Jang News:
2025-06-17@18:09:15 GMT

پی ٹی آئی سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت منظور

اشاعت کی تاریخ: 2nd, May 2025 GMT

پی ٹی آئی سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت منظور

— فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے 9 مئی سے متعلق کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر اعجاز چوہدری کی ضمانت منظور کرلی۔

اعجاز چوہدری کو ایک لاکھ روپے کے مچلکے ٹرائل کورٹ میں جمع کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ اعجاز چوہدری کے خلاف کیس اتنا ہی مضبوط تھا تو فوجی عدالت میں لے جاتے۔

9 مئی مقدمات میں سینیٹر اعجاز چوہدری کیخلاف ریکارڈ پیش

لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں 9 مئی کے کیس میں پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چوہدری کے خلاف پراسیکیوشن نے مقدمات کا ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیا۔

عدالت میں اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعجاز چوہدری نے لوگوں کو اکسایا اور سازش کا بھی حصہ رہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ اعجاز چوہدری 11 مئی 2023ء سے گرفتار ہیں۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے رہنما حافظ فرحت عباس کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست منظور کرلی۔

جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 9 مئی کیس میں درخواست کی سماعت کی تھی۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: سینیٹر اعجاز چوہدری عدالت میں پی ٹی آئی

پڑھیں:

مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛ سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث

مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛ سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث WhatsAppFacebookTwitter 0 16 June, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس) مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں ہوئی، جس میں اہم آئینی سوالات پر بحث کی گئی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13 رکنی آئینی بینچ نے سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے معاملے پر نظر ثانی کیس کی سماعت آج دوبارہ کی، جس میں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت میں دلائل دیے۔

سماعت کے دوران دلچسپ جملوں کا تبادلہ بھی دیکھنے میں آیا، جب جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ اگر ان کا تبصرہ دل پر لیا گیا تو وہ اسے واپس لیتے ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’’میری بیوی نے بھی سن لیا، اس نے ڈانٹا کہ کیا کر رہے ہو!‘‘ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ہنستے ہوئے کہا، ’’تو پھر آپ نے جسٹس کاکڑ کی بات تو نہ مانی۔‘‘ فیصل صدیقی کا جواب اور بھی دلچسپ تھا، انہوں نے کہا کہ ’’نہیں سر، جسٹس کاکڑ کی بات گاجر کی طرح تھی اور بیگم کی ڈنڈے کی طرح‘‘!۔

کیس کے سلسلے میں قانونی دلائل میں فیصل صدیقی نے بتایا کہ جسٹس ہاشم کاکڑ کی آبزرویشن کے بعد 13 صفحات کی سمری 100 صفحات کے عدالتی فیصلے کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔ مخصوص نشستوں کا معاملہ آزاد امیدواروں کی بڑی تعداد کی وجہ سے پیچیدہ ہوا۔ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کا مفاد مخصوص نشستوں کے تناظر میں یکساں تھا، اسی لیے انہیں پی ٹی آئی کو ملنے پر اعتراض نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جب دونوں جماعتوں کا آئین اور ساخت الگ ہے تو مفاد ایک کیسے ہو سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال کیا کہ کیا کسی امیدوار نے خود عدالت میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ انہیں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا؟ فیصل صدیقی نے جواب میں کہا کہ اکثریتی فیصلے میں اس پہلو کو بنیادی اہمیت حاصل نہیں تھی۔

فیصل صدیقی نے بینچ کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ یہ نکتہ اہم ہے کہ آزاد امیدواروں کے حصے کی مخصوص نشستیں 3 جماعتوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ آیا پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن لڑا یا نہیں؟ جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے یہ سوال موجود ہی نہیں تھا،تاہم فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ اکثریتی فیصلے نے اس نکتے کو طے کیا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ باجود متعدد مواقع کے انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر 13 جنوری کا عدالتی فیصلہ سامنے آیا۔ اسی دوران جسٹس جمال خان نے نشاندہی کی کہ دسمبر میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے جا چکے تھے، لہٰذا یہ مؤقف درست نہیں کہ جنوری کے فیصلے نے امیدواروں کو آزاد کیا۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو 5 سال تک انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے مہلت دی اور سننے کے بعد ہی انتخابی نشان نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا، جو پارٹی کی ڈی رجسٹریشن کا سبب نہیں بنتا۔

سماعت کے دوران تمام ججز نے آزاد امیدواروں، انتخابی نشان، انٹرا پارٹی انتخابات اور مخصوص نشستوں کی آئینی و قانونی حیثیت پر گہرائی سے سوالات اٹھائے، جب کہ فیصل صدیقی نے تمام نکات پر تفصیل سے دلائل دیے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ 13 جنوری کو آیا کاغذات نامزدگی دسمبر میں جمع ہوئے تب بھی کچھ امیدواروں نے آزاد حیثیت دکھائی۔ بینچ کا سوال تو یہ ہے انتخابی نشان نہ ہونے پر بھی پی ٹی آئی جماعت تو موجود تھی۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی سے انتخابی نشان لے لیا تھا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ کا تنازع تو یہ ہے کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کر لیا، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا حق دعویٰ مسئلہ نہیں ہے۔ میں سنی اتحاد کونسل نہ پی ٹی آئی کا حامی ہوں بلکہ میں سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی حمایت کر رہا ہوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن ایکٹ رول 94 کو کالعدم قرار دیا گیا کہ ریٹرننگ افسر آزاد ڈکلئیر نہیں کر سکتا۔ جب ریٹرننگ افسر کو اختیار نہیں تو سپریم کورٹ کو کیسے ہے کہ آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی کا قرار دے؟

فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا جواب جسٹس امین اور جسٹس جمال کے ایک فیصلے میں ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جو آزاد تھے انہوں نے سنی اتحاد کو جوائن کر لیا تھا ان کی واپسی کیسے ہو سکتی ہےاصل سوال یہ ہے۔ اس لیے آپ کو بار بار کہا جاتا ہے کہ تمام مراحل کے بعد کہ آزاد ارکان نے آپ کو جوائن کرلیا وہاں سے کیس شروع ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو تھا کہ آزاد ارکان نے سنی اتحاد کو جوائن کر لیا سیٹیں سنی اتحاد کو دیں، جس پر وکیل نے کہا کہ جی ایسا تھا لیکن اب میں نظر ثانی میں ایسا نہیں کر رہا ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اب آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟ جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بطور جواب گزار میں اب اپنا موقف تبدیل کر سکتا ہوں، جو مرضی پوزیشن لوں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شروع میں کہیں کسی مرحلے پر آپ نے یہ بات نہیں کی کہ انتخابی نشان نہیں ملا، یہ نہیں ہوا، وہ نہیں ہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد نے نشستیں مانگیں لیکن اکثریتی یا اقلیتی فیصلے میں غلط یا صحیح نشستیں پی ٹی آئی کو دے دیں۔ اس وقت آپ کی پوزیشن تبدیل ہے، اب آپ پی ٹی آئی کی طرف سے دلائل دے رہے ہیں۔ جب وہ پی ٹی آئی کے رکن بن گئے، تو آپ کے نہیں رہے۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ میں نہ تو ایس آئی سی کو نہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کر رہا ہوں۔ میں بطور آفیسر آف کورٹ اکثریتی فیصلے کو سپورٹ کر رہا ہوں۔ میرا حق دعویٰ اب ایشو نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی درخواست فریق مقدمہ بننے کی تھی اس بارے میں قانون کیا کہتا یہ آپ کو اچھی طرح پتا ہے۔ ایک نکتہ یہ بھی دیکھ لیجیے گا کہ اپیل کی سطح پر ازخود نوٹس لے کر رول 94 کو سنے بغیر کالعدم کر دیا ۔

وکیل نے کہا کہ جی اس حوالے سے جسٹس جمال مندوخیل کا فیصلہ ہے ۔ 11 ججوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ کہ پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کا فیصلہ غیر قانونی تھا ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جن 11 ارکان نے کہا وہ اتفاق صرف ان ارکان تک تھا جنہوں نے کاغذات نامزدگی اور پارٹی ٹکٹ پی ٹی آئی کا دیا ۔ صرف 14 پی ٹی آئی امیدوار تھے جنہوں نے پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا ، لیکن ہم نے یہ فرض کیا کہ انہوں نے جمع کرایا ہو اور وہ ادھر ادھر ہوگیا ہو ۔ اس وجہ سے ہم نے 39 ارکان کو تصور کیا ۔

وکیل نے کہا کہ نمبر پر اختلاف ہے لیکن اس بات پر اتفاق ہے کہ الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی ارکان کو آزاد قرار دینے کا اختیار نہیں تھا ۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبردنیا کو اسرائیل کی جوہری صلاحیت کے بارے میں خوفزدہ ہونا چاہیے: خواجہ آصف دنیا کو اسرائیل کی جوہری صلاحیت کے بارے میں خوفزدہ ہونا چاہیے: خواجہ آصف ایرانی سپریم لیڈر زیرِ زمین پناہ گاہ منتقل، اسرائیلی حملوں کے بعد تہران میں ہنگامی صورتحال ایران نے موساد کے ایک ایجنٹ کو پھانسی دیدی امریکا، ایران-اسرائیل جنگ میں شامل ہوسکتا ہے: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کراچی: صدر میں کسٹمز کا چھاپہ، 3 کروڑ مالیت کے بھارتی ساختہ موبائل فونز اور دیگر اشیاء برآمد امریکا نے سفارتی عملے کو اسرائیل چھوڑنے کی ہدایت کردی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پشاور ہائیکورٹ نے شہریار آفریدی کو دو ہفتوں کی حفاظتی ضمانت دے دی
  • فیض حمید کا کورٹ مارشل بھی ہوگا اور عمر قید بھی ہوگی، سینیٹر فیصل واوڈا
  • چوہدری تنویر کی گرفتاری کے بعد طبیعت خراب، اسپتال منتقل
  • ن لیگ کے سابق سینیٹر چوہدری تنویر احاطہ عدالت سے گرفتار
  • 26 نومبر احتجاج کیس میں اسٹیٹ کونسل مقرر کرنے کیخلاف پی ٹی آئی کی اپیل منظور
  • 9 مئی کیس، سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی ضمانت منظور
  • 9 مئی کیس: پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی ضمانت منظور
  • علیمہ خان اور عظمیٰ خان کی عبوری ضمانت میں یکم اگست تک توسیع
  • مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس؛ سپریم کورٹ میں اہم سوالات زیربحث
  • پرتشدد ریلی کیس: عالیہ حمزہ، انتظار پنجوتھہ اور فلک ناز بلوچ کی ضمانت منظور