بجلی کی قیمت کے سرکاری اعلان کے بعد بتایا جا رہا تھا کہ اب حکومت پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم کرنے جا رہی ہے اگر ایسا ہو بھی جاتا تو یہ حکومت کا عوام پر کوئی احسان نہیں تھا نہ سرکاری خزانے پر اثر پڑنا تھا کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی و بیشی عالمی سطح پر طے ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں ہوتا یہ آ رہا ہے کہ عالمی طور پر قیمت بڑھے تو ملک میں فوری قیمت بڑھا دی جاتی ہے اور اگر کم ہو تو معمولی ریلیف تو حکومت دیتی ہی نہیں اگر زیادہ کمی ہو جائے تو حکومت قیمت تبدیلی کے وقت کا انتظار کرتی ہے اور پورا ریلیف کبھی عوام کو نہیں دیتی کیونکہ پٹرولیم مصنوعات بھی حکومتی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے جس کے ذریعے ہی حکومت ان اپنوں کو مزید نوازتی ہے جو پہلے سے ہی لاکھوں روپے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں اور ان کی طرف سے تنخواہیں اور مراعات نہ بڑھانے کی کوئی شکایت بھی نہیں آتی مگر حکومت عوام سے زیادہ ان کا زیادہ خیال رکھتی ہے اور انھیں مزید نواز کر قومی خزانے پر ماہانہ کروڑوں روپے کا بوجھ بڑھا دیتی ہے جو عوام بڑھتے ٹیکسوں کی صورت میں ادا کرتے آ رہے ہیں۔
اس بار بھی ایسا ہی ہوا عوام کو پٹرول سستا کرنے کا خواب دکھایا گیا مگر راتوں رات پٹرولیم لیوی 72 روپے سے 80 روپے کر کے عوام کو عالمی ریلیف سے محروم کر دیا گیا۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے پر یقین نہیں رکھتی اور اسی لیے عوام سے وعدے ضرور کیے گئے مگر ڈھائی سالوں میں معمولی ریلیف بھی نہیں دیا گیا۔
بجلی کی قیمت اسی حکومت نے بڑھائی تھی اور صرف سات روپے تک کم کر کے اپنی فیاضی کا ڈنکا ضرور پیٹ لیا اور عالمی سطح پر ملنے والا پٹرولیم ریلیف بھی بلوچستان کے لیے منتقل کر دیا جس سے عوام پھر محروم رہ گئے اور انھوں نے اسے اپنی طرف سے بلوچستان کے لیے قربانی سمجھ لیا اور ایسی قربانی عوام سے ہی لی جاتی رہی ہے ۔ حکومت نے عوام سے قربانی نہیں قربانیاں لینے کا ریکارڈ ضرور قائم کر دیا ہے کیونکہ اس کے نزدیک صرف عوام ہی کو قربانی دینی چاہیے باقی کی قربانی حکومت کے لیے قابل قبول نہیں اور نہ عوامی قربانی دینا اعلیٰ اشرافیہ اور حکومت کا کام ہے اور ہر بار صرف عوام ہی قربانی دیتے اور باقی کی قربانی بنتی ہی نہیں کیونکہ وہ صرف مراعات حاصل کرنے اور عوام قربانی دینے کے اہل ہیں۔
ویسے بھی بلوچستان کا احساس حکمرانوں کو نہیں صرف پاکستانیوں کو ہے جو اپنے ملک کے اس صوبے بلوچستان کے حالات پر پریشان ہیں کہ جہاں دہشت گرد تنظیموں نے بھارت کی مالی سرپرستی میں دہشت گردی کی انتہا کر رکھی ہے جہاں سب سے بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والے غریبوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے مگر پنجاب سمیت ملک بھر میں ان دہشت گردوں کی بربریت کے خلاف احتجاج ہوا نہ کسی کو نقصان پہنچایا گیا حالانکہ بلوچوں کی اکثریت دہشت گردوں کی حامی نہیں ہے اور وہاں کے طلبا کی بڑی تعداد اپنے صوبے سے باہر جا کر وہاں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہے جو ان کا بنیادی اور آئینی حق ہے اور وہی نہیں بلکہ بلوچ سردار بھی اپنے بچوں کو اپنے صوبے سے باہر تعلیم دلا رہے ہیں کیونکہ یہ سب خود کو اپنے صوبے سے باہر محفوظ سمجھتے ہیں اور آزادی سے رہ رہے ہیں۔
دہشت گردوں کی خفیہ اور کھلی حمایت کرنے والوں کی ان مذموم سرگرمیوں پر محب وطن حلقوں میں ضرور تشویش ہے ،بلوچستان میں سردار غریب عوام کے نام پر حکومت سے کروڑوں روپے وصول کرتے ہیں مگر دہشت گردی کے واقعات پر خاموش رہتے ہیں اور علیحدگی پسند چند ہزار دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہیں بولتے اور دہشت گردی روکنے کے لیے نہ کوئی قومی کردار ادا کرتے ہیں اور نہ دہشت گردوں کے بے بنیاد پروپیگنڈے سے متاثر نوجوانوں کو سمجھاتے ہیں نہ حقائق بتاتے ہیں کہ پس ماندگی صرف بلوچستان میں نہیں ملک بھر میں ہے کہیں کم کہیں زیادہ، مگر بلوچستان میں اس لیے زیادہ ہے کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے کام کرنے والوں کو وہاں کام کرنے دیا جاتا ہے نہ وہ وہاں محفوظ ہیں۔
بلوچستان کی ترقی اور مسائل میں اضافہ انھی رکاوٹوں کے پیدا کیے جانے کی وجہ سے ہے جو بلوچ عوام کی فلاح و بہبود اور صوبے کی ترقی نہیں چاہتا اور ان دونوں ہی کو پس ماندہ رکھ کر خود مال کما رہا ہے کیونکہ اسی میں ان کا مالی و سیاسی فائدہ ہے۔ بلوچ عوام کو صوبے میں اکثر جگہوں پر غربت و پسماندگی کا بتا کر گمراہ تو کیا جاتا ہے مگر حکومت، مفاد پرست سرداروں اور سیاستدانوں کو حقائق بتانے کی توفیق نہیں ہوتی اور انھیں مسلسل گمراہ کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ ضرور ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ بہت سے افراد دہشت گردوں کے فریب میں آ کر اپنے گھروں سے غائب ہو کر دہشت گردوں سے جا ملتے ہیں اور یہی لوگ پھر احتجاج کرتے ہیں کہ صوبے سے لوگ غائب کیے جا رہے ہیں جس سے حکومت بدنام کی جاتی ہے مگر حقائق منظر عام پر ضرور آ جاتے ہیں۔
بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ موجود ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور یہ مسئلہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی زیر سماعت ہے جہاں کہا جا چکا ہے کہ ایسا کرنا غیر آئینی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے،دوسری جانب تفتیش میں مہینوں نہیں سالوں گزر جاتے ہیں جس سے بدنامی ہو رہی ہے اور ملک دشمنوں کو احتجاج کا موقعہ مل جاتا ہے۔
جعفر ایکسپریس کے واقعے پر پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعلیٰ نے اس دہشت گردی کی مذمت کرنے کی بجائے اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جو ناکام رہی مگر شرپسندوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور حکومتی مشکلات بڑھیں۔ حکومت نے اپنے شاہانہ اخراجات کم کرنے کی بجائے عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی رعایت سے فائدہ اٹھایا اور اس رقم سے ایک خونی سڑک کی تعمیر پر یہ رقم خرچ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے بلوچ عوام اور صرف صوبے کو فائدہ پہنچایا جائے تو عوام کو بھی اعتراض نہیں ہوگا اور وہی قربانی بھی دے دیں گے مگر عوام کی یہ رقم مفاد پرست سرداروں، سیاستدانوں اور بیورو کریسی کے مفاد کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے اور رقم کا منصفانہ اور حقیقی استعمال ہونا چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پٹرولیم مصنوعات بلوچستان میں ہیں اور عوام سے کی قیمت رہے ہیں عوام کو اور ان کے لیے ہے مگر رہا ہے ہے اور رہی ہے
پڑھیں:
بلوچ شناخت کے نام پر بدامنی پھیلانے والےدراصل بلوچ قوم کی عزت و وقار پر دھبہ ہیں، آرمی چیف
آرمی چیف جنرل عاصم منیر چیف نے کہا ہے کہ ایسے دہشت گرد گروہ جو بلوچ شناخت کے نام پر بدامنی پھیلاتے ہیں، دراصل بلوچ قوم کی عزت و وقار پر دھبہ ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سپہ سالار نے ان خیالات کا اظہار جی ایچ کیو میں 15ویں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے شرکا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف نے آج جنرل ہیڈکوارٹر میں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے 15ویں سیشن کے شرکا سے ملاقات کی۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ورکشاپ 2016 سے جاری ہے جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ، بیوروکریٹس، سول سوسائٹی، نوجوانوں، ماہرینِ تعلیم اور میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد شامل ہوتی ہے، ورکشاپ میں مختلف سیمینارز، گروپ مباحثے اور ملک کے مختلف علاقوں کے دورے شامل ہوتے ہیں۔
بیان کے مطبق ان کا مقصد بلوچستان کے مستقبل کے قائدین کو قومی اور صوبائی سطح کے اہم امور کی بہتر تفہیم دینا اور مشترکہ قومی ردعمل کی تیاری ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطباق آرمی چیف نے بلوچستان کے سماجی و اقتصادی حالات میں بہتری کے لیے حکومت کی مسلسل کوششوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ موجودہ اور مستقبل کے ترقیاتی منصوبوں کی وسعت ان تمام گمراہ کن پروپیگنڈوں کو رد کرنے کے لیے کافی ہے۔
سپہ سالار کا کہنا تھا کہ کئی منصوبے اب نتائج دے رہے ہیں جن سے بلوچستان کے عوام براہ راست مستفید ہو رہے ہیں۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق آرمی چیف نے بلوچستان کے نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے میں سول سوسائٹی کے کردار کو سراہا اور کہا کہ سول سوسائٹی کی شراکت سے ترقی اور خوشحالی کا عمل مزید مضبوط ہوگا۔
جنرل عاصم منیر نے کہا کہ غیر ملکی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی بلوچستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، شرپسند عناصر جو پرتشدد کارروائیوں، خوف و ہراس اور عدم استحکام کے ذریعے بلوچستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں، ان کے ناپاک عزائم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیے جائیں گے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، مسلک یا قومیت نہیں ہوتی اور اس کا مقابلہ صرف قومی اتحاد اور پختہ عزم سے ممکن ہے۔ ایسے دہشت گرد گروہ جو بلوچ شناخت کے نام پر بدامنی پھیلاتے ہیں، دراصل بلوچ قوم کی عزت و وقار پر دھبہ ہیں۔
آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان خطے اور دنیا میں امن کا خواہاں ہے، تاہم اگر پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو چیلنج کیا گیا تو قوم کی عزت اور عوام کی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھرپور طاقت سے جواب دیا جائے گا۔
جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو عوام کی مکمل حمایت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ورکشاپ کا اختتام سوال و جواب کے سیشن کے بعد ہوا۔