قومی اتفاق کی فضا؛ وزیراعظم کی پیشکش پر تحریک انصاف کا مثبت جواب
اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)قومی اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے اپوزیشن کو بات چیت کی پیش کش کرتے ہوئے اتحاد و اتفاق پر زور دیا جس پر تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر گوہر علی خان نے پیش کش کا خیر مقدم کرتے ہوئے قومی مفاہمت کی حمایت کی۔ دونوں جانب سے مثبت اشاروں کے بعد سیاسی کشیدگی میں نرمی اور بات چیت کی امید پیدا ہو گئی ہے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے اپوزیشن کو بات چیت کی پیش کش پر تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر بیرسٹر گوہر علی خان نے مثبت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم بات چیت کی پیش کش کا خیرمقدم کرتے ہیں، پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے ہندوتوا بیانیے سے پاکستان کو تقسیم نہیں کر سکتا، پوری قوم متحد ہے، اور پانچ بھارتی طیارے گرانا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان ہر جارحیت کا فوری جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمران خان پہلے ہی واضح کر چکے تھے کہ بھارت اگر کوئی حرکت کرے گا تو پاکستان سوچے بغیر جواب دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کی بھارت نے مذمت تک نہیں کی، اور ہم مسلسل شہداء کے جنازے اٹھا رہے ہیں، لیکن اب مزید خاموشی نہیں برتی جائے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ”تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی“، قومی اتحاد کے لیے سب کو آگے آنا ہو گا۔
بیرسٹر گوہر نے وزیراعظم کی جانب سے اپنے چیمبر میں ملاقات کی پیشکش کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں، مگر یہ عمل صرف الفاظ نہیں، عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان ملک کے سب سے بڑے عوامی لیڈر ہیں، ان کی اور دیگر سیاسی اسیران کی رہائی قومی مفاہمت کی سمت پہلا قدم ہوگی۔
انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنا کردار ادا کریں تاکہ بات چیت کا عمل سنجیدگی سے آگے بڑھ سکے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل، قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اپوزیشن کو دوستی اور اتحاد کا پیغام دیا۔
انہوں نے کہا کہ ”آج ہمیں پوری دنیا کو دکھانا ہے کہ ہم سب متحد ہیں“۔ وزیراعظم نے پاکستان تحریک انصاف سے اپیل کی کہ وہ قومی مفاد میں اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کرے۔
شہباز شریف نے کہا کہ یہ وقت الزام تراشی یا کیچڑ اچھالنے کا نہیں بلکہ قومی یکجہتی کا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ ذاتی طور پر اپوزیشن لیڈر کے چیمبر میں جا کر ملاقات کرنے کو تیار ہیں، تاکہ اختلافات کو ختم کر کے آگے بڑھا جا سکے۔
وزیراعظم نے اپوزیشن سے گزارش کی کہ وہ مل بیٹھ کر ملک کے وسیع تر مفاد میں بات چیت کا آغاز کریں، تاکہ قومی اتحاد کا مضبوط پیغام دنیا کو دیا جا سکے۔
مزیدپڑھیں:بھارت میں پاکستان کے جوابی حملے کے امکان پر کھلبلی
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی تحریک انصاف بیرسٹر گوہر شہباز شریف بات چیت کی پیش کش کی پیش
پڑھیں:
رانا ثناء اللہ نے تحریک انصاف کے 5 اگست احتجاج کو کامیاب قرار دے دیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔06 اگست ۔2025 ) رانا ثناء اللہ نے تحریک انصاف کے 5 اگست احتجاج کو کامیاب قرار دے دیا، کہا کئی دنوں سے بات کی جا رہی تھی کہ 5 اگست کو تحریک کا عروج ہو گا، تحریک کی جو شکل سامنے آئی اسی کی امید تھی۔(جاری ہے)
تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ اگر سابق وزیراعظم عمران خان کے بیٹے پاکستان آکر سیاست کرنا چاہتے ہیں، رہائی کی تحریک کو لیڈ کرنا چاہتے ہیں تو پھر گرفتاری ان کے لئے بڑی ضروری ہے، وہ گرفتار ہوں گے تو لیڈر بنیں گے.
نجی ٹی وی سے گفتگو میںرانا ثنا اللہ نے کہا کہ عمران خان کے بیٹوں کو ویزے دیئے جائیں گے اگر تو وہ والد سے صرف ملاقات کرنے آئیں تو ان کی ملاقات کی بھی کروائی جائے گی اور سیکیورٹی بھی دی جائے گی، بحفاظت جب تک وہ واپس جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں لیکن اگر وہ یہاں آکر سیاست کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے تحریک کو لیڈ کرنا ہے تو پھر انہیں گرفتار کرنا اس بھی لیے ضروری ہے کہ پھر وہ لیڈر بنیں اور عمران خان کی پارٹی کو لیڈ کریں. رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر وہ یہاں آکر پارٹی کو لیڈ کرتے ہیں تو یقینا اس سے پارٹی کو ایک چہرہ ملے گا یہی اعتراض ہم پر اور پیپلز پارٹی پر کیا کرتے تھے کہ وہاں مورروثی سیاست ہو رہی ہے تاہم اس کی اپنی ایک ویلیو ہے جس کی اب ان کو بھی ضرورت بھی پیش آگئی ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا. وزیر اعظم کے سیاسی مشیر کا ایک سوال کے جواب میں کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو سیاست کرنی چاہیے، پولیٹیکل پارٹیز اور لیڈر شپ کےساتھ بیٹھنا چاہیے انہیں ایسا نہیں کہنا چاہیے کہ ہم صرف اسٹیبلیشمنٹ سے ہی بات کریں گے، سیاست دانوں سے کوئی بات چیت نہیں ہوگی، راستہ جو بھی نکلنا ہے ِادھر سے ہی نکلنا ہے، حالات اور معاملات کو اگر ٹھیک ہونا ہے تو پولیٹیکل پارٹیز اور فورسز نے ہی کرنے ہیں، کوئی اگر یہ کہے کہ باقی سب کو نہیں چھوڑوں گا یا میں ختم کر دوں گا، تو ایسا نہیں ہو سکے گا.