بھارت اپنی پراکسیز کے ذریعے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے، سید مصطفی کمال
اشاعت کی تاریخ: 5th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اگست2025ء)وفاقی وزیر برائے قومی صحت سید مصطفی کمال نے کہا ہے کہ بھارت اپنی پراکسیز کے ذریعے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے، ہم نے جس طرح متحد ہو کر حالیہ جنگ میں بھارت کو شکست دی، مستقبل میں بھی ہمیں اسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ منگل کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہیں، ہمارے دل اور جذبات ہمارے کشمیریوں بہن بھائیوں کے ساتھ ہیں، بھارت نے ظالم ہے اور اپنے ظلم کو جاری رکھنے کیلئے بھارت نے پاکستان میں کئی محاذ کھولے تاکہ مسئلہ کشمیر پس پشت چلا جائے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی میں بھارت اور بھارتی ایجنسیاں ملوث ہیں، بھارت نے کراچی میں بھی محاذ کھول رکھا تھا، بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے کراچی میں فنڈنگ کی تھی۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ ہم نے کشمیر کی جنگ کراچی میں لڑی ہے، پاکستان میں اب دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے، کراچی میں امن ہے، حالیہ جنگ میں فتح پر فیلڈ مارشل عاصم منیر، پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے سربراہوں، افواج پاکستان، حکومت، تمام سیاسی جماعتوں اور پوری قوم جس نے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کیا اس پر مبارکباد دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ اس اتحاد کو قائم و دائم رکھے، یہ ہمارے سیکھنے کا بہترین موقع ہے، بھارت پاکستان میں پراکسیز کی حمایت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں کوئی بھی واقعہ ہو تو الزام براہ راست پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے، ہمیں بھارتی دہشت گردی کو بے نقاب کرنا ہو گا، ہمیں اپنے نوجوانوں کو آگاہ کرنا ہو گا کہ بھارت ہمارا دشمن ہے، بھارت کے خلاف پوری قوم پاک فوج کے ساتھ مل کر سیسہ پلائی دیوار بن گئی، بھارت کو شکست فاش ہوئی اور اب اسے اندرونی اور عالمی سطح پر مسلسل ناکامی کا سامنا ہے، ہمیں اپنے اندرونی اختلافات کو چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہئے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ میں بھارت کراچی میں کہ بھارت
پڑھیں:
’’سوشل میڈیا کے شور میں کھویا ہوا انسان‘‘
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-03-4
سید محمد علی
دنیا ایک ایسی سمت میں جا رہی ہے جہاں آوازیں بہت ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ ہر شخص اپنی بات کہنے کے لیے بے چین ہے، مگر دوسروں کی بات سننے کی طاقت کھو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے اس شور میں انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ؛ اس کا احساس کہیں گم ہو گیا ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں بولنے والے لاکھوں ہیں، مگر سمجھنے والے مفقود۔ ہم ایک ایسی خاموش نسل بن چکے ہیں جو اپنے ہی شور میں دب کر رہ گئی ہے۔ سوشل میڈیا کو ابتدا میں ایک انقلاب سمجھا گیا۔ اسے اظہارِ رائے، آزادی، اور انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ مگر آہستہ آہستہ یہی انقلاب ایک ایسی زنجیر بن گیا جس نے ہمیں اپنی اسکرین کے اندر قید کر دیا۔ اب ہر لفظ بولنے سے پہلے ہم یہ سوچتے ہیں کہ کتنے لوگ دیکھیں گے، لائک کریں گے یا کمنٹ کریں گے۔ ہماری تحریر اور تقریر سچائی کے بجائے تاثر کے تابع ہو گئی ہے۔ ہم اپنی حقیقی زندگی کے احساسات سے زیادہ مجازی دنیا کی واہ واہ میں الجھ گئے ہیں۔ انسان کے لیے کبھی گفتگو دلوں کا رابطہ تھی، مگر اب وہ پوسٹس، ریلز اور اسٹوریز میں بدل گئی ہے۔ ایک وقت تھا جب چہرے پڑھنے، لہجے محسوس کرنے، اور آنکھوں سے بات کرنے کا فن عام تھا۔ اب سب کچھ اسکرین کے فریم میں قید ہو چکا ہے۔ ہم نے احساس کو تصویروں میں، جذبات کو ایموجیز میں، اور رشتوں کو نوٹیفکیشنز میں بدل دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ہزاروں فالورز ہیں مگر ایک سچا سننے والا نہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمیں ظاہری طور پر جوڑ دیا، مگر حقیقت میں فاصلہ بڑھا دیا۔ ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے کی تصویریں دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں مگر ان لمحوں کو جیتے نہیں۔ ہم دوسروں کی تصویری خوشیوں کو دیکھ کر اپنی حقیقت سے دور ہو رہے ہیں۔ ہر شخص دوسرے کی زندگی کو اپنے معیار سے بہتر سمجھنے لگا ہے، اور یہ احساسِ کمتری ہمارے اندر ایک خاموش اضطراب پیدا کر رہا ہے۔ یہ وہ اضطراب ہے جو چیختا نہیں، بس اندر ہی اندر انسان کو کھا جاتا ہے۔ لوگ اپنے دکھ، پریشانی یا کمزوریوں کو سوشل میڈیا پر ظاہر نہیں کرتے کیونکہ یہاں کمزور ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سب کچھ ’’پرفیکٹ‘‘ دکھانا ایک دباؤ بن چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہم سب مسکراتے چہروں کے پیچھے تھکے ہوئے، خالی دلوں کے ساتھ جی رہے ہیں۔ ہم نے مکالمے کو تبصرے سے بدل دیا ہے۔ اب اختلافِ رائے برداشت نہیں ہوتا، بلکہ ’’کینسل کلچر‘‘ نے سنجیدہ بات چیت کی جگہ لے لی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے رد کرنے لگے ہیں۔ کبھی اختلاف بات کو آگے بڑھاتا تھا، اب وہ تعلق ختم کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں رائے دینے کا حوصلہ تو دیا ہے مگر برداشت کا حوصلہ چھین لیا ہے۔ سماجی سطح پر بھی یہ تبدیلی گہری ہو رہی ہے۔ نوجوان نسل اب حقیقی تعلقات میں کم دلچسپی رکھتی ہے۔ دوستیاں، محبتیں، حتیٰ کہ خاندانی گفتگو بھی آن لائن میسجز تک محدود ہو گئی ہیں۔ ایک وقت تھا جب گھروں میں کھانے کی میز گفتگو سے روشن ہوتی تھی، اب ہر ہاتھ میں ایک موبائل ہے اور ہر نگاہ ایک اسکرین پر جمی ہے۔ گھر وہ جگہ تھی جہاں دل آرام پاتے تھے، اب وہ وائی فائی کے سگنلز کے مرکز بن چکے ہیں۔ انسان نے مشینوں کو بنانے کے بعد سوچا تھا کہ یہ اس کی زندگی آسان کریں گی، مگر آہستہ آہستہ انہی مشینوں نے اس کے جذبات کو منجمد کر دیا۔ اب ہمارے احساسات ڈیجیٹل ردعمل کے تابع ہیں۔ کوئی ہمیں لائک نہ کرے تو ہم خود کو کم تر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری خود اعتمادی دوسروں کے کلکس پر منحصر ہو گئی ہے۔ یہ وہ غلامی ہے جو زنجیروں سے نہیں، ذہن سے جکڑتی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ سوشل میڈیا مکمل طور پر نقصان دہ ہے۔ دراصل، یہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کیا بن گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کی طاقت اسی وقت مثبت ثابت ہو سکتی ہے جب ہم اسے شعور کے ساتھ استعمال کریں۔ اگر ہم اسے اظہارِ احساس، آگاہی، اور فلاحِ انسانیت کے لیے استعمال کریں تو یہ معاشرتی ترقی کا زبردست ذریعہ بن سکتا ہے۔ مگر جب یہی پلیٹ فارم خودنمائی، حسد اور نفرت کے فروغ کا ذریعہ بن جائے، تو پھر یہ انسانیت کے زوال کا سبب بنتا ہے۔ اصل مسئلہ ٹیکنالوجی نہیں بلکہ وہ انسان ہے جس نے اپنی انسانیت کو اس کے تابع کر دیا۔ ہم نے مشینوں کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے انہیں اپنے احساس پر حاوی کر دیا۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس شور میں اپنی آواز پہچانیں، اپنی خاموشی سنیں، اور اپنے دل کی زبان سے دوبارہ جڑیں۔ انسان کو دوبارہ ’’انسان‘‘ بننے کے لیے شاید صرف ایک لمحہ درکار ہے، وہ لمحہ جب وہ اپنی اسکرین بند کر کے کسی کے چہرے کو دیکھے، کسی کی بات سنے، یا کسی کی خاموشی کو محسوس کرے۔ یہی وہ لمحہ ہے جو ہمیں احساس کی طرف لوٹا سکتا ہے۔ جب ہم دوسروں کی بات سننا شروع کریں گے، تبھی اپنی اندرونی خاموشی کا علاج ممکن ہو سکے گا۔ سوشل میڈیا کے ہجوم میں اگر کوئی چیز ہمیں دوبارہ انسان بنا سکتی ہے تو وہ احساس، مکالمہ اور سچائی ہے۔ ہمیں اس دنیا میں واپس جانا ہوگا جہاں گفتگو لفظوں سے زیادہ دلوں کے درمیان ہوتی تھی، جہاں مسکراہٹ پیغام سے زیادہ مخلص تھی، اور جہاں ملاقات صرف مجازی نہیں بلکہ حقیقی تھی۔ ہم اس زمانے کے مسافر ہیں جہاں آوازیں بہت ہیں، مگر سننے والا کوئی نہیں۔ جہاں ہر روز لاکھوں پوسٹس اپلوڈ ہوتی ہیں مگر ایک سچا جذبہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہی ہماری خاموشی ہے۔ اور یہی ہمارے زوال کی سب سے اونچی چیخ۔ جب تک ہم سننے اور محسوس کرنے کی صلاحیت واپس نہیں لاتے، تب تک یہ شور ہمیں مزید گہری خاموشی میں دھکیلتا رہے گا۔