بری خبر ، سینکڑوں ملازمین کو فارغ کر دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
گوگل نے منگل کے روز اپنی عالمی کاروباری یونٹ میں تقریباً 200 ملازمین کی نوکریاں ختم کردیں جو سیلز اور پارٹنرشپس کی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔ یہ اطلاع ”دی انفارمیشن“ نے بدھ کو دی، جس میں ایک شخص کا حوالہ دیا گیا ہے جو اس صورتحال سے واقف ہے۔رپورٹ کے مطابق بڑی ٹیک کمپنیاں اب اپنے اخراجات کو ڈیٹا سینٹرز اور مصنوعی ذہانت (AI) کی ترقی کی طرف منتقل کر رہی ہیں، جبکہ دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کو کم کر رہی ہیں۔
گوگل نے رائٹرز کو ایک بیان میں کہا کہ کمپنی مختلف ٹیموں میں ”چھوٹے پیمانے پر تبدیلیاں“ کر رہی ہے تاکہ ”بہتر تعاون کو فروغ دیا جا سکے اور اپنے صارفین کو تیزی سے اور مؤثر طریقے سے خدمت فراہم کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جا سکے۔“رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ ”دی انفارمیشن“ نے رپورٹ کیا تھا کہ گوگل نے اپنی پلیٹ فارمز اور ڈیوائسز یونٹ میں سینکڑوں ملازمین کو فارغ کر دیا تھا، جس میں اینڈرائیڈ پلیٹ فارم، پکسل فونز اور کروم براؤزر سمیت دیگر ایپلیکیشنز شامل ہیں۔
جنوری 2023 میں گوگل کی کمپنی الفابیٹ نے 12,000 نوکریاں ختم کرنے کے اپنے منصوبے کا اعلان کیا تھا، جو اس کی عالمی ورک فورس کا 6 فیصد بنتا ہے۔ کمپنی کے مطابق، دسمبر 31، 2024 تک گوگل کی ملازمین کی تعداد 183,323 تھی۔
مجموعی طور پر دیگر بڑی ٹیک کمپنیوں میں بھی بڑے پیمانے پر ملازمتوں کے خاتمے کا سلسلہ جاری ہے۔ فیس بک کی مالک کمپنی میٹا نے جنوری میں اپنے ”سب سے کم کارکردگی دکھانے والے“ ملازمین کا تقریباً 5 فیصد حصہ نکال دیا، جبکہ مشین لرننگ انجینئرز کی فوری بھرتی کے عمل کو بھی تیز کیا۔
مائیکروسافٹ نے ستمبر میں اپنے ایکس باکس یونٹ میں 650 ملازمین کی کمی کی، جبکہ ایمیزون نے بھی مختلف یونٹس میں ملازمین کو فارغ کیا، جن میں کمیونیکیشن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایپل نے بھی گزشتہ برس اپنی ڈیجیٹل سروسز گروپ میں تقریباً 100 ملازمتوں کو ختم کر دیا تھا۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
NLFپاکستان کا گیپکو ملازمین کی شہادت پر اظہار افسوس
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گزشتہ روز کوٹلی لوہاراں میں پیش آنے والے ایک دلخراش حادثے میں گیپکو کے چار محنت کش اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر گئے۔ شہداء میں کلیم اللہ (ALM، سکنہ ہنوں گکھڑ)، عرفان احمد (ALM، سکنہ پتوکی)، راحیل (مکینک، سکنہ کجھوروال، عارضی ملازم) اور اکرم (سکنہ کوٹلی چندو، عارضی ملازم) شامل ہیں، جو محکمانہ غفلت اور حفاظتی اقدامات کی عدم فراہمی کے باعث دورانِ ڈیوٹی شہید ہوئے۔
نیشنل لیبر فیڈریشن پاکستان کے صدر شمس الرحمن سواتی، صدر این ایل ایف سیالکوٹ فریاد حسین شاہ اور جنرل سیکرٹری امانت علی خاکی نے شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کی، فاتحہ خوانی کی اور لواحقین کو دلاسہ دیا۔ اس موقع پر انہوں نے کوٹلی لوہاراں گرڈ اسٹیشن کا بھی دورہ کیا جہاں گیپکو کے SE جمشید، XEN دانش چانڈیو، SDO اور دیگر افسران و ملازمین سے حادثے کی تفصیلات حاصل کیں۔
شمس الرحمن سواتی نے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ المناک سانحہ محکمانہ غفلت اور بنیادی حفاظتی اصولوں (Safety Protocols) کی کھلی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔ حادثے کے وقت کھمبے کی تنصیب یا منتقلی کے لیے کوئی مشینری یا کرین فراہم نہیں کی گئی تھی، نہ ہی کام کرنے والے ملازمین کو ذاتی حفاظتی سامان (PPE: Personal Protective Equipment) جیسے انسولیٹڈ دستانے، ہارنس، ہیلمٹ اور وولٹیج ڈٹیکٹر مہیا کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کسی سینئر سپروائزر کی موجودگی بھی یقینی نہیں بنائی گئی، جو NEPRA Safety Code 2022 اور Pakistan Electrical Safety Standards (PEES) کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کی تنصیبات پر کام کرتے وقت Lockout/Tagout (LOTO) Procedure، لائن کلیئرنس، اور گراؤنڈنگ جیسے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانا لازم ہے تاکہ اچانک بجلی بحال ہونے سے حادثات نہ ہوں۔ یہ سب حفاظتی اقدامات بین الاقوامی معیار، خصوصاً OSHA (Occupational Safety and Health Administration) Standards – 29 CFR 1910.269 کے مطابق لازمی قرار دیے گئے ہیں۔
شمس الرحمن سواتی نے حکومت اور گیپکو انتظامیہ سے درج ذیل مطالبات کیے:
شہداء کے ورثاء کو آرمی شہداء کے برابر مالی پیکج اور تمام مراعات دی جائیں۔
حادثے کی غیر جانبدارانہ انکوائری محکمہ سے باہر کے آزاد ماہرین پر مشتمل کمیٹی سے کرائی جائے۔
تمام فیلڈ اسٹاف کو جدید حفاظتی آلات (PPE) فراہم کیے جائیں اور ان کے استعمال کو سختی سے یقینی بنایا جائے۔
اسٹاف کی کمی پوری کی جائے تاکہ ملازمین کو اوورلوڈ نہ کیا جائے اور حادثات کے خطرات کم ہوں۔
تمام لائن اسٹاف کی ریگولر ٹریننگ اور ریفریشر کورسز NEPRA اور OSHA گائیڈ لائنز کے مطابق کرائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس حادثے پر بھی محکمے نے آنکھیں بند رکھیں تو یہ رویہ انسانیت سوز اور مجرمانہ غفلت تصور ہوگا۔ حکومت، عدلیہ، میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس مسئلے پر فوری ایکشن لینا ہوگا تاکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔