80 ارب ڈالر سے بڑھ کر 100 ارب ڈالر بھی ہو جائے گا۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہماری برآمدات کی کم قیمت لگتی ہے تو بنگلہ دیش، ویتنام، تھائی لینڈ کے راستے پر چلیں، جہاں ویلیو ایڈڈ پر زیادہ توجہ ہے۔ بیرونی دنیا کی کیا طلب ہے اور ہم کیا پیش کر رہے ہیں۔ اس کے لیے ایک ٹریڈ اتاشی، حتیٰ کہ ایک سفیر بھی شافی جواب نہیں دے سکتا۔ سوچیے ایک موٹی عینک لگائے ہوئے کارخانہ دار جب بیرون ملک کسی بازار سے گزر رہا ہوتا ہے تو کہیں رکتا ہے، کہیں غور کرتا ہے، کہیں سر کھجاتا ہے تو اس کی چھٹی حس اسے بتلا دیتی ہے کہ اس مارکیٹ کو کیا چاہیے، وہ پاکستان آ کر وہی مال تیار کرے گا جس کی ڈیمانڈ ہے اور یوں اس مارکیٹ پر قبضہ کر لے گا اسے کہتے ہیں مارکیٹنگ۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا متبادل دینے والے ارب ڈالر مالی سال تیار کر ہیں اور رہے ہیں کر رہے ہے اور

پڑھیں:

3 سال میں، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء)ملک میں ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت اور بے روزگاری ہے تو دوسرا کاروبار شروع کرنے میں بھی طرح طرح کی مشکلات ہیں۔انہی حالات سے تنگ آئے 28 لاکھ 94 ہزار 645 پاکستانی گزشتہ تین سالوں کے دوران اپنے قریبی افراد کو چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے ہیں۔بیرون ملک جانے والوں میں خواتین کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر، انجینیئر، ائی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاؤنٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر کے ساتھ ساتھ پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ملک چھوڑ گئے ہیں۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرانٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق یہ 15ستمبر تک کا ڈیٹا ہے۔بیرون ملک جانے والے یہ افراد پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی بھاری رقم حکومت پاکستان کو ادا کرکے گئے۔

پروٹیکٹر اینڈ امیگرانٹس آفس آئے طلبہ، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاؤنٹنٹ، آرکیٹیکچر اور خواتین سے بات چیت کی گئی تو انہوں نے کہا یہاں پہ جتنی مہنگائی ہے اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی۔یہاں مراعات بھی نہیں ملتی ہیں۔ باہر کا رخ کرنے والے طالب علموں نے کہا یہاں پہ کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیسیں بہت زیادہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ؛ زوردار دھماکے میں 4 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 3 زخمی
  • سن کریم کا ضروری ادویات کی فہرست میں دوبارہ شمولیت کا خیرمقدم
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • سیاست کو کھیلوں سے الگ رکھنا ضروری ہے، محمد فیصل
  • 3 سال میں، 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی بیرون ملک چلے گئے
  • وزیراعلیٰ سندھ کی آٹے کی قیمت پر کڑی نظر رکھنے اور غیر ضروری مہنگائی روکنے کی ہدایت
  • صنفی مساوات سماجی و معاشی ترقی کے لیے انتہائی ضروری، یو این رپورٹ
  • فنگر پرنٹس کے مسئلے سے دوچار معمر افراد کیلئے فیس ریکگنیشن لارہے ہیں: ترجمان نادرا
  • اسلام آباد ریڈ زون کے داخلی راستوں پر ڈائیورشنز، شہری کونسا متبادل راستہ استعمال کرسکتے ہیں؟