ٹرمپ نے قومی سلامتی مشیر کو برطرف کردیا؛ نیا سفارتی کردار ملنے کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT
واشنگٹن:
ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز کو برطرف کردیا ہے، جس کے بعد انہیں کوئی دوسرا اہم عہدہ دیے جانے کا امکان ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوسرے دورِ حکومت کے 100 دن مکمل ہونے کے موقع پر انتظامیہ میں بڑی تبدیلیاں کررہے ہیں اور اسی سلسلے میں انہوں نے قومی سلامتی کے مشیر کو برطرف کردیا ہے۔
واضح رہے کہ مائیک والٹز حالیہ مہینوں میں سخت تنقید کی زد میں تھے اورمیڈیا رپورٹس کے مطابق وائٹ ہاؤس کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ یمن حملوں سے متعلق معلومات کے لیک ہونے کے بعد سامنے آیا، جس سے مائیک والٹز کی پوزیشن خاصی کمزور ہو چکی تھی۔
سوشل میڈیا پر جاری بیان میں صدر ٹرمپ نے والٹز کی خدمات کو سراہا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔
اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو کو وقتی طور پر قومی سلامتی کے مشیر کا اضافی چارج دیا جا رہا ہے، جو بیک وقت 2 اہم ذمے داریاں سنبھالیں گے۔ ایک امریکا کے اعلیٰ ترین سفارتکار کی حیثیت سے اور دوسری قومی سلامتی کے معاملات میں مشیر کے طور پر۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے مائیک والٹز کو اقوام متحدہ میں امریکا کا نیا سفیر بنانے کی تجویز بھی پیش کی ہے، جس کا باضابطہ اعلان جلد متوقع ہے۔ اسی دوران اطلاعات ہیں کہ مائیک والٹز کے نائب الیکس وونگ بھی اپنے عہدے سے علیحدگی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی انتظامیہ میں حالیہ تبدیلیاں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب صدر ٹرمپ نے مشی گن میں منعقدہ ایک عوامی ریلی میں اپنی حکومت کے ابتدائی 100 دن مکمل ہونے پر کامیاب اقدامات کا دعویٰ کیا تھا۔
اپنے خطاب صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ صرف شروعات ہے، ہم امریکا کو نئی بلندیوں تک لے جائیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قومی سلامتی کے
پڑھیں:
ٹرمپ انتظامیہ کا مزید 36 ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی عائد کرنے پر غور
واشنگٹن(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ مزید 36 ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی لگانے پر غور کررہی ہے۔
عالمی خبر رساں رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسی ماہ کے آغاز میں، ریپبلکن صدر نے ایک اعلامیہ پر دستخط کیے تھے جس میں 12 ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
امریکی صدر کاکہنا تھا کہ یہ اقدام ’ غیر ملکی دہشت گردوں’ اور دیگر قومی سلامتی کے خطرات سے امریکا کو بچانے کے لیے ضروری ہے۔
یہ ہدایت نامہ امیگریشن پر سختی کے اس سلسلے کا حصہ ہے جس کا آغاز ٹرمپ نے دوسری بار صدر بننے کے بعد کیا ہے، اس میں میں ان سو سے زائد وینزویلا کے باشندوں کو ایل سلواڈور ملک بدر کرنا شامل تھا جن پر جرائم پیشہ گینگ سے تعلق کا شبہ تھا، اسی طرح کچھ غیر ملکی طلباء کو امریکی جامعات میں داخلے سے روکنے اور بعض کو ملک بدر کرنے کی کوششیں بھی شامل تھیں۔
ایک داخلی سفارتی مراسلے ( کیبل ) میں، جس پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے دستخط تھے، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ان ممالک سے متعلق درجن بھر تحفظات کا اظہار کیا اور اصلاحی اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔
سفارتی کیبل میں کہا گیا تھا کہ محکمے نے 36 ایسے ممالک کی نشاندہی کی ہے اگر وہ اگلے 60 دنوں میں مقرر کردہ معیار اور تقاضے پورے نہ کریں تو ان کے شہریوں پر امریکا میں مکمل یا جزوی داخلے کے پابندی کی سفارش کی جا سکتی ہے۔
یہ کیبل سب سے پہلے واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کی تھی۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے خدشات میں شامل تھا کہ ان میں سے بعض ممالک کی حکومتیں قابلِ اعتماد شناختی دستاویزات مہیا کرنے کے سلسلے میں موثر تعاون پر آمادہ نہیں ہیں جبکہ کچھ ممالک کے پاسپورٹ کی سیکیورٹی بھی مشکوک قرار دی گئی۔
کیبل میں مزید کہا گیا کہ بعض ممالک نے اپنے اُن شہریوں کی واپسی میں تعاون نہیں کیا جنہیں امریکا سے بے دخل کرنے کا حکم دیا گیا تھا، بعض ممالک کے شہری امریکی ویزے کی مدت ختم ہونے کے باوجود قیام پذیر رہے۔
دیگر خدشات میں شامل تھا کہ ان ممالک کے شہری امریکا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے یا ان کی سرگرمیاں یہود دشمن یا امریکا مخالف تھیں، کیبل میں واضح کیا گیا کہ یہ تمام خدشات ہر ملک پر لاگو نہیں ہوتے۔
اگر ان ممالک نے آئندہ 60 دنوں میں ان تحفظات کا ازالہ نہ کیا تو ان پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
ان ممالک میں انگولا، انٹیگوا اور باربودا، بینن، بھوٹان، برکینا فاسو، کیپ وردے، کمبوڈیا، کیمرون، آئیوری کوسٹ، جمہوریہ کانگو، جبوتی، ڈومینیکا، ایتھوپیا، مصر، گیبون، گیمبیا، گھانا، کرغیزستان، لائبیریا، ملاوی، موریطانیہ، نائجر، نائجیریا، سینٹ کٹس اور نیوس، سینٹ لوشیا، ساؤ ٹومے اور پرنسپے، سینیگال، جنوبی سوڈان، شام، تنزانیہ، ٹونگا، ٹوالو، یوگنڈا، وانواتو، زیمبیا اور زمبابوے شامل ہیں۔
قبل ازیں جن ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی عائد کی گئی تھی ان میں افغانستان، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل تھے۔
سات دیگر ممالک، برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیئرالیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا پر جزوی پابندیاں پہلے ہی عائد کی جا چکی ہیں۔
خیال رہے کہ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے داخلے پر پابندی عائد کی تھی، یہ پابندی کئی مراحل سے گزرنے کے بعد 2018 میں سپریم کورٹ نے برقرار رکھی تھی۔
مزیدپڑھیں:اسرائیل کےخلاف کھڑے ہونا تمام مسلم ممالک کی ذمہ داری ہے، ایرانی صدر