کل جماعتی حریت کانفرنس کا تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
حریت ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے اسی طرح لڑ رہے ہیں جس طرح ماضی میں ڈوگرہ دور میں سیاسی اور معاشی غلامی کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دیرینہ تنازعہ کشمیر کا پرامن حل کے لئے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ 77سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود تنازعے کا حتمی حل نہیں نکالا جا سکا جبکہ اس عرصے کے دوران بھارت اور پاکستان کئی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ انہوں نے کشمیری عوام کی امنگوں اور خواہشات کا احترام کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے تنازعے کے پرامن حل کے لئے فریقین کے درمیان مذاکرات میں تعاون کے حریت کانفرنس کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے بی جے پی کی بھارتی حکومت اور اس کی مسلط کردہ انتظامیہ کی نفرت انگیز سیاست اور 5 اگست 2019ء کے غیر قانونی اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یکطرفہ تبدیلیوں نے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 1993ء میں حریت کانفرنس کا قیام لوگوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق تنازعہ جموں و کشمیر کو پرامن اور جمہوری طور پر حل کرنے کے لئے ایک سیاسی اقدام تھا جس کا وعدہ اقوام متحدہ کی قرارداد میں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی جدوجہد انصاف، امن، سیاسی حقوق اور شناخت کے لیے ہے، ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے اسی طرح لڑ رہے ہیں جس طرح ماضی میں ڈوگرہ دور میں سیاسی اور معاشی غلامی کے خلاف جدوجہد کی تھی۔ حریت ترجمان نے کہا کہ اگست 2019ء کے بعد متنازعہ علاقے کو یونین ٹریٹوریز میں تقسیم کر دیا گیا اور تمام وسائل، حقوق، شناخت اور معیشت کو چھین لیا گیا جبکہ مسلح افواج کے علاوہ پورے علاقے میں باہر کے لوگ جن میں زیادہ تر بی جے پی اورر ایس ایس سے وابستہ ہیں، سول اور پولیس کے اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر دیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو بے اختیار کر دیا گیا جو کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ کشمیری کسی فرد یا جماعت کے خلاف نہیں بلکہ ناانصافی اور قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنازعہ کشمیر بین الاقوامی فورمز پر موجود ہے اور علاقے میں جنگ جیسی سنگین صورتحال پائی جاتی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ تنازعہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں اور اپنی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ حریت کانفرنس کے مطابق کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
وقف سیاہ قانون کے ختم ہونے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رہیگی، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے کہا کہ یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) قانون 2025 کو منسوخ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ حالانکہ عدالت نے وقف قانون کی کچھ دفعات پر جزوی ترمیم اور ایک پر مکمل طور سے روک لگا دی ہے۔ اس فیصلے پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فوری ردعمل میں کہا ہے کہ ’’انصاف اب بھی زندہ ہے‘‘۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق اپنا یہ اطمینان ظاہر کیا ہے۔
اس پوسٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کرتی ہے۔ اس عبوری راحت نے ہماری اس امید کو یقین میں بدل دیا ہے کہ انصاف اب بھی زندہ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ جمعیۃ علماء ہند اس سیاہ قانون کے ختم ہونے تک اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھین لینے کی ایک آئین مخالف سازش ہے، اس لئے جمعیۃ علماء ہند نے وقف قانون 2025 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس سیاہ قانون کو ختم کر کے ہمیں مکمل آئینی انصاف فراہم کرے گا۔ قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے آج وقف (ترمیمی) قانون 2025 کی کچھ دفعات پر روک لگا دی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے وقف کرنے کے لئے 5 سال تک اسلام پر عمل کرنا لازمی قرار دینے والے التزام پر اس وقت تک روک لگا دی ہے جب تک کہ متعلقہ ضابطہ قائم نہیں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ اب کلکٹر کو جائیداد تنازعہ پر فیصلہ لینے کا حق نہیں ہوگا۔ اپنے عبوری فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ریاستی وقف بورڈ میں 3 سے زائد غیر مسلم رکن نہیں ہونے چاہئیں، جبکہ مرکزی وقف بورڈ میں 4 سے زائد غیر مسلم اراکین نہیں ہوں گے۔