کیا پاکستان کرپٹو مائننگ کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
پاکستان 3 ٹریلین ڈالر کی عالمی کرپٹو کرنسی مارکیٹ میں اہم کردار ادا کرنے کو تیار ہے، اس کے لیے بنائی گئی پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) نے قیام سے اب تک اہم کامیابیاں سمیٹیں۔
پی سی سی نے جامع اور مؤثر اقدامات کرتے ہوئے ڈیڑھ ماہ کے مختصر وقت میں عالمی کرپٹو انڈسٹری میں سب کی توجہ حاصل کی ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال 14 مارچ کو اس کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور چند روز میں دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو ایکسچینج ‘بائنانس’ کے بانی چانگ پین ژاؤ کو بطور اسٹریٹجک ایڈوائزر مقرر کیا گیا، جو کسی ترقی پذیر ملک کے لیے غیرمعمولی کامیابی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کی پہلی کرپٹو کونسل اور اے آئی ٹول کا مستقبل کیا ہے؟
پی سی سی کے مطابق کرپٹو کرنسی کے مضبوط مستقبل کے لیے کرپٹو مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کا قیام بھی عمل میں لایا جا رہا ہے۔
کرپٹو کونسل پاکستان میں کرپٹو کی لیگلائزیشن پر تیزی سے کام کر رہی ہے مگر کیا پاکستان کرپٹو مائننگ کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہے؟
اس بارے میں حکومت کی جانب سے کرپٹو ایڈوائزری سے منسلک معاملات کو دیکھنے والے اور ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری محمد ظفر پراچہ نے وی نیوز کو بتایا کہ پاکستان کرپٹو مائننگ کے بوجھ کو بآسانی برداشت کر سکتا ہے کیونکہ بجلی سرپلس پاکستان کے پاس موجود ہے اور ہم آئی پی پیز کو ضرورت سے زیادہ پیسے دے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ بجلی جو ہم استعمال کر رہے ہیں اس کی قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔ اس صورت میں بہتر یہی ہے کہ ہم وہ بجلی کرپٹو مائننگ کے لیے استعمال کریں جب ہم اس کے پیسے پہلے ہی دے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ عالمی سطح پر بٹ کوائن کان کنی کے عمل کے دوران توانائی کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے، اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ سالانہ 130 ٹیراواٹ گھنٹے (ٹی ڈبلیو ایچ) سے زیادہ بجلی استعمال کرتا ہے، جو کہ ارجنٹائن یا نیدرلینڈز جیسے ممالک کی پوری بجلی کی کھپت سے زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان تیزی سے کرپٹوکرنسی کو اپنانے والی معیشتوں میں سے ایک ہے، وزیراعظم شہبازشریف
ظفر پراچہ نے مزید کہا کہ وزیرِ خزانہ کے چیف ایڈوائزر برائے پاکستان کرپٹو کونسل بلال بن ثاقب نے بھی پاکستان کی اضافی بجلی کو بٹ کوائن مائننگ کے لیے استعمال کرنے کا تصور پیش کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے یوں پاکستان کا پاور سیکٹر بھی ترقی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کی صلاحیت موجود ہے، اور بعض اوقات سرپلس بجلی بھی دستیاب ہوتی ہے۔ حکومت اس سرپلس بجلی کو کرپٹو مائننگ کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کرپٹو مائننگ توانائی کا بہت زیادہ استعمال کرنے والا عمل ہے۔ اگر بجلی کی قیمتیں زیادہ ہوں تو یہ منافع بخش نہیں رہے گا۔ حکومت خصوصی بجلی کے ٹیرف متعارف کرانے پر غور و فکر کر رہی ہے تاکہ کرپٹو مائنرز کو راغب کیا جا سکے۔
ظفر پراچہ نے کہا کہ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پاکستان میں بجلی کی فراہمی میں استحکام ایک بڑا چیلنج ہے، کرپٹو مائننگ کے لیے مسلسل اور قابل اعتماد بجلی کی فراہمی ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان کرپٹو کونسل کا بٹ کوائن مائننگ کے لیے اضافی بجلی استعمال کرنے کا مشورہ
یاد رہے کہ کچھ ممالک جیسے کہ بھوٹان اپنی سرپلس ہائیڈرو پاور کو کرپٹو مائننگ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا ہے کہ جب تک کر پٹو کرنسی کے حوالے سے قوانین وضوابط متعارف نہیں کروائے جاتے، اس وقت تک اس کے لین دین کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم، منافع و اثاثے غیر دستاویزی اور غیر ٹیکس شدہ رہیں گے۔
اگر کرپٹو قوانین بننے تک کرپٹو کرنسی کے لین دین پر کوئی ٹیکس نہیں ہے تو کیا کرپٹو کا لین دین قانونی ہے؟ اس حوالے سے ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ کرپٹو قوانین بننے اور جب تک اسے حتمی طور پر قانونی قرار نہیں دیا جاتا اس وقت تک پاکستان میں کرپٹو کرنسیز میں لین دین بالکل بھی قانونی نہیں ہیں اور اس طرح کے بیانات سے اس چیز کو مزید بڑھاوا دیا جا سکتا ہے کہ لوگ غیر قانونی طور پر کرپٹو کا لین دین کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
کرپٹو کرنسی کرپٹو کونسل مائننگ معیشت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کرپٹو کرنسی کرپٹو کونسل مائننگ کے لیے استعمال کر کرپٹو مائننگ کے لیے پاکستان کرپٹو استعمال کرنے کرپٹو کرنسی کرپٹو کونسل پاکستان میں ظفر پراچہ لین دین رہے ہیں بجلی کی
پڑھیں:
90 لاکھ پاکستانی کرپٹو کے کام سے منسلک،
اسلام آباد:وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نےکہا ہے کہ جب تک کرپٹو کرنسی کے حوالے سے قوانین و ضوابط متعارف نہیں ہوتے، اس وقت تک اس کے لین دین کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم، منافع و اثاثے غیر دستاویزی اور غیر ٹیکس شدہ رہیں گے۔
اسلام آباد میں بزنس کمیونٹی کے ساتھ ایک آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ایف ٹی او کوآرڈینیٹر سیف الرحمان نے کہا کہ اسلام آباد سے ایک شکایت کنندہ حافظ محمد اصغر نے اپنی درخواست میں کہا کہ دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کے 560 ملین صارفین ہیں جن میں سے 9 ملین کا تعلق پاکستان سے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے جو کرپٹو کرنسی کو اپنا رہا ہے۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ وہ کرپٹو کرنسی پر ٹیکس ادا کرنا چاہتا ہے لیکن ایف بی آر میں اس حوالے سے قواعد و ضوابط موجود نہیں ہے۔
ایف بی آر پالیسی ونگ نے اپنے جواب میں اعتراف کیا ہے کہ کرپٹو کرنسی کا تصور نیا اور اس کے لیے ماہرین کی رائے درکار ہے شکایت کے مندرجات زیر غور ہیں متعلقہ ایجنسی سے مشاورت کے بعد مناسب وقت پر جواب دیا جائے گا جبکہ ایف ٹی او نے تفصیلی سماعت کے بعد قرار دیا کہ شکایت ایک اہم شعبے سے متعلق ہے جہاں بڑے پیمانے پر تجارتی لین دین ہو رہا ہے لیکن یہ تمام لین دین ٹیکس کی حدود سے باہر ہو رہا ہے۔
ایف ٹی او نے اپنے آرڈر میں مزید کہا کہ ایف بی آر کی جانب سے اس کو نظر انداز کرنا، اس کی طرف عدم توجہی اور نااہلی کی انتہا ہے کہ اس نظر انداز شدہ شعبے کے حوالے سے ایف ٹی او سیکرٹریٹ کے فوری اقدام کو سراہنے کے بجائے ٹیکس حکام کی طرف سے ایف ٹی او کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا کہ کرپٹو کرنسی اب پاکستان میں کافی حد تک قدم جما چکی ہےہماری کرپٹو مارکیٹ 1.6 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان اور رواں سال اس کے صارفین کی تعداد بڑھ کر دو کروڑ71 لاکھ ہو جائے گی۔
ایف ٹی او نے اپنے حکم میں ایف بی آر سے کہا ہے کہ شکایت کنندہ اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرتے ہوئے ان کو ( آن بورڈ) اعتماد میں لیا جائے اور اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ بنیادی اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اس معاملے پر قوائد ضوابط کی آئندہ مالیاتی بل کے ذریعے منظوری لی جائے۔۔۔۔