پی ٹی آئی کا پاک، بھارت کشیدگی پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
پی ٹی آئی کا پاک، بھارت کشیدگی پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 5 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مطالبہ کردیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس کے مطابق پاک، بھارت کشیدگی پر حکومت سے اے پی سی بلانے اور بانی پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی رہنماں کو اے پی سی میں دعوت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اعلامیہ کے مطابق پارلیمانی پارٹی نے ملک کے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام اورعدلیہ کے درمیان خلیج تیزی سے بڑھ رہی ہے، چیف جسٹس عدلیہ کے وقار اور توقیر بحال کرانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ تحریک انصاف عوام کی امنگوں کی ترجمانی قومی اسمبلی سمیت ہر فورم پر کرے گی۔پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کی جانب سے پہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کی شدید مذمت کی گئی ہے اور کہا گیا کہ پاکستانی قوم ذمہ دار، بہادر اور نڈر ہے جبکہ تحریک انصاف دنیا کے ہر خطے میں دہشت گردی کے خلاف ہے، ہمارے ہزاروں شہری دہشتگردی کیخلاف جنگ میں جانیں قربان کرچکے ہیں اور پہلگام واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا بھارتی الزام سراسر جھوٹ ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم کرنا چاہتا ہے، بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کومعطل کر سکتا ہے اور نہ ختم ، سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا درحقیقت اعلانِ جنگ ہے۔اعلامیہ میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ بانی پی ٹی آئی سے سیاسی رہنماوں سمیت ان کے اہلخانہ کی ملاقاتیں کرائی جائیں۔اجلاس میں پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی کیخلاف منظم سوشل میڈیا مہم کی بھی مذمت کی گئی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان کو واضح پیغام دینا چاہیے اگر بھارت نے مہم جوئی کی تو اسے نست و نابود کر دیا جائیگا،عمرایوب پاکستان کو واضح پیغام دینا چاہیے اگر بھارت نے مہم جوئی کی تو اسے نست و نابود کر دیا جائیگا،عمرایوب اطلاعات ہیں کہ بھارت ایل او سی کے اطراف کسی بھی جگہ حملہ کر سکتا ہے، خواجہ آصف اسد قیصر نے اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کر دیا اسلام آباد کے شہریوں کو بہترین سفری سہولیات کے علاوہ نئی شاہرات ، انڈر پاسز کی تعمیر اور پارکنگ کی سہولیات کی فراہمی ہماری... پہلگام فالس فلیگ کیخلاف بنگلہ دیشی عوام کی پاکستان کے حق میں ریلی مولانا فضل الرحمان کا حکومت کی غیر سنجیدگی پر اپنے ساتھیوں سمیت ایوان سے واک آوٹ
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: تحریک انصاف کشیدگی پر کا مطالبہ پی ٹی آئی گیا کہ
پڑھیں:
قطر اعلامیہ ’’بزدلی اور بے حمیتی کا اعلان‘‘
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250919-03-3
عبید مغل
تاریخ کے اوراق پر دو واضح ابواب رقم ہیں۔ ایک باب اْن حکمرانوں کا ہے جو تخت و تاج اور لشکر رکھتے ہوئے بھی بزدلی اور فیصلہ نہ کرنے کی کمزوری کے باعث ذلیل و رسوا ہوئے۔ دوسرا باب اْن شیروں اور بہادروں کا ہے جو کم وسائل، چھوٹے لشکر اور مشکل حالات کے باوجود جرأت اور حوصلے سے کامیاب ہوئے اور ہمیشہ کے لیے تاریخ میں امر ہو گئے۔ روس کا زار نکولس دوم، برطانیہ کا نیویل چیمبرلین، جرمنی کا کائزر ولیم دوم اور فلپائن کا مارکوس سبھی دولت و لشکر کے مالک تھے، مگر فیصلہ کن وقت پر گھبرا گئے اور ڈگمگا گئے، یوں تاریخ نے انہیں بزدلوں کی فہرست میں ڈال دیا۔
یہ واقعات ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ لشکر اور خزانے اگر کردار اور جرأت سے خالی ہوں تو کچھ بھی کام نہیں آتے۔ اس کے برعکس تاریخ کے وہ مردانِ حریت ہیں جن کے نام رہتی دنیا تک عزت و احترام کے ساتھ لیے جاتے رہیں گے: صلاح الدین ایوبی، محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، نورالدین زنگی، عمر مختار، امام شامل اور دورِ صحابہ کے جانثار۔ یہ سب اس حقیقت کے روشن ستارے ہیں کہ اصل طاقت ایمان اور حوصلے میں ہے۔ اسی ایمانی طاقت سے طارق بن زیاد نے اندلس فتح کیا، بابر نے پانی پت کی جنگ جیتی، افغان مجاہدین نے سوویت یونین کو بکھیر دیا، اور طالبان نے ناٹو جیسی بڑی فوج کو ہزیمت کے ساتھ نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اور آج اہل ِ غزہ کی استقامت بھی یہی پیغام دے رہی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت، امریکا، اس کے اتحادی یورپی ممالک اور اسرائیل مل کر بھی نہتے فلسطینیوں کو جھکا نہیں سکتے۔ آج بہادری، جرأت اور صبر و استقلال کی نئی تاریخ غزہ میں رقم ہو رہی ہے جہاں معصوم بچے، بزرگ اور خواتین یک زبان ہو کر اعلان کر رہے ہیں کہ وہ ظالم و جابر کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔
یہاں ایک تاریخی واقعہ بھی سبق دیتا ہے۔ بازنطینی سلطنت کا بادشاہ ہرقل مسلمانوں کے ہاتھوں شکست کھا گیا تو حیران رہ گیا۔ اْس نے اپنے جرنیلوں کو بلا کر پوچھا: میری فوج تعداد میں مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہے، میرے پاس وقت کا جدید ترین اسلحہ ہے، پھر بھی شکست کیوں ہوئی؟ ایک جرنیل نے کہا: ہماری شکست کی وجہ یہ ہے کہ ہم دن کو کمزوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں، اخلاقی گراوٹ میں ڈوبے ہیں، راتوں کو شراب نوشی اور بدکاری میں مصروف رہتے ہیں۔ دوسری طرف مسلمان دن کو روزے رکھتے ہیں، انصاف قائم کرتے ہیں، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرتے ہیں اور رات کو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی لیے ان کے ہر عمل میں عزم و ولولہ ہے جبکہ ہمارے دل بزدلی سے بھر گئے ہیں۔ یہی ہماری ناکامی اور مسلمانوں کی کامیابی کا راز ہے۔ یہ سب واقعات گواہ ہیں کہ جابر سلطنتیں ہمیشہ بہادر اور حق پرست اقوام کے سامنے شکست کھاتی آئی ہیں۔
قطر میں ہونے والی عالمی مسلم سربراہ کانفرنس نے بھی اسی کمزوری کو آشکار کیا۔ امت کو امید تھی کہ یہاں سے کوئی فیصلہ کن پیغام آئے گا، مگر کانفرنس کا اعلامیہ محض الفاظ، مذمتی جملے اور قانونی دہائیوں کا مجموعہ نکلا۔ نہ کوئی عسکری اتحاد، نہ اقتصادی دباؤ، نہ عملی اقدام۔ آج کی مسلم دنیا کے پاس جدید ترین اسلحہ، تربیت یافتہ فوجیں، تیل کے ذخائر اور بے شمار دولت ہے، لیکن فیصلہ کرنے کی جرأت نہیں۔ قیادت کی غیرت مر چکی ہے، ایوانوں میں مال کی ریل پیل ہے مگر دلوں میں ’’وہن‘‘ سرایت کر چکا ہے۔ یہی وہ کمزوری ہے جس کے بارے میں نبی کریمؐ نے فرمایا: قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے دسترخوان پر کھانے کے لیے ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہؓ نے پوچھا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم بہت زیادہ ہو گے، لیکن تمہاری حیثیت دریا کے تنکوں کے مانند ہوگی کیونکہ تمہارے دل وہن کا شکار ہو جائیں گے۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! وہن کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: زندگی سے محبت اور موت سے کراہت۔
آج کے مسلم حکمرانوں کے پاس دولت اور فوجی طاقت ہے مگر وہ فیصلہ کرنے کی جرأت سے محروم ہیں۔ یہی وہن ہے، دنیا کی محبت اور موت سے کراہت۔ اگر یہ کیفیت برقرار رہی تو تاریخ انہیں بھی لوئس شانزدہ سولہ اور رضا پہلوی کی صف میں ڈال دے گی۔ لیکن اگر وہ صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیاد کی راہ اپنائیں تو ایک نئی تاریخ رقم ہو سکتی ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اور مسلم حکمرانوں کی بزدلی کا اپنی عوام پر کیا منفی اثر پڑے گا اور اس کے کیا خوفناک نتائج نکلیں گے؟ یہ الگ مگر نہایت اہم سوال ہے۔ اس کا جواب آنے والا وقت دے گا تاہم فی الوقت مسلم حکمرانوں کی پالیسی واضح ہوچکی اور وہ اسرائیل سے کہہ رہے ہیں ’’اب کے مار کے دیکھ‘‘۔