’بھارتیوں کو سچ دکھائی دیتا ہے‘، فیصل قریشی نے مودی سرکار کو آئینہ دکھا دیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
پاکستان شوبز انڈسٹری کے سینئر فنکار، اداکار، پروڈیوسر و میزبان فیصل قریشی نے مودی سرکار اور بالی ووڈ فنکاروں کو میزائل حملوں پر شرم دلائی ہے۔
فیصل قریشی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ انسٹاگرام پر نئی ویڈیوز شیئر کی ہیں، ان ویڈیوز میں اداکار کو بھارتی حکومت اور بالی ووڈ انڈسٹری کو آڑے ہاتھوں لیتے دیکھا جا سکتا ہے۔
فیصل قریشی نے بھارتی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہوش کے ناخن لیں، آپ کو پاکستان سے لڑنے کےلیے کہتا کون ہے؟ اپنی مرضی سے حملے کرتے ہیں اور بعد میں اپنے طیاروں کا بھی نقصان کروا بیٹھتے ہیں۔
انہوں نے ابھینندن کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ آپ کو ابھی بھی عقل نہیں آئی ہے، آپ جھوٹا بیانیہ بیچتے ہیں اور اس میں مودی حکومت اور بالی ووڈ فنکار خوب مہارت رکھتے ہیں۔
فیصل قریشی کا کہنا تھا کہ میڈیا پر مودی حکومت کچھ بھی کہلوالے مگر عام عوام میں بےشمار پڑھے لکھے باشعور لوگ ہیں جو سب اصلیت جانتے ہیں۔
اداکار نے کہا کہ بھارتی فنکاروں پر دباؤ بھی ہوتا ہے، جو بھی نفرت کا بیانیہ پھیلانے والی مودی حکومت کہتی ہے بھارتی فنکار اپنے سوشل میڈیا پر چھاپ دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام میں جو کچھ بھی ہوا بھارتی عوام اچھے طریقے سے جانتی ہے، ہم بھی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں ان حالات سے گزر چکے ہیں، اتنی ڈھٹائی سے بھارتی حکومت جھوٹ بولتی ہے، ہم نے ثبوت مانگے تو ثبوت نہیں دیے اور پھر جب ہم ثبوت پیش کیے تو خاموشی چھا گئی۔
اداکار نے مزید کہا کہ ہم نے آپ کے 5 جہاز گرائے ہیں، آگے خیال رکھیے گا، پاگل نہ بنائیں نہ ہی ہمیں اور نہ ہی اپنی عوام کو۔
یاد رہے کہ 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب میں بھارت نے پاکستان کے 5 مقامات کو میزائل سے نشانہ بنایا تھا۔
دفاعی کارروائی کے دوران پاکستان نے بھارت کے 5 جنگی طیارے مار گرائے تھے۔
پاکستان نے بدھ کو دعویٰ کیا تھا کہ اس نے بھارتی فضائیہ کے پانچ طیاروں کو مار گرایا جن میں تین رافیل طیارے شامل ہیں۔
اب بین الاقوامی میڈیا بھی اس بات کے ثبوت پیش کر چکا ہے کہ ہندوستان کے تین رافیل جہاز تباہ ہوئے تھے۔
ایک اعلیٰ فرانسیسی انٹیلی جنس حکام نے سی این این کو بتایا کہ پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے ایک رافیل لڑاکا طیارے کو مار گرایا جو فرانس میں تیار کردہ اس جدید جنگی طیارے کا پہلی بار جنگ میں تباہ ہونے کا واقعہ ہے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: فیصل قریشی نے کہا کہ
پڑھیں:
بروقت انصاف ہر شہری کا حق ہے، سپریم کورٹ کا سول مقدمات میں تاخیر پر اظہارِ افسوس
سپریم کورٹ نے سول مقدمات میں مسلسل تاخیر اور بار بار ملتوی کیے جانے کے رجحان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بروقت انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور غیر ضروری تاخیر عدالتی نظام کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔
نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے منگل کے روز سول مقدمات میں مسلسل تاخیر اور بار بار ملتوی کیے جانے کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ رویے نہ صرف مقدمات کے بوجھ میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ عدلیہ کی کارکردگی اور ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
جسٹس شکیل احمد نے لاہور ہائی کورٹ کے 21 مئی کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ سول تنازعات کا بروقت حل صرف فریقین کا قانونی حق نہیں بلکہ ایک مؤثر عدالتی عمل کی لازمی خصوصیت بھی ہے۔
انہوں نے اپنے 11 صفحات کے فیصلے میں کہا کہ تحقیق کے مطابق مقدمات کو بار بار اور بلاوجہ ملتوی کرنا تاخیر کی سب سے بڑی وجہ ہے، جس سے فریقین کو مالی اور ذہنی نقصان ہوتا ہے، عوام کا عدلیہ پر اعتماد کم ہوتا ہے اور بروقت انصاف کا حق متاثر ہوتا ہے۔
یہ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب عرفان رشید نے 25 کنال زمین 90 لاکھ روپے میں خریدی، جس میں سے 39 لاکھ روپے بطور ایڈوانس 5 جون 2018 کو ادا کیے گئے، تحریری معاہدہ طے پایا اور پراپرٹی اس حد تک مدعی کے نام منتقل کر دی گئی۔
بعد میں مدعا علیہان نے اپنی باقی ذمہ داریاں پوری کرنے سے انکار کر دیا، اس پر مدعی نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا، جس میں عدالت نے عارضی حکم جاری کیا، اسی دوران مدعا علیہان نے معاہدہ منسوخ کرنے کے لیے الگ مقدمہ دائر کیا، جس کا فیصلہ 18 جولائی 2019 کو ان کے حق میں ہوا۔
مدعی نے سول کارروائی کے ضابطہ، 1908 (سی پی سی) کے سیکشن 12(2) کے تحت حکم اور فیصلہ کالعدم کرنے کی درخواست دائر کی، جس میں دھوکہ دہی اور غلط بیانی کا دعویٰ کیا اور کہا کہ یہ حکم دیگر مدعا علیہان کے ساتھ سازش کے تحت حاصل کیا گیا۔
مدعا علیہان نے تحریری جواب کے ذریعے اس درخواست کی مخالفت کی، بعد میں ٹرائل کورٹ نے 29 جنوری کو آرڈر 17 رول 3 سی پی سی کے تحت یہ درخواست مسترد کر دی، اپیل کورٹ نے 12 اپریل کو اس فیصلے کو برقرار رکھا اور لاہور ہائی کورٹ میں دائر آئینی درخواست بھی اسی طرح خارج کر دی گئی۔
جسٹس شکیل احمد نے 2015 کے رانا تنویر خان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور ہدایت دی تھی کہ صرف معقول وجوہات پر ہی ملتوی کرنے کی اجازت دی جائے، جب کہ مقدمات میں تاخیر کی کوششوں کو سختی سے روکا جائے۔
اسی طرح 2020 کے مون انٹرپرائزز کیس میں سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ سختی سے عملدرآمد کریں اور واضح طور پر بتائیں کہ اگر مقررہ وقت میں ثبوت پیش نہ کیے گئے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے، جن میں ثبوت بند کرنا بھی شامل ہے۔
مزید یہ کہ 1976 کے سیٹلمنٹ اتھارٹی کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ اگر کوئی فریق یا اس کا اصل وکیل موجود نہ ہو تو وکیل کی طرف سے ملتوی کرنے کی درخواستیں عام طور پر قبول نہیں کی جانی چاہییں۔
جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ یہ تمام مقدمات اس بات کی یاددہانی ہیں کہ فریقین کو عدالت کی کارروائی میں سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ حصہ لینا چاہیے، بار بار ثبوت پیش کرنے کے لیے ملتوی کرنا، سی پی سی کے رول 3 کے مقصد کے خلاف ہے۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ جب عدالت کسی فریق کو مناسب مواقع دے چکی ہو تو اس کے بعد ثبوت پیش کرنے کا حق ختم ہو جاتا ہے اور عدالت کو دستیاب ریکارڈ کی بنیاد پر فیصلہ سنانا چاہیے۔
1986 کے گل حسن کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ اگر کوئی فریق بار بار ملتوی کروانے کے باوجود ثبوت پیش نہ کرے تو ایسی تاخیر ناقابلِ قبول ہے اور مقدمہ خارج کیا جا سکتا ہے، اس اصول کا مقصد عدالتی کارروائیوں میں غیر ضروری تاخیر کو ختم کرنا اور یہ یقینی بنانا ہے کہ جو فریق اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا، وہ مقدمے کو بلاوجہ لمبا نہ کرے۔
جسٹس شکیل احمد نے زور دیا کہ ہر فریق کو اپنا مقدمہ پیش کرنے کا معقول موقع ملنا چاہیے، لیکن یہ حق لامتناہی ملتوی کرنے یا بار بار رعایت لینے کی اجازت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔