آزادی صحافت ،جمہوریت ،شفاف حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے،عطا تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
اسلام آبا د(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 مئی2025ء)وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے عالمی یوم صحافت پر پیغام میں کہا ہے کہ آزادی صحافت جمہوریت، شفاف حکمرانی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے، پاکستان میں میڈیا نے جمہوریت کے استحکام، قانون کی بالادستی اور عوامی شعور کی بیداری میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا،وفاقی وزیر اطلاعات کا پاکستانی میڈیا کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بربریت، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور فلسطینی عوام پر اسرائیلی مظالم کو اجاگر کرنے میں موثر کردار ادا کرنے پر خراج تحسین کیا ہے،عالمی ضمیر کو جھنجوڑنے اور مظلوموں کی آواز عالمی فورمز تک پہنچانے میں صحافی برادری نے جراتمندانہ کردار ادا کیا،یہی وہ آزاد اور باشعور صحافت ہے جو انسانی ہمدردی اور حق گوئی کی اصل ترجمان ہوتی ہے،وفاقی وزیر اطلاعات نے بھارتی جارحانہ اقدامات پر میڈیا کے محتاط، ذمہ دارانہ اور قومی مفادات کو مقدم رکھنے کے رویئے کو سراہا،پاکستان کا میڈیا ریاستی موقف کو عالمی سطح پر موثر انداز میں اجاگر کر رہا ہے جو قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور قومی وحدت کے لئے نہایت اہم ہے،حکومت پاکستان آزادی اظہار رائے پر مکمل یقین رکھتی ہے،میڈیا کے تمام اداروں کو اپنا پیشہ ورانہ فریضہ آزادانہ طور پر انجام دینے کا حق حاصل ہے، آزادی اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کسی بھی جمہوری معاشرے کی پہچان ہے،حکومت صحافیوں کے تحفظ، فلاح و بہبود اور پیشہ ورانہ تربیت کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
(جاری ہے)
ایک ذمہ دار اور باخبر میڈیا ہی ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، حکومت آزادی صحافت کو یقینی بنانے اور میڈیا اداروں کے ساتھ تعمیری مکالمہ جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہے۔ *** 03-05-25/--12 #h# امریکہ میں بھارتی سفارت خانے کے باہر فرینڈز آف کشمیر کا احتجاج ،مظاہرے میں پاکستانی ، کشمیری ، اور سکھ کیمونٹی کی بڑی تعداد میں ،سخت نعرے بازی ،پلے کارڈز اور بینرز بھی اٹھا رکھے تھے پہلگام واقعہ مودی کا فالس فلیک آپریشن تھا، بھارتی حکومت اور بھارتی ایجنسیوں کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں،مقررین #/h# ا*واشنگٹن(آن لائن )واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے کے باہر فرینڈز آف کشمیر نے چیئرپرسن غزالہ حبیب کی قیادت میں شدید احتجاج کیا ہے ،مظاہرے میں پاکستانی ، کشمیری ، اور سکھ کیمونٹی کی بڑی تعداد نے شرکت کی ،مظاہرین کا مودی کے خلاف سخت نعرے بازی ،مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر مودی کے خلاف نعرے درج تھے ،مظاہرے میں سکھ فار جسٹس کے بلو ندر سنگھ چھٹا سمیت سکھوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھیں۔مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے غزالہ حبیب اور دیگر مقررین نے کہا کہ پہلگام واقعہ دراصل مودی کا فالس فلیک آپریشن تھا،ہم بھارتی حکومت اور بھارتی ایجنسیوں کی دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں ،دنیا جان گئی ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ حملے سے کس کو فائدہ ہوا،2000 میں بھارتی صدر بل کلنٹن کے دورے کے دوران بھی بھارتی ایجنسیوں نے قاتلانہ ڈرامہ رچایا تھا،اس دوران بھی 35 سکھوں کا قتل عام کرکے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا تھا ،پہلگام فالس فلیک آپریشن امریکی نائب صدر نے ڈی ونس کے دورہ بھارت کے دوران رچایا گیا جو بھارتی منصوبہ بندی تھی ،مودی نے ریاستی دہشت گردی کے زریعے تحریک آزادی کشمیر کے خلاف امریکی خارجہ پالیسی کو متاثر کرنے کی کوشش کی ،مودی حکومت نے تحریک آزادی کشمیر کو دہشت گردی کا لیبل لگا کر بدنام کرنے کی کوشش کی ،ہندوتوا حکومت کینیڈا ، امریکہ ، برطانیہ اور پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے ،پہلگام واقعہ کے تمام تر ثبوت و شواہد بھارتی حکومت کے خلاف جاتے ہیں ،پاکستان نہ پہلگام واقعے میں ملوث ہے اور نہ ہی پہلگام واقعے کا بینیفشری ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے خلاف
پڑھیں:
مسلح تنازعات میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 جون 2025ء) گزشتہ سال جنگوں میں انسانی حقوق کے محافظوں اور صحافیوں سمیت 48,384 شہریوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ مسلح تنازعات میں بچوں اور خواتین کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ 2023 اور 2024 کے درمیانی عرصہ میں جنگوں کے دوران 21,480 خواتین اور 16,690 بچے ہلاک ہوئے۔
ان میں 70 فیصد خواتین اور 80 فیصد بچوں کی ہلاکتیں غزہ میں ہوئیں۔ Tweet URLگزشتہ سال مسلح تنازعات میں انسانی حقوق کے 502 محافظ ہلاک اور 123 لاپتہ ہوئے۔
(جاری ہے)
ایسے بیشتر واقعات جن ممالک میں پیش آئے ان میں زیادہ تر مغربی ایشیا، شمالی افریقہ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں لاطینی امریکہ اور غرب الہند کے ممالک میں ہوئیں اور بیشتر متاثرین کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا۔ہلاک ہونے والوں میں خواتین کی تعداد 10 فیصد تھی تاہم انسانی حقوق کے لاپتہ ہونے والے کارکنوں میں ان کا تناسب 20 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
لاطینی امریکہ، غرب الہند، یورپ اور شمالی امریکہ میں ایسے واقعات کی تعداد دیگر خطوں کے مقابلے میں زیادہ رہی۔گزشتہ سال 82 صحافی ہلاک ہوئے جبکہ 2023 میں ان کی تعداد 74 فیصد تھی۔ ایسی بیشتر ہلاکتیں ایسے علاقوں میں ہوئیں جہاں مسلح تنازعات جاری ہیں۔بڑھتی ہوئی تفریقاقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ ایسے تمام اعدادوشمار کے پیچھے دردناک داستانیں ہیں۔
ان سے زمانہ امن و جنگ میں کمزور ترین لوگوں کو تحفظ کی فراہمی میں ناکامی کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور دنیا بھر میں حقوق کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔'او ایچ سی ایچ آر' کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک یا تفریق کی صورتحال میں بھی مزید بگاڑ آیا ہے اور ایسے لوگ اس مسئلے سے کہیں زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جو پہلے ہی پسماندہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جسمانی معذوری کا شکار تقریباً ایک تہائی (28 فیصد) لوگوں نے بتایا ہے کہ انہیں امتیازی سلوک کا سامنا ہو چکا ہے جبکہ جسمانی طور پر صحت مند افراد میں یہ شرح 17 فیصد ہے۔ صنفی بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنے والے خواتین کی تعداد مردوں سے دو گنا زیادہ ہے۔ تفریق غریب ترین گھرانوں کو بھی بری طرح متاثر کرتی اور غربت و نابرابری کے سلسلے کو دوام دیتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، 15 تا 29 سال عمر کے لوگوں نے بتایا کہ انہیں اپنی مہاجرت، نسل، مذہب اور جنسی میلان کی بنیاد پر تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ 60 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان سے عمر، معذوری اور طبی صورتحال کی بنا پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔
حقوق کے درست جائزے کا اہتماممضبوط اداروں اور معلومات کے حصول کا بہتر انتظام دستیاب ہونے کے نتیجے میں اب انسانی حقوق کے غیرجانبدار قومی ادارے (این ایچ آر آئی) دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی میں حقوق کی صورتحال کے بارے میں درست اطلاعات مہیا کرنے کے قابل ہیں۔
اس طرح اب 119 ممالک میں تفریق کے حوالے سے معلومات سامنے آئی ہیں جبکہ 2015 میں یہ تعداد 15 تھی۔ 32 فیصد 'این ایچ آر آئی' انسانی حقوق کے محافظوں پر حملوں کے حوالے سے معلومات جمع کر رہے ہیں۔وولکر ترک نے کہا ہے کہ امتیاز یا تفریق کوئی الگ واقعہ نہیں ہوتا بلکہ کئی طرح کی تفریق کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جسمانی معذور افراد ناصرف اپنی معذوری کی بنا پر امتیازی سلوک کا سامان کرتے ہیں بلکہ انہیں دیگر وجوہات کی بنا پر بھی تفریق کا نشانہ بنائے جانے کا امکان ہوتا ہے۔