پاکستان میں 24 ہزار بچوں میں ٹائپ ون ذیابیطس کا انکشاف، مفت علاج کیلیے ملک بھر میں 27 کلینکس قائم
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
کراچی:
پاکستان میں پہلی بار بچوں میں ٹائپ ون ذیابیطس کے مفت علاج کے لیے کراچی سمیت ملک بھر میں 27 کلینکس قائم کردیے گئے، اس وقت پاکستان میں پیدائش سے لے کر بالغ عمر تک کے 24 ہزار سے زائد بچے ٹائپ ون ذیابیطس کا شکار ہیں۔
ٹائپ ون ذیابیطس کے بچوں کے علاج کے لیے مفت انسولین اور دیگر ضروری ادویات بھی ان کلینکس میں فراہم کی جارہی ہیں، ان بچوں کے مفت علاج کے لیے کراچی سمیت ملک بھر مجموعی طور پر 40 خصوصی کلینکس قائم کیے جائیں گے، یہ کلینکس چینجنگ ڈائبیٹیز ان چلڈرن پروگرام کا حصہ ہیں جو پاکستان سمیت دنیا بھر کے 32 ممالک میں جاری ہے۔
پاکستان میں اس پروگرام کے تحت اب تک 3,300 ٹائپ ون ذیابیطس بچے رجسٹرڈ کیے جاچکے ہیں جنہیں مفت انسولین، گلوکومیٹرز، پین ڈیوائسز، نیڈلز اور ٹیسٹنگ اسٹرپس فراہم کی جا رہی ہیں۔
یہ بات انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن کی نائب صدر ارم غفور نے ایکسپریس ٹریبون سے بات چیت کرتے ہوئے بتائی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بچوں کو اگر انسولین نہ ملے تو ان کی زندگیاں خطرہ سے دوچار ہوسکتی ہیں۔
ارم غفور نے مزید بتایا کہ 2025 تک 40 کلینکس قائم کیے جائیں گے، 27 مفت کلینکس میں 7 سندھ اور 9 پنجاب میں قائم کردیے گئے ہیں، انہوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ کم عمری میں بچوں میں بار بار پیٹ درد، پیشاب، پیاس، قے اور سستی ٹائپ ون ذیابیطس کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کو کم عمری میں فاسٹ فوڈ، بازار کی تلی ہوئی چیزیں، بازار کے رنگ برنگی مشروبات سے بچائیں، گھر کے کھانے استعمال کرائیں۔ واضع رہے کہ ارم غفور کو انٹرنیشنل ڈائبیٹیز فیڈریشن کی پہلی نائب صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ٹائپ ون ذیابیطس پاکستان میں کلینکس قائم
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
ایک تازہ بین الاقوامی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) معطل کیے جانے کے بعد پاکستان کو پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سڈنی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی ’اکولوجیکل تھریٹ رپورٹ 2025‘ کے مطابق اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت کو دریائے سندھ اور اس کی مغربی معاون ندیوں کے بہاؤ پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے، جو براہِ راست پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی نے یہ معاہدہ رواں سال اپریل میں پاہلگام حملے کے بعد جوابی اقدام کے طور پر معطل کیا تھا۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان کی زراعت کا تقریباً 80 فیصد انحصار دریائے سندھ کے نظام پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ معمولی رکاوٹیں بھی پاکستان کے زرعی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں کیونکہ ملک کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت ہے، موجودہ ڈیم صرف 30 دن کے بہاؤ تک پانی روک سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے بہاؤ میں تعطل پاکستان کی خوراکی سلامتی اور بالآخر اس کی قومی بقا کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ اگر بھارت واقعی دریاؤں کے بہاؤ کو کم یا بند کرتا ہے، تو پاکستان کے ہرے بھرے میدانی علاقے خصوصاً خشک موسموں میں، شدید قلت کا سامنا کریں گے۔
مزید بتایا گیا کہ مئی 2025 میں بھارت نے چناب دریا پر سلال اور بگلیہار ڈیموں میں ’ریزروائر فلشنگ‘ آپریشن کیا جس کے دوران پاکستان کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ اس عمل سے چند دن تک پنجاب کے کچھ علاقوں میں دریا کا بہاؤ خشک ہوگیا تھا۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا، جس کے تحت مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول بھارت کو اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا اختیار پاکستان کو دیا گیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تین جنگوں کے باوجود برقرار رہا۔
تاہم رپورٹ کے مطابق، 2000 کی دہائی سے سیاسی کشیدگی کے باعث اس معاہدے پر عدم اعتماد بڑھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوران مشرقی دریاؤں کے مکمل استعمال کی کوششوں کے ساتھ، پاہلگام حملے کے بعد بھارت نے معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا۔
پاکستان کی جانب سے اس اقدام پر شدید ردِعمل دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان کے پانیوں کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔
جون 2025 میں بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے بیان دیا کہ سندھ طاس معاہدہ اب مستقل طور پر معطل رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں