ملالہ یوسف زئی کا ایک بار پھر غزہ میں مستقل جنگ بندی اور امداد کی فراہمی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
نوبل انعام یافتہ معروف سماجی کارکن ملالہ یوسف زئی نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں فی الفور مستقل جنگ بندی کی جائے۔
سوشل میڈیا پر اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ اسرائیل نے غزہ میں امداد کے داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے، جس کے باعث بچے بھوک کا شکار ہیں، اور مریض موت کے منہ میں جارہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں اسرائیل فلسطین تنازع: غزہ پٹی پر جھڑپوں میں اسرائیلی فوج کے 2 میجرز سمیت متعدد فوجی اہلکار ہلاک
انہوں نے کہاکہ میں فلسطینیوں کے روشن مستقبل کے لیے دعاگو ہوں، اور مطالبہ کرتی ہوں کہ فوری طور پر غزہ کے عوام کو امداد فراہم کرنے ساتھ ساتھ وہاں مستقل جنگ بندی کی جائے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے غزہ میں امداد کے داخلے پر 2 ماہ سے پابندی عائد ہے، جس کے باعث خوراک کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے، اور لوگ بلک رہے ہیں۔ فاقہ کشی کے باعث غزہ میں 3 لاکھ کے قریب بچے موت کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کا فوجی آپریشن کی آڑ میں غزہ پر قبضہ کرنے کا نیا منصوبہ سامنے آگیا۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بین یامین نیتن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اب غزہ میں جو فوری آپریشن شروع ہونے جارہا ہے وہ پہلے سے زیادہ شدید ہوگا۔
انہوں نے کہاکہ اس آپریشن کے ذریعے ہم حماس کو ختم کردیں گے، اور اس دوران غزہ کی آبادی کو وہاں سے ہٹایا جائےگا تاکہ ان کی زندگیوں کا تحفظ ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں عالمی عدالت: پاکستان کی فلسطینیوں کے حق میں توانا آواز، اسرائیل کو کٹہرے میں لانے کی استدعا
یہ بھی یاد رہے کہ 7 اکتوبر 2023 سے اسرائیلی فوج اور حماس کے درمیان جنگ جاری ہے، اسرائیلی فوج کی جانب سے کی گئی بمباری میں اب تک قریباً 60 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیلی فوج امداد کی فراہمی غزہ جنگ بندی فلسطینی ملالہ یوسف زئی وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج امداد کی فراہمی فلسطینی ملالہ یوسف زئی وی نیوز اسرائیلی فوج
پڑھیں:
اسرائیل نے ایک نیا نقشہ بنا لیا
پچھلے دنوں ایک اہم لیکن غیر پابند اقدام میں اسرائیل کی پارلیمنٹ، کنیسٹ میں اسرائیلی مقننہ نے بھاری اکثریت سے ایک اعلامیہ کی منظوری دی ہے جس میں مقبوضہ مغربی کنارے اور وادی اردن میں یہودی بستیوں پر اسرائیلی خودمختاری کی فوری توسیع پر زور دیا گیا ہے۔13 کے مقابلے میں 71 ووٹوں سے منظور ہونے والی اس تحریک کو دائیں بازو اور مرکزی دائیں بازو کی اسرائیلی پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی جن میں لیکود، شاس، مذہبی صیہونیت، اوتزما یہودیت اور یسرائیل بیتینو شامل ہیں۔
متن میں اعلان کیا گیا کہ 7 اکتوبر 2023 ء کو حماس کا حملہ جسے اسرائیلی سیاسی گفتگو میں "سمچات تورہ قتل عام" کہا جاتا ہے، یہ ثابت کرتا ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کے وجود کے لیے ایک جان لیوا خطرہ ہے۔قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’’کنیسٹ اعلان کرتی ہے کہ اسرائیل کی سرزمین کے تمام حصوں کو اپنے وجود میں شامل کرنا اس کا فطری، تاریخی اور قانونی حق ہے۔ "کنیسٹ حکومت اسرائیل سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ یہودیہ، سامریہ اور وادی اردن میں یہودی آباد کاری کے تمام علاقوں پر خودمختاری کا اطلاق کرنے کے لیے بلا تاخیر عمل کرے۔"
یہ بالکل بھی علامتی نہیں
اس قرارداد پر علامتی کا لیبل لگایا گیا ہے، مگر فلسطینی ماہرین اس ووٹ کو مغربی کنارے میں اسرائیل کی مستقل موجودگی اور حکمرانی کے لیے نوکر شاہی کی بنیاد رکھنے کے طور پر دیکھتے ہیں جو بین الاقوامی اتفاق رائے کے ذریعے مستقبل کی فلسطینی ریاست کا مرکز ہے۔مغربی کنارے کی برزیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر سعد نمر کہتے ہیں، اس اقدام کے مضمرات دور رس ہیں۔
"یہ بالکل بھی علامتی نہیں ۔" نمر کا کہنا ہے "اس کا مطلب ہے کہ ان بستیوں کو اب اسرائیلی شہروں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ وہ فوجی قانون کے تحت اب 'قبضہ' نہیں رہے ہیں۔ یہ الحاق کا قانونی اور بیوروکریٹک بنیادی ڈھانچہ ہے۔"وہ مذید کہتے ہیں "اسرائیلی وزارتیں ، فوج نہیں ، اب ان علاقوں میں صحت، بہبود، منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کی نگرانی کریں گی۔ یہ تھیوری نہیں ،یہ بلڈوزر، بجٹ اور توسیع کے بارے میں ہے۔"
فلسطین کی فتح انقلابی کونسل کے ایک رکن، دیمتری دلیانی نے ان جذبات کی بازگشت کی۔ان کا کہنا ہے ’’ووٹ کو علامتی طور پر بیان کرنا خطرناک حد تک نادانی ہے۔" دلیانی نے خبردار کیا۔ "اسرائیلی سیاست میں علامت پرستی اکثر حقیقت میں الحاق کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ گو کنیسٹ کی تحریک میں پابند قانون سازی کی اتھارٹی کا فقدان ہے، یہ نئے گھریلو سیاسی جواز کے ساتھ ریاست اسرائیل کے آباد کار نوآبادیاتی منصوبے کو وسعت دینے کے لیے حکومت اور اپوزیشن، دونوں میں اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہے۔"
دلیانی نے مزید کہا کہ کنیسٹ کے اراکان پہلے ہی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اصطلاح "ویسٹ بینک" کو بائبل کے "یہودا اور سامریہ" سے بدلنے کے لیے قانون سازی پر زور دے رہے ہیں ۔یوں وہ اسرائیلی قانون میں قوم پرست بیانیہ کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔
سیاسی لین دین
بہت سے تجزیہ کار اس ووٹنگ کو نہ صرف نظریاتی بلکہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے کمزور حکومتی اتحاد کو بچانے کے لیے ایک حکمت عملی کے طور پر سیاسی چال کے طور پر دیکھتے ہیں۔
"یہ بالکل واضح ہے کہ یہ ایک سیاسی تبادلہ تھا،" نمر نے کہا۔ "قومی مذہبی پارٹی اور مذہبی صیہونیت بیزلیل کے رہنما، سموٹریچ اوراوزمہ یہودیت ("یہودی طاقت") پارٹی کے رہنما،بین گویر نے دھمکی دی تھی کہ اگر دوحہ میں مذاکرات غزہ میں جنگ بندی کا باعث بنتے ہیں تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔ یہ ووٹ نیتن یاہو کا انہیںاپنے ساتھ رکھنے کا طریقہ ہے۔"
انتہائی دائیں بازو کو الحاق پر ایک علامتی انعام کی پیشکش کر کے نیتن یاہو اپنی حکومت کے خاتمے کو روکتا ہوا دکھائی دیتا ہے ،گو قطری ثالثی میں حماس کے ساتھ جنگ بندی کے مذاکرات کسی نہ کسی طور جاری ہیں۔دلیانی اس اقدام کو "موقع پرست" قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ بڑھتے ہوئے بین الاقوامی قانونی جانچ پڑتال کو پہلے سے بے اثر کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، خاص طور پر جولائی 2023 ء میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے کے بعد، جس نے فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔"
دانتوں کے بغیر بین الاقوامی مذمت
بین الاقوامی برادری کی طرف سے ردعمل تیز لیکن دانتوں کے بغیر تھا۔ اردن نے ووٹنگ کی مذمت کرتے ہوئے اسے "بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی" قرار دیا۔ یوروپی یونین اور عرب لیگ نے دو ریاستی حل کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اسی طرح کے الفاظ کی سرزنش کی۔لیکن دونوں فلسطینی تجزیہ کار معنی خیز نتائج کی کمی کی وجہ سے غیر متزلزل تھے۔
"تاریخی ریکارڈ ہمیں سکھاتا ہے کہ بین الاقوامی اتفاق رائے ہمیشہ عمل میں نہیں آتا۔" دلیانی کا کہنا ہے " یہاں تک کہ غزہ میں اسرائیلی نسل کشی اور یروشلم اور مغربی کنارے کے باقی حصوں میں زبردست جنگی جرائم کے دستاویزی لائیو سٹریم کے درمیان اہم مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ اسرائیل کی صف بندی مزید مضبوط ہوئی ہے ۔"
انہوں نے امریکی فوجی تعاون کا حوالہ دیا جو 3.8 بلین ڈالر سالانہ امداد کی مد میں ہے اور اکتوبر 2023 ء میں غزہ پر جنگ شروع ہونے کے بعد سے تقریباً 20 بلین ڈالر کی اضافی فوجی امداد تک پہنچ چکا ہے۔دلیانی نے مزید کہا "اسرائیل یورپی یونین کے ساتھ وسیع تجارتی مراعات سے لطف اندوز ہونا جاری رکھے ہوئے ہے۔ دس لاکھ غیر قانونی نوآبادیاتی اسرائیلی آباد کاروں میں سے تین چوتھائی مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں مقیم ہیں۔ اس کے باوجود بین الاقوامی برادری کی طرف سے ردعمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ روک تھام کی پابندیوں یا جوابدہی کے طریقہ کار کی عدم موجودگی کو اسرائیل آگے بڑھنے کی کھلی اجازت سے تعبیر کرتا ہے۔"
نمر بھی اس بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں "اسرائیل کنیسٹ میں بھاری اکثریت کے ساتھ اس فیصلے میں آیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی بین الاقوامی برادری کی رائے کی پرواہ نہیں کرتے۔ یورپی یونین نے غزہ میں نسل کشی اور بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر پھر بھی کوئی حقیقی کارروائی نہیں کی۔اگر کوئی سزا نہیں ملتی ہے" نمر کا کہنا ہے "اور اِسے رضامندی سے تعبیر کیا جاتا ہے تو اب اسرائیلی محسوس کرتے ہیں کہ ان کے سامنے سبز روشنی آ گئی ہے۔"
اسرائیل کی مغربی تسلط اور اس کے نتائج
تجزیہ کار اسرائیل کو حاصل اس استثنیٰ کو مغربی جغرافیائی سیاسی مدار میں اس کی مضبوط پوزیشن سے جوڑتے ہیں۔ 2024 ء میں یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان دوطرفہ تجارت 46 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ جرمنی، فرانس اور نیدرلینڈز دوہری استعمال کی اسرائیلی ٹیکنالوجیز کے سرفہرست برآمد کنندگان میں شامل ہیں۔دریں اثنا امریکہ نے بائیڈن انتظامیہ کے تحت اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ ،دونوں میں اضافہ کیا یہاں تک کہ اس نے عوامی طور پر الحاق کی مخالفت کو برقرار رکھا۔
"یہ دوہرا معیار عالمی طاقت کے ڈھانچے میں شامل ہے" دلیانی کہتے ہیں۔ 2014 ء میں کریمیا کی صورت حال پر مغرب نے روس کے خلاف سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کے برعکس غزہ میں اسرائیلی ریاست کی جاری نسل کشی اور مغربی کنارے کے اصل الحاق جیسے جرائم پر اسرائیل کو اسلحے کی بڑھتی ہوئی منتقلی اور سفارتی امداد سے نوازا گیا ہے۔"
"اسرائیل مشرق وسطی میں ایک اسٹریٹجک مغربی نوآبادیاتی گڑھ کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ یقینی بناتا ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو نظر انداز کیا جائے۔ روس کے برعکس جو مغربی نظام کے لیے ایک خطرہ کے طور پر اٹھایا کیا گیا ہے، اسرائیل کو اس حکم کی توسیع کے طور پر پیش کیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بین الاقوامی اصولوں کو بھی توڑ دیتا ہے۔"
دلیانی نے مزید کہا کہ اسرائیل کے اقدامات کو تنقید سے بچانے کے لیے یہود دشمنی کے الزامات کو حکمت عملی کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ اس کے نسل کشی کے جنگی جرائم کے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے یہود دشمنی کے الزامات کو صہیونی آلہ کار بنانے پر اسرائیلی ریاست کو جوابدہی سے مزید محفوظ کر دیا ہے۔"
نمر اتفاق کرتے کہتے ہیں "دوہرا معیار بین الاقوامی سفارت کاری کا نعرہ بن چکا ، ایسا نعرہ جو اعلانیہ نہیں لگایا جاتا۔سبھی ممالک اسرائیل کے ساتھ روس یا چین کے مقابلے میں مختلف طریقے سے نمٹتے ہیں کیونکہ اسرائیل اسی سامراجی اور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں۔"
انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے بین الاقوامی قانونی فریم ورک کی عالمی سطح پر دوبارہ تشکیل پر زور دیا۔ "ان تمام قوانین بشمول اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا جائزہ لیا جانا چاہیے۔اب یہ نظام ٹوٹ چکا ہے۔ امریکی ویٹو خطّے میں اس کے پسندیدہ اتحادی، اسرائیل جیسے ملک کے خلاف کسی بھی فیصلے کو روک سکتا ہے۔"
آگے کیا ہو گا؟
دونوں ماہرین کا خیال ہے کہ کنیسٹ کی ووٹنگ کے نتائج سفارتی بیان بازی سے کہیں آگے ہیں۔ نمر کے نزدیک یہ معاملہ فلسطینی قیادت کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہونا چاہیے۔
"یہ فیصلہ تمام فلسطینیوں کو متاثر کرتا ہے،" نمر کا کہنا ہے۔ "دو ریاستی حل نہ صرف یہ کہ ہمارے پیچھے نہیں بلکہ وہ سرکاری طور پر ختم ہوچکا۔ اسرائیلی قانون نے اوسلو معاہدے کو اڑا دیا ہے۔" یاد رہے1990ء کی دہائی میں دستخط کیے گئیاوسلو فریم ورک نے اسرائیلی نگرانی کے تحت محدود فلسطینی خود مختاری کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ ایک سمجھوتہ تھا جس کا مقصد دو ریاستی حل کی طرف راہ ہموار کرنا تھا جو اب مکمل طور پر دفن نظر آتا ہے۔
نمر نے فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ٹھوس اقدامات اٹھائے، جس کا آغاز اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی کوآرڈینیشن ختم کرنے سے ہوتا ہے،ایک ایسا عمل جس پر طویل عرصے سے فلسطینی سول سوسائٹی نے تعاون کے طور پر تنقید کی تھی۔
"اگر اوسلو مر گیا ہے، تو پھر ہم اس میں اپنا حصہ کیوں رکھیں؟ فلسطینی اتھارٹی کو فوری طور پر تمام سیکورٹی تعاون بند کرنا چاہیے۔ اس سے ایک مضبوط پیغام جائے گا۔"اس سے آگے نمر نے قومی اتحاد پر زور دیا۔ "اس وجودی خطرے کے خلاف حکمت عملی بنانے کے لیے ہمیں ایک متحدہ محاذ … الفتح، حماس اور تمام دھڑوں کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ کئی دہائیوں سے ہمارے پاس دو راستے تھے: اوسلو کے تحت مذاکرات، یا مزاحمت۔ اب اوسلو کا راستہ خود اسرائیل نے بند کر دیا ہے۔"
دلیانی کا بھی خیال ہے کہ فلسطینیوں کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینا چاہیں۔’’ہم اب نظریاتی الحاق کے ساتھ معاملہ نہیں کر رہے ہیں،" انہوں نے کہا "اسے نافذ کرنے کے اسرائیلی قانونی طریقہ کار کے ساتھ یہ نسل پرستی اور یہودی آباد کاروں کے استعماری تسلط کو معمول پر لانا ہے ۔ فلسطینیوں کو اب نچلی سطح پر مزاحمت کی تعمیر، بین الاقوامی سول سوسائٹی کو متحرک کرنے اور اسرائیلی جمہوریت کے افسانے کو ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔"