سٹی 42 : سابق وزیر ابراہیم مراد نے کہا ہے کہ بھارت کا سندھ طاس معاہدے سے انحراف کھلی آبی دہشتگردی ہے ۔ 

 ابراہیم مراد نے اپنے بیان میں کہا کہ معاہدے کی خلاف ورزی خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے، بھارت پانی کو ہتھیار بنا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی جارحیت سے کروڑوں پاکستانیوں کی زندگی، زراعت اور معیشت متاثر ہوگی ۔ 

پورٹل میں خامیاں،سینکڑوں پرائیوٹ سکولوں کو رجسٹریشن جاری نہ ہوسکی

انہوں نے مزید کہا کہ عالمی برادری بھارتی آبی دہشتگردی کی فوری مذمت کرے، پاک فوج بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گی، قوم اس مشکل وقت میں پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے ۔ 

.

ذریعہ: City 42

پڑھیں:

دو تنازعات، ایک ایجنڈا، مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت

دنیا طاقت، سازشوں اور مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ انہی عوامل کی روشنی میں مئی اور جون 2025 ء کے مہینے دو بظاہر الگ لیکن حیرت انگیز طور پر مماثل تنازعات کی وجہ سے عالمی سیاسی تاریخ میں نقش ہو چکے ہیں۔ایک تنازع پاکستان اور بھارت کے درمیان، جبکہ دوسرا اسرائیل اور ایران کے مابین پیش آیا۔ اگرچہ ان دونوں محاذوں کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا، لیکن ان کی نوعیت، طریقہ کار، اور پس پردہ کارفرما اتحاد ایک جیسے تھے۔ یہ محض اتفاقیہ جھڑپیں نہ تھیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دو مسلم ممالک کو نشانہ بنانے والی مربوط جارحیت تھی۔ ان دونوں میدانوں میں اسرائیل اور بھارت کے درمیان ایک مشترکہ اسٹریٹیجک فریم ورک نمایاں نظر آیا—طاقت کا ایک محور جو خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے اشتعال انگیزی کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
7 مئی 2025 ء کی صبح، پاکستان کو بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور خودمختاری پر حملے کے جواب میں فوجی کارروائی پر مجبور ہونا پڑا۔ معتبر عسکری رپورٹس کے مطابق، بھارتی ڈرونز نے آزاد جموں و کشمیر اور پاکستانی حدود میں گہرائی تک فضائی نگرانی کی کوشش کی، جسے انسداد دہشت گردی کی مشق کا نام دیا گیا۔ جواباً، پاکستان نے ان ڈرونز کو مار گرایا اور لائن آف کنٹرول کے قریب بھارتی فوجی چوکیوں پر محدود اور درست نشانہ بناتی کارروائیاں کیں۔
اس واقعے کو منفرد بنانے والی بات یہ تھی کہ گرائے گئے ڈرونز بھارتی نہیں بلکہ اسرائیلی ساختہ تھے۔ دفاعی تجزیہ نگاروں اور الیکٹرانک فرانزک ٹیموں نے ان ڈرونز کا سراغ اسرائیلی ادارے ’’ایل بٹ سسٹمز‘‘سے لگایا، جن میں ’’ہرمیس‘‘ 900 اور ’’ہاروپ‘‘ جیسے جدید جنگی ڈرون شامل تھے جو پہلے غزہ اور لبنان میں استعمال ہو چکے ہیں۔ مزید حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ان ڈرونز کو اسرائیل سے نہیں بلکہ بھارتی ریاست راجستھان کے علاقے جیسلمیر میں قائم ایک کنٹرول سینٹر سے چلایا جا رہا تھا، جہاں اسرائیلی دفاعی تکنیکی ماہرین بھارت اور اسرائیل کے درمیان 2023 ء میں دستخط شدہ دفاعی تعاون کے معاہدے کے تحت تعینات تھے۔ یہ اب قیاس آرائی نہیں بلکہ براہ راست اشتراک تھا۔
اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والا انکشاف یہ تھا کہ 1 سے 7 مئی کے درمیان اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان کم از کم چار بار رابطے ہوئے۔ یورپی انٹیلی جنس ایجنسی کے ایک کیبل کے مطابق، نیتن یاہو نے بھارت کو ”حکمتِ عملی کی معلومات، تکنیکی مدد، اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی تحفظ” کی یقین دہانی کروائی۔ یہ پوری کارروائی نہ صرف پاکستان کو اکسانے کے لیے بلکہ مستقبل میں کسی بڑی جنگ کی صورت میں پاکستانی ردعمل کا اندازہ لگانے کے لیے کی گئی تھی۔
اس خفیہ ایجنڈے کی تصدیق نیتن یاہو کے ایک مبینہ انٹرویو میں بھی ہو چکی ہے جس میں انہوں نے گفتگو کے دوران واضح طور پاکستان اور ایران دونوں کو ’’ایسے بنیاد پرست اسلامی ریاستیں قرار دیا جو جوہری طاقت رکھتی ہیں یا اس کے قریب ہیں‘‘ اور مزید یہ بھی کہا کہ ’’عالمی برادری کو ان نظریاتی جوہری خطرات کے خلاف چوکنا رہنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگرچہ ہم ایران پر توجہ دے رہے ہیں، ہمیں پاکستان کے اسٹریٹیجک مقام اور عسکری صلاحیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔خصوصاً جب وہ تہران کے ساتھ نظریاتی طور پر ہم آہنگ ہو۔‘‘ یہ بیانات اس نام نہاد ’’پیشگی دفاع‘‘ کے پردے میں خطے میں جارحیت کو جواز دینے کی کوشش تھے، جو مسلم دنیا کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 7 مئی کی کشیدگی سے پہلے امریکی نائب صدر نے عوامی سطح پر اعلان کیا کہ ’’امریکہ کا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کوئی کردار نہیں۔‘‘ لیکن جب صورت حال بگڑنے لگی اور عالمی منڈیوں میں بے چینی پھیل گئی، تو امریکی صدر نے مداخلت کی اور دونوں فریقوں پر دباؤ ڈال کر پس پردہ مذاکرات کے ذریعے جنگ بندی کروا دی۔ یہ امریکی رویہ،پہلے لاتعلقی، پھر مداخلت، یہ ظاہر کرتا ہے کہ مغرب کا فیصلہ کن کردار اصولی بنیاد پر نہیں بلکہ جغرافیائی سیاسی حساب کتاب پر مبنی ہوتا ہے۔ایک بار پھر بھارت سے ہم آہنگی واضح نظر آئی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حملے سے چند گھنٹے قبل نیتن یاہو اور مودی کے درمیان ایک اور رابطہ ہوا، جس کی تصدیق بین الاقوامی میڈیا نے تل ابیب اور نئی دہلی کے درمیان خفیہ پیغامات کی ترسیل سے کی۔ اس کے ساتھ ہی ایک سائبر حملہ بھی کیا گیا، جس سے ایران کے 40 فیصد فضائی ٹریفک کنٹرول نظام اور تیل کی برآمدات کی مواصلاتی تنصیبات متاثر ہوئیں۔ تہران میں سائبر سیکورٹی ماہرین نے اس میلویئر کا سراغ ’’ٹاٹا ایڈوانسڈ سسٹمز‘‘ اور ’’اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز‘‘ کے اشتراک سے تیار کیے گئے سافٹ ویئر سے لگایا۔ یہ ’’سٹکس نیٹ‘‘ اور’’فلیم‘‘ وائرسز کا امتزاج تھا، جو SCADA سسٹمز کو نشانہ بنانے کے لیے تیار کیا گیا تھا،یہ بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ سائبر جنگی حکمت عملی کا ثبوت تھا۔
ایران نے، بالکل پاکستان کی طرح، اپنی خودمختاری کا بھرپور دفاع کیا۔ ’’باور-373‘‘ اور ’’خورداد 15‘‘ دفاعی نظاموں نے 19 میزائل فضا میں ہی ناکارہ بنا دیے۔ جواباً، ایران نے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں میں موجود اسرائیلی انٹیلی جنس مراکز پر ’’فاتح-110‘‘ میزائلوں سے محدود جوابی حملہ کیا۔ ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے قوم سے ایک نادر خطاب میں ’’صہیونی-ہندو گٹھ جوڑ‘‘ کی مذمت کی اور عالمِ اسلام سے اتحاد کی اپیل کی۔
دونوں تنازعات میں ایک واضح قدر مشترک تھی؛ اسرائیل اور بھارت کا اشتراک، جس میں عسکری، تکنیکی اور سائبر مہارت کو یکجا کر کے مسلم طاقتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایران اور پاکستان ان کے نزدیک نظریاتی، اسٹریٹیجک اور جغرافیائی سیاسی رکاوٹیں ہیں۔ اسرائیل ایران کو جوہری میدان میں حریف سمجھتا ہے جبکہ بھارت پاکستان کو جنوبی ایشیا میں اپنی چودھراہٹ کی راہ میں رکاوٹ۔
لیکن اصل تشویش عالمی برادری کی خاموشی ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کسی ہنگامی اجلاس کی زحمت تک نہ کی۔ مغربی میڈیا نے پاکستان-بھارت تنازعے کو محض ’’سرحدی کشیدگی‘‘ اور اسرائیل-ایران جنگ کو ’’روک تھام کا حملہ‘‘ قرار دیا۔ ایک بھی مذمتی قرارداد منظور نہ ہوئی۔ یہ منافقانہ رویہ اس عالمی انصاف کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے جو صرف تب جاگتا ہے جب غیر مسلم مفادات خطرے میں ہوں۔
ایسے پیچیدہ حملوں کے مقابلے میں، پاکستان اور ایران کو محض ردعمل سے آگے بڑھ کر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ انٹیلی جنس کا تبادلہ، سائبر دفاع میں اشتراک، مشترکہ فوجی مشقیں، اور سفارتی ہم آہنگی مستقبل میں ایک مضبوط اتحاد کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ تنہا ریاستیں گرتی ہیں، لیکن متحد قومیں قائم رہتی ہیں۔ دونوں ملکوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب ان کی بقا اور عزت صرف مذہب یا ثقافت میں نہیں، بلکہ تقدیر میں بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔
مئی اور جون 2025 ء کی یہ جنگیں صرف ڈرونز اور میزائلوں کی قوت کی وجہ سے یاد نہیں رکھی جائیں گی، بلکہ اس شعور کے باعث بھی یاد رکھی جائیں گی جو انہوں نے مستقبل کی جنگوں کی نوعیت پر ڈالا۔ یہ ہائبرڈ جنگوں کا دور ہے، جہاں گولیاں اور بائٹس ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مگر اس دور میں بھی ایک سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے: جب ایک قوم متحد ہو، تو اسے شکست نہیں دی جا سکتی۔ ایران اور پاکستان نے ان حملوں سے صرف زندہ رہنا ہی نہیں سیکھا بلکہ مضبوط ہو کر ابھرے، ان کی عوام پُرعزم ہوئیں، اور ان کے دشمنوں کو انتباہ ملا۔ بالآخر، ظلم فولاد کے ساتھ چل سکتا ہے، مگر تاریخ ہمیشہ عدل کے ساتھ چلتی ہے اور عدل، اگرچہ تاخیر سے، کبھی مرتا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری
  • پہلگام واقعہ  انٹیلی جنس ناکامی ، خطے میں پاکستان کا کردار اہم ہے،بھارتی سابق انٹیلی جنس چیف کابرملااعتراف
  • بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بے نقاب، بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ
  • تہران خالی کرنے کی ٹرمپ دھمکی، ایسا کبھی نہیں ہوگا : ایرانی سفیر کا جواب
  • ایف اے ٹی ایف نے بھارت کا جھوٹ بے نقاب کر دیا: پہلگام واقعے پر پاکستان کلیئر
  • مسئلہ کشمیر پر  بھارت نے کبھی ثالثی قبول نہیں کی، نہ آئندہ کرے گا، مودی کا ٹرمپ کو جواب
  • دو تنازعات، ایک ایجنڈا، مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت
  • جی7 اجلاس،ٹرمپ کا مودی سے ملاقات سے انکار
  • بھارت سے دہشتگردی پر بات ہوگی، جلد دنیا دیکھے گی کہ کئی اہم چیزیں رونما ہونگی، فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • اسرائیلی جارحیت کیخلاف ایران نے ٹکا کر جواب دیا اور دے بھی رہا ہے، شیری رحمٰن