مشہور امریکی فٹ ویئر برانڈز کا وائٹ ہاؤس سے ٹیرف استثنیٰ کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
واشنگٹن : ایسوسی ایشن آف یو ایس فٹ ویئر ڈسٹری بیوٹرز اینڈ ریٹیلرز نے رواں ہفتے وائٹ ہاؤس کو ایک خط ارسال کیا ،جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے عائد کیے جانے والے “مساوی ٹیرف” سے استثنیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق اس خط میں 76 فٹ ویئر برانڈز کے دستخط موجود ہیں، جن میں نائیکی، ایڈیڈاس، اسکیچرز اور انڈر آرمر جیسے بڑے برانڈز بھی شامل ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ مناسب قیمت کے جوتے تیار کرنے والی بہت سی کمپنیاں اتنے زیادہ ٹیرف کی متحمل نہیں ہو سکتیں اور یہ اخراجات کسٹمرز کو منتقل نہیں کر سکتیں۔ اگر ان محصولات کو فوری طور پر ختم نہ کیا گیا تو ان کمپنیوں کو کاروبار بند کرنا پڑے گا۔ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ بہت سے آرڈرز روک دیے گئے ہیں اور امریکی صارفین کے لئے جوتوں کے اسٹاک جلد ہی کم ہو سکتے ہیں۔
2 تاریخ کو امریکہ نے باضابطہ طور پر چین سے 800 ڈالر مالیت تک کے چھوٹے پیکجز کو محصولات سے مستثنیٰ قرار دینے کی پالیسی ختم کر دی ہے، جس کے نتیجے میں متعدد ممالک کے ریٹیلرز نے حال ہی میں امریکہ میں اپنے کاروبار کو ایڈجسٹ یا معطل کردیا ہے۔ اس اقدام نے کچھ ای کامرس پلیٹ فارمز کو اپنے لاجسٹکس سسٹم کی تنظیم نو، سامان کی قیمت میں اضافہ اور اعلی ٹیرف کے براہ راست اثرات سے بچنے کے لئے امریکہ میں مقامی گوداموں کی تعمیر میں تیزی لانے پر بھی مجبور کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ غیر ملکی برانڈز نے امریکہ کو شپنگ بند کر دی ہے جبکہ کچھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں نے امریکی مارکیٹ سے باہر نکلنے کا انتخاب بھی کر لیا ہے۔ بلومبرگ کے مطابق کچھ ای کامرس پلیٹ فارمز پر متعدد مصنوعات کی قیمتیں دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہیں اور صارفین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ڈلیوری میں تاخیر کی شکایت بھی کی ہے۔
مقامی میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے محقق کلارک پیکارڈ نے نشاندہی کی کہ یہ پالیسی بظاہر چین کے لیے سخت ہے لیکن درحقیقت وہ امریکی صارفین پر ٹیکس میں اضافے کے مترادف ہے،” اس کا مطلب ہے زیادہ قیمتیں اور سست لاجسٹکس ، اور پھر صارفین اس پالیسی کے باعث اضافی ادائیگی کرنے پر مجبور ہیں”۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔