Express News:
2025-05-03@23:57:36 GMT

تجاوزات، اختیارات اور ہمارے ادارے

اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT

تجاوزات کے لفظی معنی ناجائز قبضہ یا اپنی زمین کی حدود سے بڑھ کر دوسرے فریق کی زمین میں داخل ہونے کو کہتے ہیں۔ آپ اگر آج کے پاکستان کو دیکھیں تو اب ہم تجاوزات کے ساتھ ناجائز کا اضافہ کردیتے ہیں۔ راقم نے بہت کوشش کی کہ جائز تجاوزات اور ناجائز تجاوزات میں فرق تلاش کرسکے لیکن ناکام رہا! تجاوزات زمین پر ہوں یا اختیارات میں ہوں، نتائج بہت ہی تکلیف دہ ہوتے ہیں۔


آج وطن عزیز میں قوانین کی علمبرداری کمزور ہونے کی وجہ سے تجاوزات کا جن بے قابو ہوچکا ہے اور ہمارے معاشرے کے تقریباً ہر ادارے کے سر پر ہتھوڑے برسا رہا ہے۔ ایک پائیدار اور مضبوط ریاست کا انحصار اس کے اداروں کی مضبوطی پر ہوتا ہے۔ آپ دنیا کے ان تمام ممالک کی فہرست بنائیں جہاں مسلسل ترقی ہو رہی ہے تو آپ کو ان تمام ممالک میں ایک قدر مشترک نظر آئے گی کہ ان کے ریاستی ادارے مضبو ط، فعال اور قابل اعتماد ہیں۔ جب کہ ہمارے ہاں ہر برائی کی جڑ اور گناہ کا ذمے دار ریاستی اداروں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ عمومی طور پر ریاست چار ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے یعنی مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کسی بھی ملک کو اس وقت تک عزت و وقار سے دیکھتی ہے جب تک اُس ملک کے ریاستی ادارے عزت و وقار کے حامل ہوں۔

اداروں کی عزت و وقار کا بالواسطہ تعلق عوام کی خوشحالی سے ہے، اگر کسی بھی ملک کے عوام کا اعتماد اپنے اداروں پر ہے تو یقیناً وہ ملک بہت مضبوط اور محفوظ ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ہر ادارہ ہدفِ تنقید ہے، میری دانست میں وجہ صرف تجاوزات ہے۔ پاکستان میں اس وقت شاید ہی کوئی سڑک، پارک، زمین، ہاؤسنگ سوسائٹی یا ادارہ بچا ہو جس پر تجاوازات قائم نہ کی گئی ہوں۔ آج کی مہذب دنیا میں جہاں انصاف اور اخلاقیات موجود ہیں وہاں آپ اُن کی سڑکوں کا جائزہ لے لیں آپ کو اُن کا پورا نظام سمجھ میں آجائے گا۔ اگر سڑکیں تجاوزات سے پاک ہیں، ٹریفک بے ہنگم نہیں چل رہا اور لوگ تمیز سے گاڑیاں چلا رہے ہیں تو آپ سمجھ لیں کہ ریاست کے چاروں ستون مضبوطی سے ریاست کو تھامے ہوئے ہیں۔

دنیا آپ کو کس نظر سے دیکھتی ہے اُس کی ایک مثال آپ اپنے ملک کے پاسپورٹ کی وقعت سے اخذ کرسکتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستانی پاسپورٹ کی اہمیت بہت بہتر تھی اور درجہ بندی کی فہرست میں دنیا کے 30 اہم ممالک میں شامل تھا۔ ہمارے اداروں کی مسلسل ناکام حکمت عملی کی وجہ سے آج پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی پر نظر رکھنے والے ادارے (Henley Passport Index-HPI) کی رپورٹ کے مطابق 106 ممالک کی فہرست میں پاکستان 102 ویں نمبر پر براجمان ہے۔

مقننہ ریاست کا وہ پہلا ستون ہے جس نے ملک کی مضبوطی کےلیے اہم قانون سازی کرنی ہوتی ہے، لیکن آپ ذرا 1947 سے لے کر آج تک بغور جائزہ لیں تو اپ کو ہرمنتخب وزیراعظم دوسرے اداروں کی مداخلت کا رونا روتا ہوا نظر آئے گا۔ تصویر کا دوسرا اور انتہائی مکروہ رخ یہ ہے کہ آج عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ہماری اسمبلیاں قانون سازی صرف اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کےلیے کرتی ہیں۔

عدلیہ جو کہ ریاست کا دوسرا اہم ترین ستون ہے اور اِسے جس انداز سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کا دوسرے معاشرے میں سوچنا بھی محال ہے۔ اس سے بڑی بدقسمتی اس ملک کی کیا ہوگی کہ آج معزز عدلیہ کے فیصلوں کو معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، جس معاشرے میں بلا تفریق عدل و انصاف ہو رہا ہو اُس معاشرے کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔

جسٹس محمد منیر کے ’’ نظریہ ضرورت‘‘ سے لے کر جسٹس قاضی فائز عیسی کے ’’نظریہ مخالفت برائے مخالفت‘‘ نے عدلیہ کے وقار کو کافی ٹھیس پہنچائی کہ جس کے اثرات آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں نیک نام منصفین انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق انصاف کی فراہمی میں پاکستان 142 ممالک کی فہرست میں 130 ویں نمبر پر ہے۔ ہمارے ہاں انصاف کے حصول کا سفر نسلوں پر محیط ہوتا ہے اور ایک پوری نسل انصاف کےلیے دربدر ہونے کے بعد عدالتی کارروائیوں پر مشتمل فائلوں کا پلندہ اپنی نئی نسل کے حوالے کرجاتی ہے۔ عدالتی نظام سے جڑے ہوئے لوگ اب کھل کر عدلیہ میں بھی تجاوزات یعنی مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔

انتظامیہ بھی ریاست کا ایک بہت ہی اہم جز ہے لیکن قابلیت اور اہلیت کے ساتھ کھلواڑ نے اس ادارے کو بھی بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ آج ایک عام پاکستانی انتظامیہ کو انتہائی منفی انداز میں دیکھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ میں اکثریت اب صرف نوکری کررہے ہیں یا شاید وقت گزار رہے ہیں جبکہ انتظامیہ میں بیٹھی اکثریت اعلیٰ عدلیہ اور سیاسی مداخلت کو اپنے کام میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پچھلے 77 سال میں انتظامیہ کی کارکردگی مسلسل زوال پذیر رہی ہے۔ ترقی یافتہ ملک آج 21 ویں صدی کے جدید طور طریقے استعمال کرکے آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ ہم آج بھی 18 ویں صدی میں رہنے پر بضد ہیں۔

آج کی دنیا میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے جس کا کام سماجی، معاشرتی، سیاسی یا قومی سطح پر مسائل کی نشاندہی اور اُس کے خلاف آواز اٹھانا ہوتا ہے۔ صحافت نے پاکستان کے قیام سے آج تک بہت اُتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ 80 کی دہائی میں صحافت اور صحافیوں کی مشکلات آج بھی تاریخ کا تاریک حصہ ہیں۔ پاکستان پہ مسلط دہشت گردی کی جنگ میں جس طرح میڈیا نے لوگوں میں شعور پیدا کیا اور رائے عامہ ہموار کی، اُس کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن جس طرح ریاست کے دوسرے ستونوں میں تجاوزات کی بھرمار ہے بالکل اسی طرح یہ ادارہ بھی کچھ ایسے نام نہاد صحافیوں اور گھس بیھٹیوں سے محفوظ نہیں جن کا کام صرف شر پھیلانا اور بیرونی اور علاقائی آقاؤں کو خوش کرنا ہے۔

سوشل پلیٹ فارم آج ایک ایسا طاقتور میڈیا بن کر سامنے آیا ہے کہ جس نے اشرافیہ کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انتہائی مکاری سے اس میڈیا کے ذریعے ریاست کے چاروں ستونوں کے خلاف بدظن کیا جارہا ہے۔ آج کی دنیا ہماری عزت صرف اس لیے نہیں کر رہی ہے کیونکہ ریاست کا ہر ستون لڑکھڑا رہا ہے یا یوں کہیے کہ کوئی بھی ادارہ اپنا کام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ آج کے حالات یہ ہوگئے ہیں کہ کوئی بھی عام شخص کسی بھی ریاستی ستون کو قابل فخر نہیں سمجھتا۔

کمپیوٹر سائنس کی فیلڈ میں ایک محاورہ استعمال کیا جاتا ہے کہ "GiGo-Garbage in, Garbage out" یعنی اگر ہم کسی سسٹم میں غلط کوائف کا اندراج کریں گے تو لامحالہ ہمیں اس کا غلط نتیجہ ہی ملے گا۔پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں ہم مسلسل غلط کوائف کا اندراج کئے چلے جارہے ہیں کہ جس کے نتائج آج پورا معاشرہ جھیل رہا ہے۔ کسی بھی ریاست کو اپاہج کرنے کےلیے یہ کافی ہے کہ آپ اُس کے ریاستی اداروں میں تجاوزات یعنی غلط کوائف کے اندراج کو رسی بنا کر اُس کا گلا گھونٹ دیں اور پھر بتدریج اُسے مرنے کےلیے چھوڑ دیں۔ بحیثیت قوم ہمارے اخلاقی انحطاط کی عکاسی جون ایلیا کا یہ شعر بخوبی کرتا ہے:

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اداروں کی کی فہرست ریاست کا جاتا ہے کسی بھی رہے ہیں ہے کہ ا رہا ہے

پڑھیں:

بھارت پہلگام ڈرامہ فلسطین میں جاری مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے کر رہا ہے، علامہ مرید نقوی

خطبہ جمعہ دیتے ہوئے جامع مسجد علی حوزہ علمیہ جامعة المنتظر ماڈل ٹاون میں ممتاز عالم دین کا کہنا تھا کہ انڈیا ہمارے ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، جو بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ دیکھے گا، سارے عوام اس کا مقابلہ کریں گے، شام میں امریکہ اور ترکی کی مدد سے ایسی حکومت قائم ہوئی ہے، جو ٹرمپ اور اسرائیل کیساتھ روابط قائم کر رہی ہے، ہمارے حکمرانوں کی منافقت ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے نائب صدر علامہ سید مرید حسین نقوی نے جامع مسجد علی حوزہ علمیہ جامعة المنتظر ماڈل ٹاون میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی منافقت ملکی ترقی میں رکاوٹ ہے، اگر برسر اقتدار لوگوں میں منافقت ختم ہو جائے تو ملک ضرور ترقی کرے گا، حیرت ہے کہ انڈیا پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے، سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہونیوالے دہشتگردی کے واقعہ کی پاکستانی حکومت نے بھی مذمت کی ہے اور مشترکہ طور پر تحقیقات کی پیش کش بھی کی ہے۔ مگر انڈیا اس کا الزام پاکستان پر عائد کر کے ایک جھوٹا بیانیہ بنانے کی سازش کر رہا ہے، تاکہ بھارت میں مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم اور کشمیر کی تحریک آزادی سے توجہ ہٹا سکے، ہم پوچھتے ہیں کہ جب دہشتگردی کا واقعہ ہوا تو بھارتی ارادے اور ایجنسیاں کہاں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ سب ڈرامہ نریندرامودی یہودیوں کو تقویت پہنچانے کیلئے کر رہا ہے تاکہ فلسطین میں جاری مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹائی جا سکے۔ علامہ مرید نقوی نے واضح کیا کہ انڈیا ہمارے ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا جو بھی پاکستان کی طرف میلی آنکھ دیکھے گا، سارے عوام اس کامقابلہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جب بنا تو تمام مکاتب فکر اکٹھے تھے۔ پھر بھی جب ملکی سلامتی کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم سب اپنے باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں، ہم مر جائیں گے کٹ جائیں گے، وطن عزیز کی سلامتی اور استحکام پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں امریکہ اور ترکی کی مدد سے ایسی حکومت قائم ہوئی ہے، جو ٹرمپ اور اسرائیل کیساتھ روابط قائم کر رہی ہے، اس حکومت کی ساری مدد ترکی اور باقی ممالک کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ادارے جب تک سیاست میں مداخلت کرینگے ملک ترقی نہیں کر سکتا، محمود اچکزئی
  • پہلگام واقعے میں ہمارے ہاتھ صاف ہیں، بھارت نے حملہ کیا تو بھرپور جواب ملے گا، عطا تارڑ
  • ادارے جب تک سیاست میں مداخلت کریں گے ملک ترقی نہیں کر سکتا، محمود اچکزئی
  • چراغ تلے اندھیرا، راوی ٹاؤن کے قریب تجاوزات کی بھرمار
  • بھارت پہلگام ڈرامہ فلسطین میں جاری مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے کر رہا ہے، علامہ مرید نقوی
  • مودی کو پاکستان اور آزادکشمیر کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھنے دیں گے ،وزیراعظم آزادکشمیر
  • سکول و کالج معمول کے مطابق کھلے ہیں‘کچھ تعلیمی ادارے ممکنہ حملے کے پیش نظر بند کیئے گئے ہیں. ترجمان آزادکشمیرحکومت
  • مولانا فضل الرحمان کا طالبان کیخلاف فوج کا ساتھ نہ دینے کے بیان کی ویڈیو
  • مولانا فضل الرحمان کی طالبان کیخلاف جنگ کی صورت میں فوج کا ساتھ نہ دینے کی دھمکی