جدید مغربی معاشرے کے لیے دینی مدارس کا پیغام
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
دینی مدارس کے حوالے سے اس وقت یہ صورت حال ہمارے سامنے ہے کہ ایک طرف دینی مدارس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور نئی دینی درس گاہیں قائم ہو رہی ہیں اور دوسری طرف دینی مدارس کی مخالفت عالمی سطح پر بڑھتی جا رہی ہے۔ اس مدرسہ کو انسان کی تہذیبی پیش رفت میں رکاوٹ قرار دیا جا رہا ہے، سولائزیشن کا دشمن بتایا جا رہا ہے اور بلند آہنگی کے ساتھ یہ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ یہ مدرسہ تہذیب وتمدن کے لیے خطرہ ہے، سولائزیشن اور نسل انسانی کی ثقافتی پیش رفت کے لیے خطرہ ہے اور موجودہ عالمی سسٹم کے لیے خطرہ ہے، اس لیے اسے ختم کیا جائے یا کم از کم اس کے جداگانہ تشخص، کردار، آزادی اور خود مختاری کو محدود کر دیا جائے۔ میں اس پس منظر میں آج کی اس محفل میں صرف ایک پہلو پر مختصراً کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ وہ لوگ جو اس مدرسہ کی مخالفت میں پیش پیش ہیں اور اسے بند کرنے کے درپے ہیں، ان سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تم انصاف کی نظر سے دیکھو تو یہ مدرسہ خود تمہاری ضرورت بھی ہے اور پوری نسل انسانی کو اس کی ضرورت ہے۔ میری اس گزارش کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو اس دینی مدرسہ کے مخالف ہیں اور خاص طور پر ویسٹرن سولائزیشن کے علم برداروں اور مغربی تہذیب وثقافت کی نمائندگی کرنے والے دانش وروں سے عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ یہ دینی درس گاہ تمہاری ضرورت بھی ہے، جو کچھ یہ مدرسہ پڑھا رہا ہے اور جن علوم کو یہ تاریخ کی دست برد سے محفوظ رکھے ہوئے ہے، اس کی مستقبل میں تمہیں بھی ضرورت پڑ سکتی ہے بلکہ ضرورت پڑے گی اس لیے تم اس کی ضرورت سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔
تم نے اب سے دو تین سو برس قبل یورپ میں اہل مذہب کے ظالمانہ کردار سے تنگ آکر اس کے رد عمل میں مذہب کا طوق گردن سے اتار دیا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ اب سے تین صدیاں قبل یورپ میں اہل مذہب کا کردار کیا تھا اور کس طرح انہوں نے پورے معاشرے کو اپنے ظالمانہ کردار کے شکنجے میں کسا ہوا تھا اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اسی کے رد عمل میں تم نے مذہب سے پیچھا چھڑانے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ تم اہل مذہب کی مخالفت میں خود مذہب کے خلاف انتہا پر چلے گئے اور تم نے کہا کہ اب انسانی سوسائٹی بالغ ہو گئی ہے اور اپنے فیصلے خود کر سکتی ہے، اس لیے انسان کو باہر سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں ہے اور آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی پابندی کا دور گزر گیا ہے اس لیے اب ہم اپنے معاملات خود طے کریں گے، انسانی سوسائٹی اپنے فیصلے خود کرے گی اور کسی بیرونی ہدایت کے بغیر اپنا نظام خود چلائے گی۔ تم نے اس فلسفے پر ایک نیا نظام تشکیل دیا، ایک نیا کلچر پیش کیا اور پھر اسے پوری دنیا پر مسلط کرنے کے لیے ہر طرف چڑھ دوڑے۔
لیکن تین صدیوں کے بعد آج تمہاری اس تگ ودو کے نتائج سامنے آ رہے ہیں تو تم خود پریشانی کا شکار ہو گئے ہو، آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی راہ نمائی سے بے نیاز ہو کر آج انسانی سوسائٹی فکری انتشار، تہذیبی انارکی اور افراتفری کی انتہا کو پہنچ گئی ہے اور تمہاری دانش گاہیں خود اس مقام سے واپسی کی راہیں ڈھونڈ رہی ہیں۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم جان میجر نے اس نعرہ پر باقاعدہ مہم چلائی کہ ’’Back to Basics‘‘ (بنیادوں کی طرف واپسی) کی ضرورت ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے بنیاد پرستی کو طعنہ بنا دیا گیا ہے اور اہل مغرب خود بنیادوں کی طرف واپسی کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے بی بی سی پر کئی لیکچر دیے اور کہا کہ ہم نے صرف عقل کو معیار قرار دے کر ٹھوکر کھائی ہے اور ہم نسل انسانی کو نقصان کی طرف لے جا رہے ہیں اس لیے ’’وجدان‘‘ کی طرف واپسی کی ضرورت ہے۔ برطانوی شہزادے نے ’’وجدان‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے جو ابتدائی مرحلہ ہے۔ اس کے بعد وحی اور الہام ہی کی بات آئے گی۔ جبکہ ممتاز روسی لیڈر اور دانش ور گوربا چوف نے کھلے بندوں اعتراف کیا کہ ہم نے عالمی جنگ کے بعد دفتروں اور کارخانوں میں افرادی قوت کے خلا کو پر کرنے کے لیے عورت کو بہکا کر گھر سے نکالا جس سے ہمارا فیملی سسٹم تباہ ہو گیا ہے اور اب ہمیں عورت کو دوبارہ گھر میں لے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔
ان باتوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مغرب کے دانش وروں کی سوچ کا رخ کیا ہے اور وہ موجودہ صورت حال سے کس قدر پریشان ہیں۔ اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی رہنمائی سے پیچھا چھڑا کر نسل انسانی نے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا بلکہ نقصان سے دوچار ہوئی ہے اور انسانی سوسائٹی کو اس نئے فلسفے اور کلچر نے اخلاقی انارکی اور ذہنی خلفشار کے سوا کچھ نہیں دیا چنانچہ مغرب کی دانش گاہوں میں اس بات پر غور شروع ہو چکا ہے کہ یہاں سے واپسی کا راستہ کیا ہے اور انسانی سوسائٹی کو اس دلدل سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔
مغرب کے اہل دانش سے میرا سوال ہے کہ جس ’’وجدان‘‘ اور ’’بنیادوں‘‘ کی طرف واپسی کی تم بات کر رہے ہو، اگر تم نے اس کا فیصلہ کر لیا اور تمہارے پاس اب اس فیصلے کے سوا کوئی اور ’’چوائس‘‘ باقی بھی نہیں رہا تو یہ بنیادیں تمہیں ملیں گی کہاں سے؟ اور عقل انسانی کے لیے بیرونی راہ نمائی یا دوسرے لفظوں میں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کا یہ سودا تم آخر کس دکان سے حاصل کر سکو گے؟ یہ ’’جنس‘‘ آج مسلمانوں کے سوا کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں کے پاس آسمانی تعلیمات کا کوئی قابل اعتماد ذخیرہ موجود ہے۔ یہ سعادت صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ ان کے پاس نہ صرف قرآن کریم اصلی حالت میں محفوظ وموجود ہے بلکہ قرآن کریم کی تشریحات وتعبیرات میں حضرت محمد رسول اللہ ا کی تعلیمات بھی تمام تر جزئیات وتفصیلات کے ساتھ موجود ہیں
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ا سمانی تعلیمات انسانی سوسائٹی کی طرف واپسی وحی ال ہی کی ضرورت ہے اور ا ہے کہ ا کے لیے رہا ہے اس لیے
پڑھیں:
مدبر سیاستدانوں کی ضرورت
1971 پاکستان کی تاریخ کا ہنگامہ خیز سال تھا۔ حکمران جنرل یحییٰ خان نے انتخابات شفاف کرائے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے قطعی اکثریت حاصل کرلی۔ سندھ اور پنجاب سے پیپلزپارٹی، بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے اکثریت حاصل کر لی۔
جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1971میں ڈھاکا میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا۔ جنرل یحییٰ خان اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو عوامی لیگ کو مکمل اقتدار دینے پر تیار نہیں تھے، اس بناء پر پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ میں آئین کے بارے میں کوئی سمجھوتہ نہ ہوا۔ جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا۔
عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔ جنرل یحییٰ خان نے لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقررکیا اور مشرقی پاکستان میںآپریشن شروع ہوا۔ نومبر 1971کے آخری ہفتے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کا اختتام 16 دسمبر 1971کو ریس کورس گراؤنڈ ڈھاکا میں ہوا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور ملک کے صدر بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو جدید ڈپلومیسی کے عالمی شہرت یافتہ ماہرین میں شمار ہوتے تھے، یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی شروع ہوئی۔ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے معاونین میں عزیز احمد نمایاں شخصیت تھے۔ وہ طویل عرصہ وزارت خارجہ کے سیکریٹری رہے۔ انھیں خارجہ اور دفاعی امورکا وزیر مملکت بنایا گیا۔ بھٹو صاحب کی آخری کابینہ میں عزیز احمد پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے۔
عزیز احمد کا شمار پاکستان کے بہترین سفارت کاروں میں ہوتا تھا۔ بھارت کے تجربہ کار سیاستدان سورن سنگھ بھارت کے وزیر خارجہ تھے۔ بھارتی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کے معاونین میں سے ایک Durea Prasad Dhar شامل تھے، ڈی پی دھرکا تعلق کشمیر سے تھا۔ انھوں نے کشمیر ی رہنما شیخ عبداللہ کی قیادت میں کشمیرکو ڈوگرہ راج سے نجات دلانے کی تحریک میں حصہ لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈی پی دھر نے 1947 میں پاکستان اور بھارت کی جنگ میں بھارتی فوج کی خاصی مدد کی تھی۔ ڈی پی دھر کے بارے میں یہ بھی تحریرکیا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں بھارت کی فوجی مداخلت اور بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کی خارجہ پالیسی کے بانی شمار کیے جاتے تھے، یوں دونوں ممالک کے سینئر سفارت کاروں اور سیاست دانوں کی کوششوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان رابطے بحال ہوئے۔
بھارت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے پاکستان کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کو بھارت آنے کی دعوت دی اور مذاکرات کا مقام ہما چل ریاست کے صدر مقام شملہ طے پایا۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ جانے سے پہلے حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں کو اعتماد میں لیا۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں ولی خان، مفتی محمود، غوث بخش بزنجو وغیرہ نے بھٹو صاحب کے اس مشن کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا، یوں صدرذوالفقار علی بھٹو ایک وفد کے ہمراہ شملہ گئے۔
اس وفد میں بھٹو صاحب کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو بھی شامل تھیں، یہ بے نظیر بھٹوکی پہلی دفعہ کسی عوامی تقریب میں شرکت تھی۔ وہ اس وقت برطانیہ میں زیرِ تعلیم تھیں۔ اس وقت کے اخبارات میں شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق 28 جون سے 2 جولائی 1972تک شملہ میں مذاکرات ہوئے۔ برطانوی خبررساں ایجنسی بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر وائرل ہونے والی ایک رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے مرحلے میں دونوں ممالک کی مذاکراتی ٹیمیں کسی فیصلے پر متفق نہ ہوسکیں اور صحافیوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔
ایک صحافی نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا تھا کہ تمام لوگوں نے واپسی کے لیے اپنا سامان پیک کر لیا تھا کہ رات گئے، یہ پیغام ملا کہ صحافی راج بھون پہنچ جائیں۔ اس صحافی نے لکھا کہ راج بھون میں ذوالفقارعلی بھٹو اور مسز اندرا گاندھی ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے مذاکرات کے بعد فیصلہ ہوا کہ معاہدہ ہوگا اور ابھی ہوگا، یوں دونوں رہنماؤں نے رات 12 بج کر 40 منٹ پر معاہدے پر دستخط کیے۔ دونوں رہنماؤں کے پاس اس وقت قلم بھی نہیں تھا۔ کسی صحافی نے معاہدے پر دستخط کے لیے قلم فراہم کیا۔
اس معاہدے کے خاص خاص نکات یہ تھے۔ اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں اور مقاصد کے تحت دونوں ممالک کے درمیان تعلقات استوار ہوں گے۔ دونوں ممالک اپنے باہمی اختلافات کو پرامن طریقے سے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے پرعزم ہیں یا کسی دوسرے پرامن طریقے سے جس پر ان کے درمیان باہمی اتفاق ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی مسئلے کے حتمی تصفیے تک کوئی بھی فریق یکطرفہ طور پر صورتحال کو تبدیل نہیں کرے گا اور دونوں ممالک، امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے نقصان دہ کارروائیوں میں ملوث تنظیموں کی مدد یا حوصلہ افزائی کو روکیں گے۔
مفاہمت، اچھی ہمسائیگی اور پائیدار امن کے لیے دونوں ممالک ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت اور خود مختاری کے احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے پر امن بقائے باہمی کا عہد کرتے ہیں۔ نیز بنیادی مسائل اور تنازعات کے اسباب جنھوں نے گزشتہ 25 برسوں سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بگاڑ پیدا کیا ہے، ان کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے گا۔
دونوں ممالک، ہمیشہ ایک دوسرے کی قومی یکجہتی، علاقائی سالمیت، سیاسی آزادی اور خود مختاری کا احترام کریں گے۔ اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق، ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت یا آزادی کے خلاف دھمکیوں اور طاقت کے استعمال سے پرہیز کریں گے۔ دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گی۔ دونوں ممالک ایسی معلومات کی ترسیل کی حوصلہ افزائی کریں گے جس سے ان کے درمیان دوستانہ تعلقات کو فروغ ملے گا۔
’’ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ مواصلات، ڈاک، ٹیلی گرافک، سرحدی چوکیوں سمیت، سمندری، زمینی اور فضائی رابطوں کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ دونوں ممالک کے شہریوں کے لیے سفری سہولیات کو فروغ دینے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں گے۔ جہاں تک ممکن ہو سکے اقتصادی اور تجارتی تعاون کو دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ سائنس اور ثقافت کے شعبوں میں بھی تعاون کو فروغ دیا جائے گا۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے وفود گاہے بگاہے ملاقات کر کے ضروری تفصیلات طے کریں گے۔‘‘ پائیدار امن کے قیام کے عمل کو شروع کرنے کے لیے دونوں حکومتیں متفق ہیں کہ بھارتی اور پاکستانی افواج کو مقبوضہ علاقوں سے واپس بین الاقوامی سرحدوں پر بلا لیا جائے گا۔
جموں اورکشمیر میں 17 دسمبر 1971 کی جنگ بندی کے نتیجے میں لائن آف کنٹرول کا بلا تعصب احترام کیا جائے گا۔ کوئی بھی فریق باہمی اختلافات اور قانونی تشریحات سے قطع نظر یکطرفہ طور پر اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ فریقین، اس لائن کی خلاف ورزی میں دھمکی یا طاقت کے استعمال سے باز رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ مقبوضہ علاقوں سے فوجوں کی واپسی اس معاہدے کے نافذ العمل ہونے کے 30 دنوں کے اندر مکمل ہو جائے گی۔
اس معاہدے کی بنیاد پر 28 اگست 1973کو پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدہ کے تحت پاکستان کے 90 ہزار فوجی بھارت نے رہا کردیے۔ پہلگرام میں ہونے والی دہشت گردی اور 26 بے گناہ افراد کے قتل کے بعد پاکستان اور بھارت میں تعلقات انتہائی پست سطح تک دھکیل دیے گئے ہیں۔ کبھی کبھی دونوں طرف کے میڈیا کے بیانیے سے محسوس ہوتا ہے کہ جنگ قریب ہے۔
پاکستان اور بھارت میں ڈیڑھ ارب کے قریب لوگ آباد ہیں۔ دونوں ممالک میں غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد شمار نہیں ہوئی۔ دونوں ممالک میں محدود جنگ ہو یا طویل جنگ جیسی صورتحال یہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے خطرناک ہے۔ اس وقت شملہ معاہدہ پر اتفاق کرنے والے جیسے مدبر سیاستدانوں کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کی قیادت براہِ راست مذاکرات کرے ۔ دونوں ملکوں میں ہونے والی دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لیے حقیقی لائحہ عمل طے ہونا چاہیے۔