— فائل فوٹو

سپریم کورٹ کے 2 ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی نظرثانی درخواستیں مسترد کردیں۔

نظرثانی درخواستیں 12 جولائی کے فیصلے کے خلاف 2 ججز نے مسترد کی ہیں، سپریم کورٹ کے 11 ججز نے نظرثانی درخواستوں پر نوٹس جاری کردیے۔

نظرثانی درخواستیں مسترد کرنے والے ججز میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی شامل ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ وہ نظرثانی مسترد کر رہی ہیں اور اپنی وجوہات دیں گی۔

مخصوص نشستوں کا کیس: اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججوں نے دوسری مرتبہ وضاحت جاری کردی

اکثریتی ججز نے کہا کہ تفصیلی فیصلے میں تمام تر قانونی و آئینی نکات کا احاطہ کر دیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکلا، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے اکثریتی فیصلے میں غلطیوں کی نشاندہی کی۔

سپریم کورٹ نے 11 ججز نظرثانی میں جواب گزاروں کو نوٹس جاری کردیے ہیں، عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان کو سپریم کورٹ آرڈر 27 اے کے تحت نوٹس جاری کیا ہے۔

12 جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا گیا۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: نظرثانی درخواستیں سپریم کورٹ نوٹس جاری

پڑھیں:

آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرلیا

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 06 مئی ۔2025 )سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیے ہیںرپورٹ کے مطابق بینچ کے ارکان جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلاف کرتے ہوئے نظر ثانی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ فیصلے پر عملدرآمد کیے بغیر آپ نظر ثانی کیسے فائل کر سکتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے.

(جاری ہے)

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 13 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی، آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس عقیل عباسی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے.

سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل حارث عظمت روسٹرم پر آئے اور موقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستیں ایک ایسی جماعت کو دی گئیں جو کیس میں فریق نہیں تھی جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس نکتے کا جواب فیصلے میں دیا جا چکا ہے، آپ کی نظرثانی کی بنیاد کیا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا پورے فیصلے سے اختلاف ہے یا پھر اکثریتی فیصلے سے؟ وکیل حارث عظمت نے کہا کہ ہمارا اختلاف اکثریتی ججوں سے ہے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی نشستیں دینے کی استدعا تکنیکی بنیادوں پر مسترد کی تھی.

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے نظرثانی کا اسکوپ محدود ہے، اس پر دوبارہ دلائل نہیں دے سکتے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے ریٹرننگ افسر کا آرڈر اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود تھا حارث عظمت نے کہا کہ پی ٹی آئی وکلا کی فوج تھی پھر بھی ان آرڈرز کو چیلنج نہیں کیا گیا جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ہم ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں؟ کیا سپریم کورٹ کے نوٹس میں ایک چیز آئی تو اسے جانے دیتے؟جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سارے نکات تفصیل سے سن کر فیصلہ دیا تھا.

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ بار بار ایک سیاسی جماعت کا نام لے رہے ہیں اسے چھوڑ دیں سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق فیصلہ دیا آپ ہمیں بتائیں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے جو باتیں آپ بتا رہے ہیں ہمیں وہ زمانہ طالب علمی سے معلوم ہیں کیا اب آپ سپریم کورٹ کو سمجھائیں گے؟انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 181 کے تحت نظرثانی کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں آپ نظر ثانی میں اپنے کیس پر دوبارہ دلائل دے رہے ہیں آپ نظر ثانی کے گراونڈز نہیں بتا رہے جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عملدرآمد ہوا تھا؟ وکیل حارث عظمت نے کہا مجھے کنفرم نہیں ہے.

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ عدالت کے سامنے کھڑے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کو کنفرم نہیں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہ بھی بتانا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن باﺅنڈ نہیں ہے کہ ہمارے فیصلے پر عمل درآمد کرے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد کیے بغیر آپ نظر ثانی کیسے فائل کر سکتے ہیں؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی درخواست بھی ہے دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند روسٹرم پر آگئے.

جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کیا آپ نے فیصلے پر عملدرآمد کیا ہے؟ آپ ہاں یا نہ میں اس سوال کا جواب دیں وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے ایک پیرا اگراف کی حد تک عمل کیا ہے جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کیا یہ آپ کی منشا یا مرضی کی بات ہے کہ کس پیراگراف پر عمل کریں گے؟ جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس فیصلے سے کیسے متاثر ہیں؟ آپ کو مرکزی کیس میں بھی کہا گیا تھا کہ آپ کا رویہ ایک پارٹی کا ہے آپ نے جس فیصلے پر عمل نہیں کیا اس پر نظرثانی مانگ رہے ہیں؟ آپ کا کام الیکشن کروانا ہے آپ اس کیس میں پارٹی کیسے بن سکتے ہیں؟.

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ مجھے پشاور ہائی کورٹ میں فریق بنایا گیا تھا اس لیے میں سپریم کورٹ آیا جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کی آپ کو تشریح پسند نہیں آئی اور دوبارہ سپریم کورٹ آگئے جسٹس ہاشم کاکڑ نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کیا ہے؟ اگر الیکشن کمیشن نے فیصلے پر عمل کیا ہے تو ٹھیک، ورنہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ہمارے فیصلے پر عمل ہوگا؟وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ ہم فیصلے پر جزوی طور پر عمل کر چکے ہیں جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ فیصلے پر عملدرآمد میں پک اینڈ چوز نہیں کر سکتے جو حصہ آپ کو پسند آیا آپ نے اس پر عمل کیا جو پسند نہیں آیا اس پر عمل نہیں کیا.

جسٹس عقیل عباسی نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نہ سن لیں؟ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست زیر التوا ہے اگر آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چلائی جائے تو آپ نظرثانی مانگیں گے؟وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے کہا کہ ہم نے عدالتی فیصلے پر عمل کر دیا ہے جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ نے فیصلے پر عمل نہیں کیا ایسی بات نہ کریں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیس کو چھوڑیں یہ آپ سپریم کورٹ کو کہاں لے جا رہے ہیں؟ کل کسی کو پھانسی کی سزا دیں تو کیا وہ کہے گا بس سر تک پھندا ڈال کر چھوڑ دیا؟جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ کی پٹیشن پڑھی اس کے قابل سماعت ہونے پر میرا سوال ہے جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا کہ آپ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست اٹھالیں تو کیا آپ اس کیس میں دلائل دے سکیں گے؟ بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے باضابطہ منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے.

جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے نظر ثانی درخواستوں کی سماعت کے لیے منظوری کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا جبکہ 11 ججوں نے اکثریت سے فریقین کو نوٹس جاری کردیئے عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کی درخواست بھی اس کیس کے ساتھ ہی سنی جائے گی.

متعلقہ مضامین

  • مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے پر نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے منظور، 2 ججوں کا اختلاف
  • آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرلیا
  • مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستیں باضابطہ سماعت کیلئے منظور
  • مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے منظور
  • مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی: کیا ایک پارٹی کی غلطی کی سزا قوم کو دیں، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
  • کسی مقدمے میں ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں بن سکتا، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نظرثانی اسکوپ سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیا
  • نظرثانی صرف واضح قانونی غلطی کی صورت میں ہی ممکن ہے، جسٹس منصور علی شاہ
  • محض ایک فریق کا عدم اطمینان نظرثانی کی بنیاد نہیں ہوسکتا، سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ