وزارت اقتصادی اُمور کے ہیک شدہ اکاؤنٹ سے قرض کی اپیل اور کراچی پورٹ کی تباہی کی خبر: ’انڈین میڈیا آؤٹ آف کنٹرول ہو چکا ہے‘
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
جمعرات کی شب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو تباہ کرنے، ایف 16 لڑاکا طیارے گرائے جانے اور انڈین نیوی کی جانب سے کراچی بندرگاہ پر پاکستان نیوی کے جہازوں کو نشانہ بنائے جانے والی فیک نیوز کے بعد انڈین ذرائع ابلاغ پر جمعہ کی صبح پاکستان سے متعلق جن ’خبروں‘ نے جگہ بنائی وہ بھی کافی دلچسپ ہیں۔انڈیا کے بڑے میڈیا اداروں نے پاکستان سے متعلق یہ خبریں شائع کیں کہ انڈیا، پاکستان کشیدگی میں ہونے والے حالیہ نقصانات کے بعد پاکستان نے اپنے بین الاقوامی شراکت داروں سے ’مزید قرض دینے اور کشیدگی کو کم کروانے میں مدد کی اپیل کی ہے۔‘اسی طرح ایک اور خبر ایک حکومتی ادارے ’کراچی پورٹ ٹرسٹ‘ کے حوالے سے دی گئی جس میں بتایا گیا کہ پاکستانی حکام نے کراچی پورٹ کو پہنچنے والے نقصانات کی تفصیل جاری کر دی ہے اور یہ کہ پورٹ کو انڈین حملے میں شدید نقصان پہنچا ہے۔یہ خبریں پوسٹ ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بازگشت شروع ہو گئی اور یہ خبریں بڑے پیمانے پر شیئر کی جانے لگیں۔اس معاملے کی ابتدا جمعہ کی صبح ہوئی جب پاکستان میں وزارت برائے اقتصادی أمور اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ہیک ہو جانے والے آفیشل 'ایکس' اکاؤنٹس سے چند ٹویٹس کی گئیں۔وزرات اقتصادی أمور کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ سے جمعہ کی صبح یہ ٹویٹ کی گئی کہ ’دشمن کے ہاتھوں بھاری نقصان کے بعد حکومت پاکستان بین الاقوامی شراکت داروں سے مزید قرضوں کی اپیل کرتی ہے۔ بڑھتی جنگ اور سٹاک کریش کے درمیان ہم بین الاقوامی شراکت داروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ کشیدگی کم کرنے میں مدد کریں۔‘یہ ٹویٹ اس اکاؤنٹ پر لگ بھگ تین گھنٹے تک موجود رہی۔ بعدازاں وزارت کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزارت کا اکاؤنٹ ہیک ہو گیا جس کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ دیر بعد آگاہ کیا گیا کہ ہیک ہونے والا اکاؤنٹ فی الحال ڈی ایکٹیویٹ (غیر فعال) کروایا گیا ہے۔بیان کے مطابق ’دشمن نے ایکس اکاؤنٹ ہیک کر کے پاکستان انڈیا کشیدگی کے حوالے سے نامناسب پوسٹ کی اور عالمی اداروں کے سامنے پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش کی۔‘اسی طرح جمعہ کی صبح ہی کراچی پورٹ کے ایکس اکاؤنٹ سے بھی ٹویٹ کی گئی تھی کہ انڈین حملے کے بعد بندرگاہ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ تاہم بعدازاں متعلقہ حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کا آفیشل اکاؤنٹ ہیک کر لیا گیا ہے۔کراچی پورٹ ٹرسٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’انڈیا کی جانب سے اکاؤنٹ ہیک کر کے فیک نیوز چلائی گئی تاہم اب اکاؤنٹ کو بحال کر لیا گیا ہے۔‘ بیان کے مطابق ’پورٹ پر کارگو ہینڈلنگ معمول کے مطابق جاری ہے اور کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کراچی پورٹ ٹرسٹ جمعہ کی صبح اکاؤنٹ ہیک کی جانب سے گیا ہے کے بعد گیا کہ
پڑھیں:
ہر 15 سال بعد کیا تباہی آنے والی ہے؟ اے آئی کی پاکستان سے متعلق خوفناک پیش گوئی
نئی سائنسی تحقیق نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے تشویشناک انکشافات کیے ہیں۔ جنوبی کوریا کی پوسٹیک (پوہانگ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) کے پروفیسر جونگہُن کام کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق پاکستان آئندہ برسوں میں وقتاً فوقتاً ’سپر فلڈز‘ اور ’شدید خشک سالی‘ کا سامنا کرے گا۔
یہ تحقیق معروف جریدے ’انوائرنمنٹل ریسرچ لیٹرز‘ میں شائع ہوئی ہے اور اس تحقیق کو POSTECH کے ڈویژن آف انوائرمنٹل سائنس اینڈ انجینئرنگ کے پروفیسر جونگہُن کام اور پی ایچ ڈی طالب علم حسن رضا نے، چین کی سن یات سین یونیورسٹی کے پروفیسر داگانگ وانگ کی ٹیم کے اشتراک سے مکمل کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ سنگین پیش گوئیاں تیزی سے بڑھتی ہوئی عالمی حدت یا گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہیں، جو دنیا بھر میں غیر معمولی موسمی واقعات کو جنم دے رہی ہے، خاص طور پر ان خطوں میں جو گلیشیئرز کے پگھلنے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم نے پاکستان کو اس لیے فوکس کیا کیونکہ اس کے بڑے دریا، خصوصاً دریائے سندھ، ملک کی بقا کے ضامن ہیں۔ تاہم موسمیاتی تبدیلیوں نے آبی وسائل کے مؤثر انتظام کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ بطور ’گلوبل ساؤتھ‘ ملک، پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے شدید متاثر ہے اور تحقیق کے لیے مطلوبہ معاشی و تکنیکی ڈھانچے سے محروم ہے۔
پروفیسر کام اور ان کی ٹیم نے روایتی ماڈلز کی خامیوں پر قابو پانے کے لیے مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی کا سہارا لیا۔ عمومی ماڈلز پہاڑی علاقوں اور تنگ وادیوں میں موسمی تغیرات کو درستگی سے پیش گوئی نہیں کر پاتے اور بارش کے اندازے کو یا تو بڑھا دیتے ہیں یا کم کر دیتے ہیں۔
ماہرین نے دریا کے بہاؤ کے سابقہ اعداد و شمار اور زمینی مشاہدات کو اے آئی کے ذریعے تربیت دی، جس سے ماضی کے انتہائی موسمی واقعات کی درست پیش گوئی ممکن ہوئی۔ اس طریقہ کار سے حاصل ہونے والا ڈیٹا روایتی ماڈلز کے مقابلے میں کہیں زیادہ قابلِ اعتماد ثابت ہوا۔
مستقبل کی پیش گوئیاں
تجزیے سے ظاہر ہوا کہ بالائی دریائے سندھ ہر 15 سال کے قریب شدید سیلاب اور خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے، جبکہ دیگر قریبی دریا تقریباً ہر 11 سال بعد اسی طرح کے شدید حالات کا سامنا کریں گے۔
یہ نتائج حکومتِ پاکستان کے لیے ایک واضح پیغام ہیں کہ ملک میں ہر دریا کے لیے الگ اور مخصوص آبی انتظامی حکمتِ عملی اپنائی جائے، نہ کہ تمام دریاؤں کے لیے یکساں منصوبہ بندی پر انحصار کیا جائے۔
پروفیسر جونگہُن کام (Jonghun Kam) کا کہنا ہے کہ یہ نئی اے آئی ٹیکنالوجی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دیگر موسمیاتی طور پر کمزور اور ڈیٹا سے محروم خطوں کے لیے بھی قابلِ اعتماد موسمیاتی معلومات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
Post Views: 1