شوہر سے داڑھی پر اختلاف، خاتون دیور کے ساتھ بھاگ گئی
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
بھارتی صوبے اُترپردیش کے ضلع میرٹھ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنے دیور کے ساتھ گھر سے بھاگ گئی۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق میرٹھ کے علاقے انچولی کی رہائشی عرشی نامی خاتون کی شادی شاکر نامی شخص سے 7 ماہ قبل ہوئی تھی، جس کے بارے میں خاتون نے شوہر کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ یہ شادی زبردستی کروائی گئی ہے۔
خاتون نے اپنے شوہر سے داڑھی منڈوانے کا مطالبہ بھی کیا جس پر شوہر نے انکار کردیا اور یہ ان دونوں کے درمیان جھگڑے کی وجہ بن گیا۔
بچوں کی شادی سے چند روز قبل دلہے کا والد اور دلہن کی والدہ بھاگ گئے
شاکر کے مطابق شادی کے فوراً بعد ہی عرشی نے داڑھی منڈوانے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ عرشی نے مجھ سے خاندانی دباؤ میں آکر شادی کی اور ساتھ رہنے کے لیے داڑھی منڈوانے کی شرط رکھ دی جس پر میں راضی نہیں تھا، اس حوالے سے اپنے سسرالیوں کو بھی شکایت کی جو بےسود ثابت ہوئی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شاکر کا کہنا ہے کہ اسی دوران عرشی کا اس کے چھوٹے بھائی کے ساتھ افیئر شروع ہوگیا اور دونوں گھر چھوڑ کر 3 فروری کو فرار ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ بدنامی کے خوف سے ہم نے خود انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے تو عرشی کے اہلِ خانہ کو مطلع کرنے کے بعد پولیس میں شکایت درج کروا دی ہے۔
شاکر کے مطابق عرشی کے اہلِ خانہ نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جبکہ عرشی نے 5 لاکھ روپے کا بھی مطالبہ بھی کر رکھا ہے۔
شاکر کا کہنا ہے کہ دو ماہ کی مسلسل تلاش کے بعد پولیس میں رپورٹ درج کرا دی ہے۔
پولیس کے مطابق تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ خاتون لُدھیانہ میں موجود ہے اور پولیس کی ایک ٹیم اُسے بازیاب کرانے کے لیے روانہ ہو چکی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے مطابق
پڑھیں:
ڈی این اے نے 40 سالہ شادی کا پول کھول دیا: بچے کسی اور کے نکلے
بحرین کے ایک شخص کو اپنی شادی کے چالیس سال بعد علم ہوا کہ جن پانچ بچوں کو وہ اب تک پالتا رہا وہ ان کا حقیقی باپ ہے ہی نہیں۔
بحرین کی ایک ہائی شریعت عدالت نے حیران کن فیصلہ سناتے ہوئے ایک شخص کو پانچ بچوں کے قانونی باپ کی حیثیت سے محروم کردیا ہے، جب ڈی این اے ٹیسٹ سے انکشاف ہوا کہ وہ ان بچوں کا حیاتیاتی (بیالوجیکل) باپ ہی نہیں ہے۔
اس فیصلے کے بعد اب اس شخص کا نام تمام سرکاری دستاویزات سے حذف کر دیا جائے گا جہاں اسے بچوں کا باپ ظاہر کیا گیا تھا۔
یہ کیس اس وقت منظر عام پر آیا جب مدعی جو تقریباً چالیس سال تک اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی رشتے میں رہا اور انہی بچوں کی پرورش کرتا رہا، ایک طبی مسئلے کے باعث یہ انکشاف ہوا کہ وہ قدرتی طور پر اولاد پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں۔ شک گہرا ہونے پر ڈی این اے ٹیسٹ کروایا گیا، اور فرانزک رپورٹ نے واضح طور پر تصدیق کردی کہ بچوں اور شخص کے درمیان کوئی حیاتیاتی تعلق موجود نہیں۔
مدعی کے وکیل ابتسام الصباغ کے مطابق یہ معاملہ صرف قانونی نہیں بلکہ سچائی کی بنیاد پر ہے۔ عدالت نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ جب سائنسی ثبوت کسی بھی تعلق کو ناممکن قرار دے دیں تو اسلامی فقہ کے تحت پدری مفروضہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔
عدالت نے جعفری فقہ کے اصولوں کی بنیاد پر یہ فیصلہ دیا، جس کے مطابق نکاح کی موجودگی، اقرار یا گواہی کی بنیاد پر پدری نسبت تسلیم کی جاسکتی ہے، لیکن یہ اصول بنیادی اسلامی احکام یا ناقابل تردید سائنسی حقائق سے متصادم نہیں ہونے چاہئیں۔
عدالت نے تمام متعلقہ سرکاری اداروں کو حکم دیا ہے کہ بچوں کے ریکارڈ سے اس شخص کا نام حذف کیا جائے اور قانونی دستاویزات کو نئی حقیقت کے مطابق درست کیا جائے۔