امریکہ اور یوکرین کے مابین قدرتی وسائل کے معاہدے پر دستخط
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 مئی 2025ء) اس معاہدے کا مقصد یوکرین کے دفاع اور تعمیر نو میں سرمایہ کاری جاری رکھنے کے لیے امریکہ کو اقتصادی ترغیب فراہم کرنا ہے۔ نیز اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے دی گئی امداد کی رقم سے متعلق واشنگٹن کے خدشات کو بھی دور کرنا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یوکرین کے پاس گریفائٹ، ٹائٹینیم اور لیتھیم جیسی اہم معدنیات کے وسیع قدرتی ذخائر ہیں۔
قابل تجدید توانائی، فوجی ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے میں ان کے استعمال کی وجہ سے ان معدنیات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔نایاب دھاتیں: امریکہ اور یوکرین معاہدہ کرنے کے قریب
امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں فریق یوکرین میں دیرپا امن اور خوشحالی کے لیے پرعزم ہیں۔
(جاری ہے)
اس اہم معاہدے کی تفصیلات ابھی جاری نہیں کی گئیں، لیکن اس معاہدے نے واشنگٹن کو یوکرین کے انتہائی اہم قدرتی وسائل تک رسائی دے دی ہے۔
تاہم، یوکرین کی وزیر اقتصادیات یولیا سویریڈینکو نے کہا ہے کہ یوکرین اپنے معدنی وسائل کی مکمل ملکیت برقرار رکھے گا۔چینی امریکی تجارتی جنگ میں نایاب زمینی دھاتیں کلیدی ’ہتھیار‘
دریں اثنا صدر ٹرمپ نے بدھ کی شام نیوز نیشن پروگرام میں کہا کہ اس معاہدے کا ''نظریاتی طور پر‘‘ مطلب ہے کہ امریکہ یوکرین سے اس سے زیادہ حاصل کرے گا جتنا اس نے دیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا، ''میں سکیورٹی حاصل کرنا چاہتا تھا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ یوکرین کو دی گئی امریکی امدادی رقم واپس نہ لے کر ''بے وقوف‘‘ دکھائی نہیں دینا چاہتے تھے۔
’یوکرین اپنے علاقے میں وسائل پر کنٹرول برقرار رکھے گا‘سویریڈینکو، جنہوں نے واشنگٹن میں اس معاہدے پر دستخط کیے، نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت فنڈ کا انتظام دونوں ممالک مشترکہ طور پر کریں گے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا، ''یہ یوکرین کی ریاست ہے، جو طے کرے گی ہے کہ کیا اور کہاں سے (معدنیات) نکالنا ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ''کوئی بھی فریق یک طرفہ فیصلہ نہیں کرے گا - یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان ہماری مساوی شراکت کا عکاس ہے۔‘‘
معاہدہ روس کے ساتھ 'امن عمل‘ کے عزم کا مظہر، امریکہدریں اثنا امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ 2023 میں روس کے یوکرین پر مکمل حملے کے بعد، امریکہ اس جنگ کے خاتمے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا، ''یہ معاہدہ روس کو واضح طور پر اشارہ دیتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ طویل مدت کے لیے ایک آزاد، خود مختار اور خوشحال یوکرین پر مرکوز امن عمل کے لیے پرعزم ہے۔‘‘
امریکی محکمہ خزانہ نے اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ اقتصادی شراکت داری دونوں ممالک کو ''باہمی تعاون کے ساتھ کام کرنے اور مل کر سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دے گی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہمارے باہمی اثاثے، ہنر اور صلاحیتیں یوکرین کی اقتصادی بحالی کو تیز کر سکیں۔
‘‘ ’یوکرین کے لیے امریکی حمایت کا معاوضہ‘جنوری 2025 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر بننے کے بعد انہوں نے یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا تھا، لیکن انہوں نے یہ شکایت بھی کی تھی کہ کییف اسے ملنے والی امریکی فوجی اور مالی مدد کے بدلے خاطر خواہ معاوضہ فراہم نہیں کر رہا تھا اور تب انہوں نے اس بات پر بھی اصرار کیا تھا کہ واشنگٹن کو اس کے بدلے میں مزید رقم ملنا چاہیے۔
بیسنٹ نے کہا، ''صدر ٹرمپ نے امریکی اور یوکرینی عوام کے درمیان اس شراکت داری کا تصور کیا تاکہ یوکرین میں دیرپا امن اور خوشحالی کے لیے دونوں فریقوں کے عزم کو ظاہر کیا جا سکے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''واضح رہے کہ کسی بھی ریاست یا شخص کو جس نے روسی جنگی مشینری کی مالی اعانت کی ہو، یوکرین کی تعمیر نو سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘
اس امریکی یوکرینی معاہدے کے نافذ العمل ہونے سے پہلے یوکرین کی پارلیمنٹ کو اس کی لازمی توثیق کرنا ہو گی۔
ادارت: مقبول ملک
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یوکرین کے اس معاہدے یوکرین کی کہ یوکرین انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
غزہ میں کسی معاہدے کا امکان نہیں، کارروائی میں توسیع کریں گے: اسرائیل نے امریکہ کو بتا دیا
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے حماس کو نئی دھمکیاں دی ہیں۔ کاٹز نے کہا ہے کہ اگر حماس نے اسرائیل کی شرائط نہ مانیں تو غزہ میں مزید شدت اختیار کرنے والے حملے کیے جائیں گے۔ اسرائیل اپنی دھمکی پر عمل کرے گا۔
غزہ میں کسی معاہدے کا کوئی امکان نہیں
اسرائیلی نشریاتی ادارے نے بتایا ہے کہ تل ابیب نے واشنگٹن کو باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا ہے کہ وہ تمام مذمتوں کے باوجود غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی کارروائی کو مزید گہرا کرنے جا رہا ہے۔ ادارے نے مزید بتایا کہ تل ابیب نے واشنگٹن کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ غزہ میں کسی معاہدے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے جب وزیر رون ڈیرمر کا لندن میں وائٹ ہاؤس کے ایلچی سٹیو وٹکوف سے ملاقات کا شیڈول ہے تاکہ تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کی بحالی کے امکان پر بات کی جا سکے۔
قطری اعلیٰ حکام بھی لندن میں موجود ہیں اور ایلچی کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔ ایک باخبر ذریعہ نے یہ بھی بتایا ہے کہ امریکی اس وقت اسرائیل اور قطر کے درمیان ثالثی کر رہے ہیں تاکہ اس بحران کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے جو دوحہ میں حماس کے اعلیٰ حکام کے خلاف اسرائیلی حملے کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور دوحہ کو اسرائیل اور حماس کے درمیان ثالثی کے کردار میں واپس لایا جا سکے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ امریکی اسرائیل پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کشیدگی کم کرنے اور قطر کے ساتھ بحران کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب میدان میں بھی کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ کاٹز نے خبردار کیا ہے کہ اگر حماس نے یرغمالیوں کو رہا نہ کیا اور اپنے ہتھیار نہ ڈالے تو غزہ کو تباہ کر دیا جائے گا اور غزہ حماس کو ختم کرنے والوں کے لیے ایک یادگار بن جائے گا۔ اسرائیلی فوج نے حماس پر زمینی کارروائیاں اور سیاسی و فوجی دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر غزہ میں ایک فوری انسانی بحران کے بارے میں وارننگ دی جا رہی ہے۔
یہ بھی اعلان کیا گیا کہ غزہ کے شہریوں کے شہر سے نکلنے کے لیے ایک “عارضی منتقلی کا راستہ” قائم کیا گیا ہے۔ یہ اعلان اس کے بعد ہوا جب فوج نے حماس کے ساتھ تقریباً دو سال کی جنگ کے بعد پٹی کے سب سے بڑے شہر پر زمینی حملے اور بمباری میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران صہیونی فوج نے پٹی کے شمال میں واقع غزہ سٹی کے رہائشیوں کو شدید انتباہات دیے ہیں کہ وہ شہر چھوڑ کر پٹی کے جنوب میں قائم کردہ ایک “انسانی علاقے” میں منتقل ہو جائیں کیونکہ وہ شہر پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔
فوج نے منگل کو بھی کہا تھا کہ اس نے اس شہر میں اپنی زمینی کارروائیوں کو وسیع کرنا شروع کر دیا ہے اور غزہ میں مسلسل اور شدید بمباری ہو رہی ہے۔ بدھ کو اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے پیر کی رات سے 150 سے زیادہ اہداف پر بمباری کی ہے۔
فلسطینیوں کی نسل کشی
اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ ایک آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسرائیل تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اگست کے آخر میں غزہ شہر اور اس کے آس پاس رہنے والے افراد کی تعداد تقریباً دس لاکھ بتائی تھی۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے بتایا ہے کہ حالیہ دنوں میں شہر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ لوگ پیدل، کاروں، گاڑیوں اور زرعی ٹریکٹروں کا استعمال کرتے ہوئے شہر کو چھوڑ رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے بدھ کو اندازہ لگایا ہے کہ غزہ سٹی چھوڑنے پر مجبور ہونے والوں کی تعداد 350,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسی دوران بہت سے فلسطینی وہیں رہنے پر مصر ہیں اور اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ان کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔
Post Views: 5