اندرون سندھ، تیز آندھی اور مٹی کے طوفان کی تباہی، 2 افراد ہلاک، متعدد علاقے متاثر
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
اندرون سندھ کے مختلف شہروں میں گزشتہ روز تیز آندھی اور مٹی کے طوفان نے تباہی مچا دی، جس کے نتیجے میں 2 افراد ہلاک اور کئی علاقوں میں وسیع پیمانے پر نقصان ہوا۔
طوفان نے نوشہروفیروز، شاہ پورچاکر، حیدرآباد اور سانگھڑ سمیت متعدد علاقوں کو متاثر کیا، جہاں درخت اکھڑ گئے، سولر پلیٹیں تباہ ہو گئیں اور بجلی کے نظام کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
نوشہروفیروز شہر اور گرد و نواح میں تیز طوفان کے سبب کئی درخت اکھڑ گئے اور سولر پلیٹیں بھی درجنوں کی تعداد میں اڑ گئیں۔
طوفان کے ساتھ آسمانی بجلی کی گرج سے علاقے میں لال رنگ کی روشنی پھیل گئی جس سے شہریوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔
اسی دوران، نوشہروفیروز کے پڈعیدن شہر میں ایک گھر کی دیوار گرنے سے ارشد ملک نامی شخص ہلاک ہوگیا۔
نوشہروفیروز کے گاؤں بھائی خان ببر میں طوفان کے سبب آگ لگنے سے ایک درجن سے زائد کچے گھر جل کر خاکستر ہو گئے۔
آگ نے گھریلو سامان کو بھی تباہ کر دیا۔ گاؤں کے مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت آگ کو مزید پھیلنے سے روک لیا، فائربریگیڈ کی گاڑی دیر سے پہنچی۔
سانگھڑ ضلع کے مختلف شہروں میں تیز ہواؤں کے ساتھ مٹی کا طوفان آیا جس کے سبب بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی۔
دکانوں کے چھپرے اڑ گئے اور سولر پلیٹوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ شہریوں نے طوفان سے بچنے کے لیے اپنے گھروں میں پناہ لی۔
محراب پور کے گاؤں کوٹ بہادر میں طوفانی ہواؤں سے ایک گھر کی چھت گرنے کے نتیجے میں 30 سالہ سنبل خاتون جاں بحق ہو گئی۔ پولیس کے مطابق، گاؤں میں دیگر جانی و مالی نقصان کا بھی سامنا ہوا ہے۔
حیدرآباد میں بھی تیز طوفان اور بارش کے دوران شہر کے مختلف علاقوں میں بجلی بند ہوگئی۔
حیسکو ترجمان نے بتایا کہ شدید آندھی اور مٹی کے طوفان کے سبب حیسکو ریجن کے 79 فیڈر ٹرپ کر گئے، جس کے نتیجے میں بجلی کی فراہمی متاثر ہوئی۔
شہر کے متعدد علاقے بجلی سے محروم ہوگئے اور کچھ علاقوں میں پانی کی فراہمی میں بھی مشکلات پیش آئیں۔
شاہ پورچاکر میں بھی تیز ہوائیں اور مٹی کا طوفان زور و شور سے جاری رہا، جس کے ساتھ ہلکی بارش کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ علاقے میں بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی فراہمی طوفان کے بجلی کی اور مٹی کے سبب ہو گئی
پڑھیں:
راولپنڈی کی تباہی میں اسلام آباد کتنا ذمہ دار؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2025ء) راولپنڈی میں حالیہ برساتی تباہی اور سیلابی صورتحال کے جائزے کے لیے ڈی ڈبلیو نے مقامی حکام سے رابطہ کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ گو کہ راولپنڈی کے مقامی سقم تو اپنی جگہ وفاقی دارلحکومت میں سیورج کا تباہ حال نظام بھی راولپنڈی کی تباہی میں ایک بڑا حصہ ڈال رہا ہے۔
شہری انتظام کے ماہرین کے مطابق، حالیہ بارشوں کے دوران راولپنڈی کے نالہ لئی کا پانی 18 فٹ کی سطح تک پہنچ گیا جس سے قریبی آبادیوں کو نقصان پہنچا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسلام آباد کی جانب سے راولپنڈی میں شہری سیلاب میں بڑا حصہ نہ ڈالا جاتا تو نالہ لئی کی سطح شاید 10 فٹ تک بھی نہ پہنچتی۔(جاری ہے)
ڈاکٹر سندھو، جو سی ڈی اے میں ڈائریکٹر جنرل سول انتظامیہ کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ راولپنڈی کی انتظامیہ نالہ لئی کے پانی کے گزرنے کا راستہ محفوظ بنانے میں ناکام رہی ہے، کیونکہ نالہ لئی کے کئی مقامات پر پانی کے اخراج کے راستے غیر قانونی تعمیرات اور کوڑا کرکٹ پھینکنے کی وجہ سے تنگ ہو گئے ہیں۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام آباد بھی راولپنڈی میں شہری سیلاب کی صورتحال کو بڑھا رہا ہے، کیونکہ اسلام آباد سے بغیر صاف کیے گئے سیوریج کا پانی نالہ لئی میں چھوڑا جاتا ہے، جو جڑواں شہروں سے پانی کے نکاسی کا واحد ذریعہ ہے۔ اسلام آباد شہر کے نکاسی آب کا کیا بندوبست ہے؟یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسلام آباد میں پانچ بڑے قدرتی نالے موجود ہیں جن کے نام سیدپور، بیداں، تانواں، نکی لئی اور کنات نالہ ہیں اور یہ تمام نالے آخرکار نالہ لئی سے آ کر ملتے ہیں جو راولپنڈی کے گنجان آباد علاقوں سے گزرتا ہے۔
اسلام آباد کے تمام قدرتی نالے کبھی صرف بارش کے پانی اور آس پاس کی پہاڑیوں سے آنے والے پانی کے نکاس کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ اسلام آباد نے آئی نائن کے علاقے میں ایک سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ تعمیر کیا تھا، جو راولپنڈی اور نالہ لئی کے قریب واقع ہے۔ اسلام آباد شہر کا تمام گندا پانی اس پلانٹ تک پہنچایا جاتا تھا اور صفائی کے بعد اس صاف شدہ پانی کو نالہ لئی میں چھوڑا جاتا تھا۔سرور سندھو کا کہنا ہے کہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ تاحال فعال ہے، تاہم وقت کے ساتھ انتظامیہ نے جہاں کہیں سیوریج لائن میں رکاوٹ آئی، وہاں لائن کو توڑ کر گندا پانی براہ راست اسلام آباد کے قدرتی نالوں میں ڈال دیا۔ اس کے نتیجے میں یہ نالے آلودہ ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ اب اسلام آباد کا تقریباً چالیس فیصد سیوریج بغیر کسی ٹریٹمنٹ کےبراہِ راست قدرتی نالوں میںڈالا جا رہا ہے، جو اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں کے نالوں میں پانی کی سطح بلند ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
لیکن سرور سندھو کا کہنا تھا، ''راولپنڈی کی انتظامیہ کو بھی اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے کہ وہ اپنے فرائض میں کوتاہی برت رہی ہے۔ اگر دونوں شہروں میں چند سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس لگا دیے جائیں تو یہ نالے صاف پانی سے بہہ سکتے ہیں۔
اگرچہ وہ پینے کے قابل نہیں ہوں گے، لیکن کم از کم آلودہ بھی نہیں ہوں گے جیسا کہ اب ہیں۔"
کیا راولپنڈی اور اسلام آباد شہر کو قدرتی آفات کا سامنا ہے؟کچھ عرصے سے یہ رجحان بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ جب بھی شہر کے کسی حصے میں سیلاب آتا ہے تو انتظامیہ اسے ''کلاؤڈ برسٹ‘‘ قرار دے دیتی ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں کافی عرصے سے کوئی کلاؤڈ برسٹ نہیں ہوا، اور انتظامیہ محض اپنی نااہلی کا ملبہ قدرتی آفات پر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔واٹر مینجمنٹ کے ایک ماہر نصیر میمن کہتے ہیں، ''پاکستان میں ہم قدرتی آفت نہیں بلکہ انتظامی آفت کا سامنا کر رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں پورے ملک میں یا راولپنڈی اور اسلام آباد شہر میں ایسی کوئی قدرتی آفت نہیں آئی جس سے بچا نہ جا سکتا ہو، یہ سب انتظامی ناکامیاں ہیں۔
‘‘نصیر میمن کا کہنا تھا کہ انتظامیہ میں اصلاح کی نیت کی کمی صرف راولپنڈی ہی کے لیے مسئلہ نہیں، کچھ عرصے سے اسلام آباد بھی متاثر ہو رہا ہے اور وقتاً فوقتاً بعض علاقوں میں سیلابی صورتحال کے باعث تباہی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ حالیہ بارشوں کے دوران سیدپور گاؤں بھی قدرتی نکاسیٔ آب کے نالوں میں پانی کے بہاؤ بڑھنے سے متاثر ہوا۔