ہمیں کوئی خطرہ یا خوف نہیں، یقین ہے بھارت غلطی نہیں کرے گا، رانا ثنا اللہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہمیں کوئی خطرہ یا خوف نہیں، یقین ہے بھارت غلطی نہیں کرے گا، موجودہ صورتحال خطرناک یا پریشان کن نہیں، پاک افواج بہترین اور پروفیشنل ہے، ہم ایٹمی طاقت ہیں، ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے، حملہ ہوا تو پاکستان سے زیادہ نقصان بھارت کا ہوگا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ موجودہ صورتحال خطرناک یا پریشان کن نہیں، ہماری مسلح افواج کی قیادت بہترین اور پروفیشنل ہے، ہم ایٹمی طاقت ہیں، ہمیں گھبرانا نہیں چاہیئے۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ بھارت نے حملہ کیا تو بڑی حماقت ہوگی، حملہ ہوا تو پاکستان سے زیادہ نقصان بھارت کا ہوگا، ہماری قوم بہت دلیر ہے، کبھی کبھی جذبات میں بہہ جاتی ہے، ہمیں کوئی خطرہ یا خوف نہیں ہے، یقین ہے کہ بھارت غلطی نہیں کرے گا، بھارت نے کوئی حماقت کی تو آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلائیں گے۔
وزیراعظم کے مشیر نے مزید کہا کہ وزیراعظم شہبازشریف اپنی قومی ذمہ داری نبھارہے ہیں، نوازشریف موجودہ صورتحال سے مایوس نہیں، اس موقع پر ہمیں قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔
ان کا کہا تھا کہ کالا باغ ڈیم ہوتا تو آج پانی اور بجلی کا بحران نہ ہوتا، کینالز منصوبے پر بھی ہم نے قومی یکجہتی کو اہمیت دی۔
عمران خان کے حوالے سے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان رہا ہونے یام شاورت میں بیٹھنے کو تیار نہیں، ہم پہلے بھی بانی پی ٹی آئی کو ساتھ بیٹھنے کی دعوت دے چکے ہیں۔ ہم پی ڈی ایم دورمیں بھی دعوت دے چکے ہیں، پی ٹی آئی جمہوری رویہ اختیار کرنے کو تیار نہیں ہے۔
وزیراعظم کے مشیر نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان خود اپنی پیدا کردہ مشکلات کا شکار ہیں، پی ٹی آئی دور میں ملک ڈیفالٹ کے قریب چلا گیا تھا، ہم پی ٹی آئی کو مذاکرات کے قریب لے آئے تھے، عمران خان نے مذاکرات نہیں ہونے دیے، بانی پی ٹی آئی کو اپنی ذات کے علاوہ کچھ نظرنہیں آتا۔
اس موقع پر وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ پہلگام ڈرامے سے ہوا نکل چکی ہے، واقعے کی شفاف تحقیقات ہونا چاہئیں، بھارت نے بغیر ثبوت کے الزام لگایا ہے، مودی کے سر پر جنگی جنون سوار ہے۔
عطا تارڑ نے کہا کہ ہم بھارت کے ہر ایڈونچر کا بھرپور جواب دیں گے، پہلے فنٹاسٹک چائے پلائی تھی اب فنٹاسٹک مار لگائیں گے، افواج پاکستان بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی اللہ نے کہا کہ رانا ثنا اللہ
پڑھیں:
سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
بانی پی ٹی آئی کو جیل میں گئے دو سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے ۔ شروع شروع میں کہا گیا تھا کہ بانی صاحب زیادہ عرصہ پسِ دیوارِ زنداں نہیں گزار سکیں گے ۔ جیل کی سختیاں اور صعوبتیں جَلد ہی اُنہیں مُک مکا کرنے کی طرف راغب کر دیں گی اور وہ ’’ڈِیل‘‘ یا ’’ این آر او‘‘ لے کر جیل سے باہر آ جائیں گے ۔ ایسا مگر نہیں ہو سکا ۔ یہ حقیقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی نہ ہونے سے اُن کے عشاق میں غصہ بتدریج بڑھتا ہی گیا ہے۔
اِسے پی ٹی آئی کی فرسٹریشن کہا جائے یا غیر حکیمانہ اسلوبِ سیاست کہ وہ9مئی ایسا سانحہ بھی کر گزرے۔ اُن کا خیال تھا کہ ایسے آتشیں ہتھکنڈے استعمال کرکے وہ حکومت اور طاقتوروں کو دباؤ میں لے آئیں گے اور یوں وہ اپنے’’ محبوب‘‘ کو دوبارہ برسرِ اقتدار یا اپنے درمیان لا بٹھائیں گے۔مگر یہ ہتھکنڈہ اور کوشش بھی ناکامی پر منتج ہُوئی۔
26 نومبر 2023کو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ محترمہ کی زیر قیادت اسلام آباد پر پی ٹی آئی کے جوشیلے اور جذباتی کارکنوں کی چڑھائی بھی اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی۔اِن پے درپے ناکامیوں نے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور وابستگان میں مزید فرسٹریشن پیدا کی ہے ۔ یہ فرسٹریشن دراصل حکومت اور پی ٹی آئی میں سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانے کا سبب بھی بنی ہے ۔ یہ بڑھی ہُوئی فرسٹریشن اور بڑھا ہُوا سیاسی درجہ حرارت خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ ، علی امین گنڈا پور، کی وزارتِ اعلیٰ بھی نگل گیا ہے ۔
جب سے کے پی کے میں نئے وزیر اعلیٰ تشریف لائے ہیں ، سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھا ہے ۔سہیل آفریدی صاحب نے بطورِ وزیر اعلیٰ جن بیانات کے ’’گولے‘‘ داغے ہیں، ان کی حرارت بھی محسوس کی گئی ہے ۔ اِس گرمائش کو ٹھنڈا کرنے اور درجہ حرارت کو نیچے لانے کے لیے وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے نئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو مبارکباد اور ملاقات کی دعوت بھی دی ہے ۔ اِس کے ساتھ ہی کور کمانڈر پشاور کی سہیل آفریدی صاحب سے ملاقات کے لیے جانا بھی اِسی ضمن کی ایک کوشش کہی جا سکتی ہے ۔
خیبر پختونخوا میں افغان طالبان کے زیر سرپرستی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے جو بدمعاشیاں شروع کر رکھی ہیں، ان کا ٹیٹوا دبانے اور سر کچلنے کے لیے بھی لازم ہے کہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے لایا جائے ؛ چنانچہ تین روز قبل جب لاہور کے ایک مشہور اسپتال میں بغرضِ علاج داخل پی ٹی آئی کے سینئر وائس چیئرمین ، جناب شاہ محمود قریشی، کی عیادت کے لیے پی ٹی آئی کی سابق سینئر قیادت( فواد چوہدری، عمران اسماعیل ، محمود مولوی) پہنچی تو اِسے بھی سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے سے معنون کیا گیا۔
میڈیا میں یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ فواد چوہدری ، عمران اسماعیل، محبوب مولوی ، علی زیدی ، سبطین خان اور دیگر پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی زیر قیادت ’’ریلیز بانی پی ٹی آئی‘‘ کی ایک نئی تحریک کا آغاز بھی ہُوا چاہتا ہے۔ قیافوں کے مطابق : پی ٹی آئی کی مذکورہ سابق قیادت اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی سے ملے گی اور بتوسط شاہ محمود قریشی ، بانی صاحب کو ایک قدم پیچھے ہٹنے کی طرف مائل کریگی ۔
ساتھ ہی یہی لوگ حکومت سے بھی میل ملاقاتیں کریں گے ، حکمرانوں سے بھی گزارش کریں گے کہ بہت ہو گیا تناؤ اور کھچاؤ ، اب اِس ضمن میں حکومت بھی ایک قدم پیچھے ہٹے ۔ اور یوں مفاہمت کی ایک فضا قائم کرنے کی دانستہ کوشش کی جائے ۔ اور جب مفاہمت کے لیے فضا ہموار ہوجائے گی تو بڑھے ہُوئے سیاسی درجہ حرات میں تخفیف یا کمی بھی واقع ہو جائے گی۔ اور یوں بانی پی پی ٹی آئی کی رہائی کی بھی کوئی سبیل نکل آئے گی ۔ مگر سب سے پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی خود تو جیل سے رہائی پائیں ۔ توقعات ظاہر کی گئی ہیں کہ رہائی کے بعد شاہ محمود قریشی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان پُل کا کردار ادا کر سکیں گے۔
یہ خبریں سامنے آنے کے بعد کہ پی ٹی آئی کے بعض ’’اولڈ گارڈز‘‘ اپنے تئیں کوششیں کرنے لگے ہیں کہ ملک میں بڑھتے سیاسی درجہ حرات کو نیچے لایا جائے ، چند ’’اولڈ گارڈز‘‘ تردیدوں پر بھی اُتر آئے ہیں ۔ مثال کے طور پر اسد عمر اور علی زیدی۔خبروں میں دونوں ہی کے اسمائے گرامی شامل کرکے دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ صاحبان بھی بانی پی ٹی آئی کی مبینہ رہائی تحریک میں شامل ہیں ۔
پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر ، اسد عمر، نے یکم نومبر2025ء کو اپنے ٹویٹ میں کہا:’’ آج اخباروں اور سوشل میڈیا کے زریعے نظر آیا کہ مَیں عمران خان کی رہائی کے لیے کسی تحریک کا حصہ ہُوں۔ مبینہ طور پریہ تحریک پی ٹی آئی کے ماضی کے لیڈر شروع کررہے ہیں۔ کوئی بھی کاوش جو عمران خان اوردوسرے اسیروں کی رہائی کے لیے ہو، اچھی بات ہے، لیکن جس (رہائی)تحریک کا ذکر کیا جا رہا ہے، مَیں اُس کا حصہ نہیں ہُوں۔‘‘ اِسی طرح پی ٹی آئی کے سابق لیڈر اور سابق وفاقی وزیر، علی زیدی، نے ایک انگریزی معاصر کے توسط سے مذکورہ رپورٹوں اور تحریکِ رہائی میں حصہ لینے کی تردید کرتے ہُوئے، یکم نومبر ہی کو، کہا:’’ مَیں ایسا کام کرنے کا قطعی ارادہ نہیں رکھتا ہُوں۔میرے معاشی حالات اجازت دیتے ہیں نہ خاندانی ، اس لیے مَیں یہ بات کلیئر کرنا چاہتا ہُوں کہ مَیں جلدکسی بھی طرح سیاست میں داخل نہیں ہورہا۔ ‘‘ پھر وہ سیاست میں جَلد داخل نہ ہونے کی وجہ بتاتے ہُوئے اپنے ٹویٹ میں کہتے ہیں:’ ’ملک میں کوئی سیاست ہے ہی نہیں ۔ کرپشن کا غلبہ ہے۔
بانی پی ٹی آئی واحد لیڈر تھے اور ہیں جنھوں نے اِس سسٹم کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ افسوس اُنہیں غیر قانونی طور پر جیل میںرکھا گیا ہے ۔ اور ہم سب جانتے ہیں کیوں۔‘‘اسد عمر، علی زیدی ، فواد چوہدری، عمران اسماعیل وغیرہ پی ٹی آئی کی وہ’’ ہستیاں‘‘ ہیں جو9مئی کے سانحہ کے بعد شروع ہونے والے کریک ڈاؤن کے دوران سیاست ہی سے تائب ہو گئے تھے یا جنہیں بانی پی ٹی آئی نے خود پارٹی سے نکال باہر کیا تھا۔ شائد اِسی لیے جب مذکورہ شخصیات کی شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے بعد سیاسی ہلچل پیدا ہُوئی اور سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کے مباحث شروع ہُوئے (اور خاص طور پر فواد چوہدری کی سیاسی پتنگ اُڑنے لگی) تو پی ٹی آئی کے ایم این اے اور مرکزی سیکریٹری اطلاعات، شیخ وقاص اکرم ، نے مبینہ طور پر ردِ عمل دیتے ہُوئے کہا:’’مذکورہ ملاقات اور ملاقات کرنے والوں کی اہمیت تب ہو جب ان کی پارٹی میں کوئی حیثیت بھی ہو۔
جب انھیں پارٹی سے نکالا جا چکا ہے تو ان کی ملاقاتوں کی بنیادی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ اِس سخت ردِ عمل سے یہ اندازہ لگانا سہل ہو جاتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرانے کی مبینہ تحریک اور سیاسی درجہ حرارت کو نیچے لانے کی مبینہ کوششیں ، کم از کم، پی ٹی آئی میں(فی الحال) کوئی قبولیت نہیں رکھتیں ؛ چنانچہ بعض اطراف سے یہ بدگمانی بھی کی جارہی ہے کہ مذکورہ رہائی تحریک کی شروعات کرنے والوں کودراصل کسی کا اشارہ ہے ۔
بانی پی ٹی آئی کے جیل میں مقید ہونے سے کئی ملکی سیاسی معاملات اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی فضا معلّق سی ہو کر رہ گئی ہے ۔ اِسی کی تحلیل کے لیے پی ٹی آئی کی سابقہ سینئر قیادت نے شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی ہے۔ یہی سابقہ قیادت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سابق سینیٹر اعجاز چوہدری ، سابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید اور پی ٹی آئی کے سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے بھی ملی ہے ۔
آخر الذکر دونوں شخصیات بھی اسپتال میں بوجوہ داخل ہیں ۔ پی ٹی آئی کی مذکورہ سابقہ قیادت کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت بانی پی ٹی آئی کو باہر نکالنے کی ہمت ، سکت اور اہلیت نہیں رکھتی، اس لیے ہمیں یہ قدم اُٹھانا پڑا ہے ۔سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کی یہ کوشش و سعی مستحسن تو قرار دی جاسکتی ہے ، مگر سوال یہ ہے کہ اِس کوشش کے خلاف پی ٹی آئی قیادت میں جو ردِ عمل دیکھنے میں آرہا ہے، اِس کا سبب اور علاج کیا ہے؟ بانی پی ٹی آئی بھی تو اِس ضمن میں ابھی کچھ نہیں بولے۔