سیکرٹری جنرل پاکستان عوامی تحریک کا یوم مئی کے موقع پر کہنا ہے کہ افرادی قوت کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، اسلام میں محنت کش کو اللہ کا دوست قرار دیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے یکم مئی یوم مزدور کے حوالے سے اپنے پیغام میں محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مزدور طبقہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ترقی یافتہ قومیں ہمیشہ اپنے مزدوروں کو عزت، تحفظ اور برابری کے حقوق دیتی ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کم از کم اجرت میں اضافہ کیا جائے، مزدوروں کو سوشل سکیورٹی، علاج اور تعلیم کی سہولتیں مہیا کی جائیں تاکہ وہ باوقار زندگی گزار سکیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی کا انحصار اُس کی محنت کش افرادی قوت پر ہوتا ہے، محنت کش جس قدر آسودہ حال ہوں گے وہ ملک اور معاشرے اُتنے ہی ترقی کے راستے پر گامزن ہوں گے، اسلام نے کمزور طبقات کیلئے بطور خاص حقوق کا چارٹر دیا ان میں مزدور سرفہرست ہیں۔

خرم نواز گنڈا پور نے کہا کہ اسلام میں محنت کش کو اللہ کا دوست قرار دیا گیا ہے اور ہاتھ سے کام کرنیوالوں کو بہترین انسان پکارا گیا ہے اور اُن کے مال کو بہترین مال سے تشبیہ دی گئی۔ مزدوروں کیساتھ حسن سلوک اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم بھی ہے اور احترام انسانیت کا مظہر بھی۔ انہوں نے کہا کہ فی زمانہ مزدور کی تعریف بدل گئی ہے، ہر کم آمدنی والا شخص مزدور ہے، ریاستیں مہنگائی اور ضروریات کے مطابق مراعات نہیں دے سکتیں تاہم مزدور کی مدد اور اُس سے شفقت کا ایک بہترین طریقہ اُس کے بچوں کو معیاری تعلیم دینا، اُسے علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کرنا، اُسے مصنوعی مہنگائی سے بچانا، اُسے جان، مال اور روزگار کا تحفظ دینا ہے۔ اسلام نے مزدوروں کیساتھ حُسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پیغمبر حق حضور نبی اکرم ﷺ ہمیشہ مزدوروں کے طرفدار اور پاسدار رہے ہیں، مزدوروں کے ساتھ آپ ﷺ کا برتائو ہمیشہ عدل و انصاف اور شفقت و رحمت پر مبنی رہا ہے۔ جب آپ ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی اپنے خدمت گاروں کیلئے پسند کرو اور پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ادا کر دیا کرو، یہ حکم درحقیقت حرمت انسانیت کا اظہار ہے۔

عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ جب آجر اور اجیر کے درمیان تعلق اور معاملات عدل و انصاف پر مبنی ہوں گے تو وہاں خیر و برکات کا دور دورہ ہو گا اور ایسے اداروں کو بے مثل بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 21ویں صدی ٹیکنالوجی کے فروغ اور انقلاب کی صدی ہے، صنعت، زراعت سمیت ہر شعبہ سے وابستہ افرادی قوت کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرکے اُس کی آمدن میں اضافہ اور اُس کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، ریاستی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی افرادی قوت کو ٹرینڈ کیا جائے۔ ہنرمند افرادی قوت پاکستان کیساتھ ساتھ بیرونی دنیا کی بھی ضرورت ہے۔ مزدور جتنا مستحکم اور خوشحال ہوگا معیشت اتنی ہی مستحکم اور مضبوط ہوگی۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہاتھ سے کمایا ہوا مال بہترین مال ہے اور مزدوروں کا استحصال کرکے جمع کئے گئے وسائل بدترین ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا افرادی قوت نے کہا کہ ہے اور

پڑھیں:

معیشت کا استحکام، مربوط حکمت عملی کی ضرورت

کسی بھی ملک کی معیشت کے استحکام میں اس کی ایمانداری، خود انحصاری اور مربوط حکمت عملی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ بصورت دیگر ملک قرضوں اور بیرونی امداد پر انحصارکرنے لگتا ہے، جس کے کئی مضر اثرات ملکی معیشت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

پاکستان آئی ایم ایف کے قرضوں میں جکڑا ہوا ملک ہے۔ آئی ایم ایف خود کو ایک غیر جانبدار ادارہ قرار دیتا ہے، لیکن کئی معاشی ماہرین اور نقاد اسے مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکا کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ادارہ سمجھتے ہیں۔

اس کی پالیسیوں کا جھکاؤ اکثر سرمایہ دارانہ نظام کی طرف ہوتا ہے، اور اس کی شرائط اکثر ترقی پذیر ممالک کی سماجی فلاحی اسکیموں کو متاثرکرتی ہیں۔ چنانچہ یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا آئی ایم ایف واقعی غیر جانبدار ہے یا وہ عالمی طاقتوں کے معاشی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کا کردار ایک پیچیدہ اور متنازعہ موضوع رہا ہے۔ ہم نے کئی بار آئی ایم ایف سے قرض لیا ہے اور ہر بار ان قرضوں کے ساتھ سخت معاشی شرائط بھی عائد کی گئی ہیں۔ اِن پالیسیوں کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی دیکھی گئی ہے۔

بظاہر تو ان اقدامات کا مقصد معیشت کو مستحکم کرنا ہے، لیکن عام شہری کے لیے ان کے نتائج پریشان کن ہوتے ہیں۔ غربت میں اضافہ اور روزگارکے مواقع میں کمی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو چاہیے کہ وہ صرف اعداد و شمار پر نہیں بلکہ انسانی پہلوؤں پر بھی توجہ دے۔

اس کی پالیسیوں میں معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ سماجی تحفظ کی ضمانت بھی ہونی چاہیے۔ قرض کی شرائط میں لچک اور مقامی ضروریات کو سمجھنے کا جذبہ شامل ہونا چاہیے تاکہ عوام پر براہ راست بوجھ نہ پڑے۔

پاکستان کی معیشت گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ایسی راہ پر گامزن ہے، جہاں بیرونی قرضے قومی بجٹ کا مستقل حصہ بن چکے ہیں۔ یہ قرضے زیادہ تر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے لیے جاتے ہیں، جن میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور سب سے اہم، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) شامل ہیں۔

ہر سال حکومت پاکستان کو اپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے، درآمدات کی ادائیگی، زرمبادلہ کے ذخائرکو سنبھالنے اور پرانے قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف معیشت پر بوجھ بنتا جا رہا ہے، بلکہ قومی خودمختاری کے لیے بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

قرض لینے کی ایک بڑی وجہ ملک کی غیر متوازن درآمد و برآمد کی پالیسی ہے۔ ہم زیادہ تر اپنی ضروریات کے لیے بیرونی اشیاء پر انحصارکرتے ہیں، جن میں مشینری، پٹرولیم مصنوعات، اور دیگر صنعتی خام مال شامل ہیں، جب کہ برآمدات محدود پیمانے پر ہوتی ہیں۔

ٹیکس نظام کا غیر مؤثر ہونا، سرکاری اداروں میں کرپشن، توانائی کے بحران اور پالیسیوں میں تسلسل کی کمی وہ مسائل ہیں جو قرض لینے کی مجبوری کو جنم دیتے ہیں۔درآمدات (Imports) اور برآمدات (Exports) میں توازن پیدا کرنا کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے نہایت اہم ہے، کیونکہ اس سے تجارتی خسارہ (Trade Deficit) یا تجارتی فائدہ (Trade Surplus) متعین ہوتا ہے۔

ایک پائیدار معیشت کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات اور برآمدات کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے۔ یہ توازن مختلف پالیسیوں، اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ درآمدات اور برآمدات میں توازن پیدا کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے، جیسے برآمدات کو فروغ دینا، صنعتی پیداوار میں اضافہ، مقامی صنعتوں کو فروغ دے کر برآمدی اشیاء کی پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے۔ برآمدی سبسڈی اور مراعات: حکومت برآمد کنندگان کو سبسڈی، ٹیکس میں چھوٹ اور آسان قرضوں کی سہولت دینی چاہیے۔

نئی منڈیوں کی تلاش: بین الاقوامی سطح پر نئی منڈیاں تلاش کی جائیں جہاں ملکی مصنوعات کو فروغ دیا جا سکے۔ معیار میں بہتری: مصنوعات کے معیار کو عالمی معیار کے مطابق بنا کر ان کی مانگ بڑھائی جا سکتی ہے۔

توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو فروغ دیا جائے تاکہ درآمدی ایندھن پر انحصارکم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی اصلاحات کے ذریعے دیہی معیشت کو مستحکم کرنا ضروری ہے تاکہ ملک اپنی غذائی ضروریات خود پوری کر سکے۔

یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر اوقات قرضوں کا استعمال غیر پیداواری منصوبوں یا انتظامی اخراجات پرکیا جاتا ہے، جس سے نہ تو معیشت میں کوئی پائیدار بہتری آتی ہے اور نہ ہی عوام کو کوئی براہ راست فائدہ پہنچتا ہے۔ دوسری طرف، قرضوں پر سود کی ادائیگی ملکی آمدنی کا ایک بڑا حصہ کھا جاتی ہے، جس سے ترقیاتی کام مزید متاثر ہوتے ہیں۔

صورتِ حال سے نکلنے کے لیے صرف وقتی اقدامات کافی نہیں بلکہ طویل مدت کے لیے ایک جامع، دور اندیش اور خود انحصاری پر مبنی پالیسی درکار ہے۔ سب سے پہلے، برآمدات میں نمایاں اضافہ ضروری ہے۔ اس کے لیے زرعی، صنعتی اور آئی ٹی کے شعبوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

نوجوانوں کو فنی تعلیم اور ڈیجیٹل ہنر سکھا کر عالمی منڈی میں متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا، مالی شفافیت کو یقینی بنانا اور حکومتی فضول خرچی کو کم کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم اس امر کو تسلیم کر لیں کہ بیرونی قرضہ ایک عارضی سہارا ہے، مستقل حل نہیں، تو ہم ایک ایسے راستے کی طرف بڑھ سکتے ہیں جہاں خود انحصاری، شفافیت اور دیانت داری پر مبنی معیشت فروغ پاسکے گی۔

قرض سے نجات دراصل ایک ذہنی و فکری تبدیلی کا نام ہے، جو اس وقت ممکن ہے جب قیادت، ادارے اور عوام مل کر یہ فیصلہ کریں کہ اب ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، نہ کہ دوسروں کے سہارے زندگی گزارنی ہے۔ دس جون کو اس سال کا بجٹ پیش کیا جائے گا۔ اگر اس کی نوعیت گزشتہ سال کی مانند رہی، تو مہنگائی میں اضافہ، ٹیکسوں کا بوجھ اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی جیسے عوامل عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ طویل المدتی معاشی حکمت عملی اختیارکرے تاکہ آئی ایم ایف پر انحصار ختم ہو سکے۔ اس میں ٹیکس نظام کی بہتری، برآمدات میں اضافہ، زرعی اور صنعتی ترقی، مقامی سرمایہ کاری کے فروغ اور بدعنوانی کے خاتمے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان انسانی وسائل کو بہتر بنا سکتا ہے، جو معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔دس جون کو اس سال کا بجٹ پیش کیا گیا، اس کی نوعیت گزشتہ سال کی مانند رہنے سے مہنگائی میں اضافہ، ٹیکسوں کا بوجھ اور ترقیاتی منصوبوں میں کمی جیسے عوامل عوام کی مشکلات کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دے، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے موثر حکمتِ عملی اپنائے اور ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دے تاکہ عوام کو حقیقی ریلیف میسر آسکے۔

متعلقہ مضامین

  • پانی زندگی بچاتا ہے جو اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے،چیئرمین سی ڈی اے
  • جہانگیر خان کی انتھک محنت 20 سال بعد رنگ لے آئی، جدید اسپورٹس کلب کا افتتاح
  • علی امین گنڈاپور ایک بار پھر کارکنوں کو انتشار اور تشدد کی راہ دکھا رہے ہیں،امیرمقام
  • معیشت کا استحکام، مربوط حکمت عملی کی ضرورت
  • مزدور کی کم از کم تنخواہ 40 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کی سفارش
  • مزدور کی کم از کم تنخواہ 40 ہزار مقرر کرنے کی سفارش
  • ایران پر حملہ نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرہ بلکہ عالم اسلام کی وحدت کو نقصان پہنچانے کی سازش ہے، سلیم صدیقی 
  • جب تک حکمران طبقہ اپنے مفادات کی نفی نہیں کرے گا عام عوام کو ریلیف نہیں ملے گا‘مولانا فضل الرحمان
  • کراچی: گڑھے میں گرنے والا محنت کش دم گھٹ کر جاں بحق
  • ملکی معیشت کا حجم تاریخ میں پہلی بار 400 ارب ڈالر کی حدعبور کرگیا‘ وزیر خزانہ