امیتابھ بچن کی پُراسرار پوسٹوں کا راز کیا ہے؟ مداح الجھ کر رہ گئے
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
بالی ووڈ کے لیجنڈری اداکار امیتابھ بچن ہمیشہ اپنے منفرد انداز اور باقاعدہ سوشل میڈیا موجودگی کے لیے جانے جاتے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں ان کا ایک نیا طرزِ بیان سوشل میڈیا صارفین کو حیران کررہا ہے۔ نہ کوئی فلسفہ، نہ کوئی شاعری، اور نہ ہی کوئی ذاتی خیال… صرف ایک عدد اور ایک ڈیش۔
22 اپریل سے امیتابھ بچن کی ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ ہونے والی ٹوئٹس میں صرف اتنا لکھا جارہا ہے: T 5356 – ، T 5357 -، اور یہ سلسلہ روز جاری ہے۔ جہاں پہلے وہ اپنی ہر ٹوئٹ میں کسی نہ کسی تجربے، واقعے یا جذباتی لمحے کو سمیٹتے تھے، اب ان کی تحریریں محض نمبروں تک محدود ہو گئی ہیں۔
یہ خاموشی محض خاموشی نہیں، بلکہ ایک معمہ بن چکی ہے۔ مداحوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ کچھ اسے پہلگام واقعے پر ان کا خاموش احتجاج قرار دے رہے ہیں، تو کچھ اسے کسی فلم کی پروموشن کےلیے چالاکی سے چھیڑا گیا سسپنس قرار دے رہے ہیں۔
ایک مداح نے شکوہ کرتے ہوئے لکھا، ’’سر! کیا اب کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں؟‘‘ جبکہ دوسرے نے سوال کیا، ’’کیا یہ کسی نئی فلم کا پروموشن ہے؟‘‘
کچھ صارفین تو یہاں تک چلے گئے کہ امیتابھ بچن کے ارادوں کو سمجھنے کے لیے ’ایکس‘ کے AI چیٹ بوٹ ’گروک‘ سے مدد لینے لگے۔ مداحوں کی اس بے چینی کے پیچھے شاید اس بات کا بھی ہاتھ ہے کہ حال ہی میں امیتابھ نے شکوہ کیا تھا کہ اُن کی ساری کوششوں کے باوجود فالوورز کی تعداد 49 ملین سے نہیں بڑھ پا رہی۔
ان کے اس شکوے پر مداحوں نے دلچسپ مشوروں سے ان کا حوصلہ بڑھایا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ وہ انسٹاگرام ریلس بنائیں، تو کسی نے مذاق میں تجویز دی کہ ریکھا کے ساتھ سیلفی پوسٹ کردیں، تو فالوورز کی تعداد خودبخود بڑھ جائے گی۔
پیشہ ورانہ محاذ پر بات کی جائے تو امیتابھ بچن ایک بار پھر ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کے 17ویں سیزن میں میزبان کے طور پر واپس آ رہے ہیں۔ 2000 سے جاری اس شو میں ان کی موجودگی ہمیشہ ناظرین کو سحر میں جکڑ لیتی ہے، سوائے تیسرے سیزن کے جب میزبان کی کرسی پر شاہ رخ خان بیٹھے تھے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا امیتابھ بچن کی یہ خالی ٹوئٹس کسی بڑے اعلان کا پیش خیمہ ہیں یا واقعی کسی خاموش احتجاج کا حصہ؟ فی الحال، سوشل میڈیا پر بس ایک سوال گونج رہا ہے: ’’T کے بعد آخر ہے کیا؟‘‘
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: امیتابھ بچن رہے ہیں
پڑھیں:
بھارتی فلمساز طیارہ حادثے کے بعد سے پُراسرار طور پر لاپتا
بھارت میں ائیر انڈیا کی پرواز AI-171 کے اندوہناک حادثے کے بعد معروف فلم ساز مہیش کلاوڈیا المعروف مہیش جیراوالا لاپتا ہوگئے جوکہ حادثے کے وقت نزدیکی علاقے میں موجود تھے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق مہیش جیراوالا کا موبائل فون حادثے کے مقام سے صرف 700 میٹر کی دوری پر آخری بار متحرک پایا گیا تھا، اُن کے اہلِ خانہ نے ان کے لاپتا ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے ڈی این اے نمونے حکام کو جمع کرا دیے ہیں۔
یہ حادثہ 12 جون بروز جمعرات کی دوپہر پیش آیا تھا جب طیارہ سردار ولبھ بھائی پٹیل انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے 1:39 بجے پرواز بھرنے کے کچھ ہی لمحوں بعد میگھن نگر کے ایک میڈیکل کالج کے احاطے میں گر کر تباہ ہو گیا۔
طیارے میں سوار 242 میں سے 241 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جبکہ زمین پر موجود مزید 29 افراد بھی جہاز گرنے اور ملبے تلے دبنے سے جان کی بازی ہار گئے۔
فلمساز مہیش کلاوڈیا، جو نروڈا کے رہائشی تھے اور میوزک البمز کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتے تھے، وہ جمعرات کے روز لاء گارڈن کے علاقے میں کسی سے ملاقات کے لیے گئے تھے۔
ان کی اہلیہ ہیتل نے بتایا کہ ‘میرے شوہر نے دوپہر 1:14 پر مجھے فون کر کے بتایا کہ ان کی ملاقات ختم ہو گئی ہے اور وہ گھر واپس آ رہے ہیں لیکن جب وہ وقت پر گھر نہیں پہنچے اور ان کا فون بند آنے لگا تو مجھے تشویش ہوئی، پولیس کو اطلاع دی گئی تو ان کے موبائل کی آخری لوکیشن کریش سائٹ سے صرف 700 میٹر کے فاصلے پر ظاہر ہوئی’۔
ہیتل نے مزید کہا کہ ان کے شوہر کا فون تقریباً 1:40 پر بند ہو گیا تھا، یعنی عین اسی وقت جب طیارہ پرواز بھر چکا تھا، ان کی اسکوٹر اور موبائل فون دونوں غائب ہیں۔
اہلیہ نے شُبہ ظاہر کیا کہ ‘معاملہ کچھ غیرمعمولی لگ رہا ہے، کیونکہ میرے شوہر عام طور پر اس راستے سے کبھی گھر نہیں آتے تھے، ہم نے ڈی این اے سیمپل جمع کرا دیے ہیں تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ آیا وہ حادثے میں زمین پر ہلاک ہونے والوں میں شامل تو نہیں’۔
طیارے کے حادثے میں کئی لاشیں ناقابلِ شناخت حد تک جل چکی ہیں یا بری طرح متاثر ہوئی ہیں، جس کے باعث حکام متاثرین کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کا سہارا لے رہے ہیں۔
سانحے کے تین دن بعد اسپتال حکام نے اتوار کے روز تصدیق کی کہ 47 افراد کی شناخت ڈی این اے میچنگ کے ذریعے ہو چکی ہے، جن میں سے 24 لاشیں ورثا کے حوالے بھی کر دی گئی ہیں، حکام کی جانب سے متاثرین کی شناخت کا عمل تیزی سے جاری ہے۔
Post Views: 4