Daily Ausaf:
2025-09-25@00:40:48 GMT

کیا جنات مصنوعی ذہانت کو استعمال کر سکتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT

جیسے جیسے مصنوعی ذہانت (AI) حیرت انگیز رفتار سے ترقی کر رہی ہے سوچنے، بولنے، اور ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت حاصل کر رہی ہے جو اکثر انسانی توقعات سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ،روحانی اذہان میں ایک سوال جنم لیتا ہے، کیا جنات جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے، AI کو ایک ذریعہ بنا کر انسانیت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں یا اس سے مقابلہ کر سکتے ہیں؟اگرچہ AI انسان کی تخلیق ہے، جو منطق، ڈیٹا، اور پروگرامنگ پر مبنی ہے، لیکن جنات قدیم، ذہین، اور ناری مخلوق ہیں جو انسان سے پہلے پیدا کئے گئے تھے۔ اگر ان کی صلاحیتیں جسمانی حدود سے ماورا ہیں، تو کیا وہ ڈیجیٹل دنیا میں مداخلت یا تعامل کر سکتے ہیں؟یہ مضمون قرآن، حدیث، کلاسیکی اسلامی اسکالرشپ، اور ٹیکنالوجیکل تجزیے کی روشنی میں اس سوال کا گہرائی سے جائزہ لیتا ہے۔
جنات کون ہیں؟قرآن کریم فرماتا ہےاوراس نے جنات کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔(سورہ الرحمن 55:15) اور جنات کو ہم نے اس سے پہلے تیز آگ سے پیدا کیا۔(سورہ الحجر 15:27)جنات غیبی مخلوق ہیں جو ایک متوازی جہان میں رہتے ہیں۔ان کے پاس عقل، ارادہ، اور نقل و حرکت کی صلاحیت ہے۔ ان میں سے کچھ مومن ہیں(مسلمان جنات) جبکہ کچھ شیطان اور سرکش ہیں۔ابلیس، انسانیت کا سب سے بڑا دشمن، جن ہے وہ جنات میں سے تھا، تو اپنے رب کے حکم سے باہر نکل گیا۔(سورہ الکہف 18:50 )
مصنوعی ذہانت کی نوعیت، انسان کا بنایا ہوا، لیکن طاقتورAIکوئی روحانی مخلوق نہیں، بلکہ انسانوں نے اسے تخلیق کیا اور ڈیٹا پر تربیت دی،یہ برقی توانائی اور الگوردمز پر انحصار کرتی ہے،اس میں شعور یا آزاد ارادہ نہیں، لیکن سیکھنے، ڈھلنے، اور بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے،انسانوں کے ہر شعبہ زندگی میں سرایت کر چکی ہے زبان، فن، فیصلے، سلامتی اور جنگی معاملات مگر سوال یہ ہے، اگر ایک ذہین غیبی مخلوق ایک ذہین مشین سے رابطہ کرے توکیا ہوتا ہے؟ کیا جنات AIاستعمال کرسکتے ہیں؟ نظریاتی طور پر، ہاں،اسلامی روایات سے پتا چلتا ہے کہ جنات،انسان کے دل میں وسوسے ڈال سکتے ہیں (سورہ الناس) اشیا ء کو حرکت دے سکتے ہیں (بلقیس کے تخت کا واقعہ) آسمانی خبریں سننے کی کوشش کرتے ہیں (سورہ الجن 9-72:8)
انسان کے اقوال و افعال پر اثر ڈال سکتے ہیں، بعض اوقات تو قبضہ بھی کر لیتے ہیں اگر جنات انسانی ذہن کو متاثرکر سکتے ہیں، اور مشینیں انسانی ذہن کا تسلسل ہیں، تو یہ ممکن ہے کہ وہ پروگرامرز پر اثرانداز ہوں ڈیجیٹل نظاموں میں خلل ڈالیں،انسان کی روحانی کمزوریوں کے ذریعے ٹیکنالوجی میں وسوسے ڈالیں۔ AI کے ذریعے فریب، جھوٹ، اور انتشار پھیلائیں وہ تمہیں وہاں سےدیکھتے ہیں جہاں سےتم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔(سورہ الاعراف7:27) جیسے وائرس چھپے راستوں سے داخل ہوتے ہیں، ویسے ہی ڈیجیٹل دنیا بھی جناتی مداخلت کے لیے موزوں ہوسکتی ہے۔ انسانوں سے مقابلہ، جنات کا قدیمی حسدابلیس کا اعلان اس دشمنی کو واضح کرتا ہے،میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔(سورہ الاعراف 7:12) ابلیس نے قسم کھائی کہ وہ انسان کو گمراہ کرے گا،میں ضرور تیرے سیدھے راستے پر ان کے لیے بیٹھوں گا۔(سورہ الاعراف 7:16)
آج AIانسانی سچائی کے معیار کو ہی بدل رہی ہے۔ ایسے میں اگر جنات مقابلہ یا غلبہ چاہتے ہوں، تو AI ایک موثرذریعہ بن سکتا ہے۔تصور کریں،جھوٹے پیغامبر جو AIسے پیدا کیے جائیں،جذبات سے خالی مگر انتہائی ذہین نظام جو انسانی حکمت کو بدل دیںAI کے پلیٹ فارمز کے ذریعے جنات وسوسے ڈال کر گمراہی پھیلائیں کیا یہ سب دجال کے فتنوں کا حصہ ہو سکتا ہے؟ صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ علاماتِ وقت، نبی ﷺ کی پیش گوئیاں؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا،قیامت سے پہلے فریب کے سال آئیں گے، سچ بولنے والے کو جھوٹا کہا جائے گا، اور جھوٹے کو سچا سمجھاجائے گا۔(مسنداحمد، صحیح) دجال عجائبات دکھائے گا وہ آسمان سے بارش کا حکم دے گا اور وہ برس جائے گی(صحیح مسلم) بعض علماء کا ماننا ہے کہ یہ فتنہ صرف مافوق الفطرت نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی ہوگا۔ اگر جنات AI کے ساتھ اتحاد کریں، تو یہ گمراہی کی نئی سطح ہو سکتی ہے۔ تحفظ اور روحانی ردعمل اسلام خوف نہیں، ہوشیاری سکھاتا ہے۔ اللہ ہر شے سے برتر ہے،یقینا شیطان کی چال کمزور ہے۔(سورہ النسا 4:76) اللہ پر بھروسا کرو، وہی کافی محافظ ہے۔(سورہ الاحزاب 33:3) روحانی تحفظ کے اقدامات،سورہ الفلق اور سورہ الناس کی روزانہ تلاوت،نماز، ذکراور قرآن سے روحانی مضبوطی AIاور ٹیکنالوجی کا اخلاقی استعمال،خطرناک یا غیبی نوعیت کے AIتجربات سے گریزاختتام، ظاہر و باطن کی سرحدیں دھندلا رہی ہیں AI کوئی جن نہیں، مگر جنات کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔جب انسان اپنی عقل مشینوں کے حوالے کر رہا ہے، اور حق سچائی ڈیٹا کے سمندر میں کھو رہی ہے، تو روحانی بیداری پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ٹیکنالوجی خود برائی نہیں لیکن اگر خدائی نور سے خالی ہو جائے، تو سب سے تاریک ہتھیار بن سکتی ہے۔اے جنات اور انسانوں کے گروہ!اگر تم آسمان و زمین کی حدود سے نکل سکتے ہو تو نکل جائو، مگر قوت کے بغیر نہیں نکل سکو گے۔(سورہ الرحمن 55:33)
ہمیں ہرحال اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور یقین رکھتے ہوئے علم نافع سے مستفید اور فتنوں سے بچنے کے لئےاللہ سے راہنمائی اور حفظ و امان دعا کرتے رہنا چاہئے اور آخری زمانے کے فتنوں اور خاص کر فتنہ دجال سے اللہ کی حفاظت اور امان و پناہ میں رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہئے۔ آنے والےان دنوں اور وقت میں بہت محتاط رہنا اور اللہ پر مکمل توکل رکھنا چاہئے ۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کر سکتے ہیں سے پیدا رہی ہے

پڑھیں:

جگہیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں!

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ

امریکی ادیب W.C.Fields نے گو ئٹے پر اپنی کتاب میں لکھا تھا ْ ”وہ کسی طرح شیکسپیئر سے کم نہیں تھا۔ جو شیکسپیئر جانتا تھا وہ گوئٹے بھی جانتا تھا اس نے اپنے مشاہدات اور تجربات سے سیکھا اور یہ وہ بات ہے جو شیکسپیئر کے سوانح نگا ر اس کی زندگی میں تلاش نہیں کرسکے”۔ 1744 میں اسکا شاہکار نا ولٹSorrows of Werther شائع ہوا۔ اس نا ول کی مقبو لیت اور شہرت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ورتھر کے نام سے یورپ اور جرمنی میں کئی کلب قائم ہوئے۔ نوجوان اس المناک رومانی ناول سے اتنے متا ثر ہوئے کہ خو د کشی کرنے لگے۔ اس ناول نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1775 میں اس کا دوسرا عظیم تخلیقی کارنامہ Gotl Mon Berlichingen شائع ہوتا ہے۔ اس کے اس شاہکارکو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انگر یزی میں اس کا ترجمہ والٹر اسکاٹ نے کیا۔
یہ ہی وہ دور ہے جب اس نے اپنا عظیم ترین تخلیقی شاہکار فاوسٹ لکھنا شروع کیا ۔ فاوسٹ نے اس لا فانی بنا دیا ۔ فاوسٹ کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ فاوسٹ ایک عالم کی حیثیت سے اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہے اور وہ افسردہ ہوجاتاہے اپنی جان لینے کی کوشش کے بعد ،وہ شیطان کو مزید علم اور جادوئی طاقتوں کے لیے پکارتاہے جس سے دنیا کی تمام لذتیں اور علم حاصل کیا جاسکتا ہے جواب میں شیطان کا نمائندہ مسفیٹو فلیس ظاہر ہوتاہے، وہ فاوسٹ کے ساتھ ایک سودا کرتاہے، میفسٹو فلیس اپنی جا دوئی طاقتوں سے فاوسٹ کی کئی سالوں تک خدمت کرے گا لیکن موت کے اختتام پر شیطان فاوسٹ کی روح کا دعویٰ کرے گا اور فاوسٹ ہمیشہ کے لیے اسکاغلام رہے گا۔ گوئٹے کا شیطان انسان کی اناکو بھڑکا تا ہے اور اس وسیلے سے اپنا کام نکالتاہے ۔وہ چاہتا ہے کہ انسان الجھنوں میں گھرا رہے۔ اس میں وہ مسرت محسوس کرتاہے انسان کی سربلندی اسے منظور نہیں ۔ وہ انسان کا سب سے بڑا حریف ہے وہ انسان کو ترغیب دیتاہے کہ وہ دوسروں کی بھلائی اور جذبات کو نظر انداز کرکے لذت دنیاوی میں مصروف رہے۔ جب فاوسٹ ایک جگہ میفسٹو فلیس کو لعنت ملامت کرتاہے تو شیطان کہتاہے ” اے زمین کے لاچار اور بے بس بیٹے! ذرا سوچ تو میرے بغیر تو زندگی کے دن کس طرح گزارتا؟ زندگی کے سو زو ساز اور ذوق و شوق کا سامان کہاں سے لاتا ؟ یاد رکھ اگر میںنہ ہوتا تو اس کرہ ارض پر تیرا وجود نہ ہوتا ۔ تو اسے چھوڑ کر بھاگ چکا ہوتا”۔ دوسر ی طرف فلابیئر نے 1874 میں ناول La Temptation De Saint Antonie لکھا ناول میں Saint Antoine کی آزمائش جسم اور روح کی آزما ئش ہے ۔ شیطان اسے اس طرح مخاطب کرتاہے ” یہاں کوئی مقصد نہیں ۔ صرف نا محدود کا وجود ہے اور بس ۔ عرض تیرے حواس کا دھوکہ ہے اور جو ہرتیرے تخیل کا کر شمہ ہے۔ چونکہ عالم اشیا کے دائمی سیلان کی کیفیت جاری وساری ہے اس لیے یہاں نمود ہی سب سے زیادہ حقیقی اور التبا س ہی واحد حقیقت ہے ”۔ شیطان سینٹ انتواں کو بہکانے میں کامیاب ہو جاتاہے۔ وہ اسے دنیاوی لذتوں میں پھنسا دیتا ہے اور اسے یہ باور کراتاہے کہ یہ ہی اصل اور آفاق گیر زندگی ہے ۔ فاوسٹ اور سینٹ انتو اں دنیا وی آسائشوں اور عیا شیوں، لذتوںکے لیے، ایک اپنی روح شیطان کے ہاتھوں فروخت کر دیتا ہے دوسرا شیطان کے بہکاوے میں پھنس جاتاہے ۔یہ دونوں کہانیاں اتنی سچی ہیں جو صدیوں سے دنیا میں باربار دہرائی جارہی ہے۔ گروڈک یہ کہتے کبھی نہ تھکتا تھا کہ ہم اپنی زندگی نامعلوم اور بے اختیار قوتوں کے اثرات کے تحت بسر کرتے ہیں۔
ہم اگر ملک کی76سالہ تاریخ کا باریکی کے ساتھ معالعہ کریں تو ہم پر یہ وحشت ناک انکشاف ہوگاکہ ہمارے ملک کے با اختیاروں، طاقتوروںاور حکمرانوں کی اکثریت نے یا تواپنی روحیں شیطان کے ہاتھوں فروخت کردیں یا پھر وہ شیطان کے بہکاوے میں آچکے ہیں کیو نکہ جس طرح سے انہوں نے اپنی عیا شیوں ، لذتوں اورآرام کے لیے ملک کے وسائل کو لوٹا اور ملک کے عوام کو جس طرح برباد اور ذلیل و خوار کیا اور کررہے ہیں۔ وہ کوئی سمجھدار ، ذہین ، باکردار انسان نہیں کرسکتا جس کے پاس جتنا بڑا عہد ہ یا رتبہ رہا ہے یا ہے وہ اتنا ہی بڑا بے ایمان اور بد کردار ثابت ہواہے ۔ہمارے ملک کے ہر کرتا دھرتا ، بااختیار اور طاقتور کی قبروں کے کتبے پر یہ ضرور لکھا ہونا چاہیے کہ یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے برے انسان محبت کرتے تھے اور نیک آدمی اس سے ڈرتے تھے اور جس کی بے ایمانی ، کر پشن اور لوٹ مار اور عیاشیوں کی ہمسری ممکن ہی نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام یہ سو چنے پر مجبور ہیں کہ ان میں اور عہد وحشت کے انسانوں کے درمیان ترقی کی رفتار کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے۔ہمارے عہد کے بد کردار اور طاقتور لوگ اپنے عیش وا رام کی خاطر باقی ساروں انسانوں کا چین و سکون ، آرام اور انہیں برباد کرنے پر اسی طرح راضی اور تیار ہوجاتے ہیں جیسا کہ عہد و حشت کے زمانے میں ہوتا تھا۔ ان کی ہوس اور خو اہشیں انسانوں کی نہیں بلکہ دیوئوں کی ہیں۔جو کبھی ختم ہی نہیں ہوپارہی ہیں جو جتنا روپے پیسے ، ہیرے جواہرات ، زمینیں ، جاگیریں جمع کرتے جارہے ہیں ان کی بھوک او ر بڑھتی جارہی ہے ان کی بے چینی اور بے اطمینانی میں اور اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ پوری دنیا میں اس قدر ترقی کے باوجود ہمارے ملک کے شہروں میں آج بھی گندگی ،غلیظ اور قابل نفرت تاریک بستیوں کے ناسور پل رہے ہیں ۔ لوگ صرف ایک روٹی کی خاطر خو د کشیوں پر مجبور ہیں ۔لوگ غربت اور افلاس کی وجہ سے اپنے جسموں کے اعضاء بیچنے پر مجبور ہیں ۔شیطان نہ انہیں چین لینے دے رہاہے اور نہ ہی ہمیں سکون سے زندگی بسر کرنے دے رہاہے۔ چاروں طرف صرف بھوک ہی بھوک ہے ۔
شیکسپیئراپنے ڈرامنے King Lear میں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا، زندگی کی ماہیت کونہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظر نہیں آتی ، جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا۔ نطشے بہت حساس انسان تھا 44 سال کی عمر میں وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ۔ سوانح نگاروں کے مطابق ایک روز وہ اپنے فلیٹ سے نکلا دیکھا کہ ایک شخص اپنے گھوڑے کو بے دردی سے پیٹ رہا ہے۔ نطشے سے یہ دلخراش منظر دیکھا نہ گیا بے خود ہو کر وہ گھوڑے سے لپٹ گیا۔ کوچوان نے گھوڑے کے ساتھ ساتھ نطشے کو بھی پیٹا۔ اس کے بعد وہ 12سال تک زندہ رہا لیکن وہ اپنی عقل و خرد سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ ہمارے ملک کے بااختیار اور طاقتور اتنے بے شرم اور بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں لاکھوں دم توڑ تے لوگ دکھائی نہیں د ے رہے ہیں ۔ایک ایک روٹی کے لیے بھاگتے لوگ ان کی آنکھوں سے اوجھل ہیں ۔ سڑکوں پر ننگے پائوں ، بھوکے پیاسے لوگوں سے کیوں انہوں نے اپنی نظریں چرارکھی ہیں ۔کروڑوں انسانوں کی حالت زار روزانہ ٹی وی ، اخبارات اور سو شل میڈیا پر دکھائی جارہی ہیں ۔ لیکن وہ اندھے ، گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں شیلے اپنی نظم Ozymandias میں لکھتا ہے کہ ہر چیز یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہر چیز کا مقدر فنا ہوجاناہے ۔ یہ کائنا ت کا اصول ہے کہ کوئی چیز ہمیشہ ایک حالت میں نہیں رہتی ،اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ میرے ملک کے بااختیاروں ، طاقتوروں تمہارے پاس بھی اختیار اور طاقت ہمیشہ نہیں رہے گی ۔ جگہیں بدلتی رہتی ہے۔ آج تم آقا ہو اور باقی سب غلام ہیں ۔ لیکن جس روز تم غلام ہوگے اور باقی جب آقاہوں گے تو سو چ لو تمہارے ساتھ کیا حشر کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • اے آئی کے باعث آئندہ جنگیں زیادہ خطرناک ہوسکتی ہیں، خواجہ آصف
  • پاکستان کی فارما صنعت میں مصنوعی ذہانت (AI) کے استعمال کا آغاز
  • بوئنگ اور پیلنٹیئر کا دفاعی پیداوار میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر اشتراک
  • جگہیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں!
  • چین میں انجینئرنگ کا شاہکار‘ مصنوعی ذہانت کی مدد سے ڈیم تیار
  • مصنوعی ذہانت کے نئے قلعے: ہزاروں ڈیٹا سینٹرز تیار، لاگت کتنی؟
  • اے آئی کے بڑھتے استعمال سے دنیا بھر میں لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں: سام آلٹمین کا انتباہ
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی صحت کے شعبے میں انقلابی پیش رفت
  • سائنسدانوں کی جانب سے لیبارٹریوں میں بنائے جانے والے ‘مصنوعی دماغ’ کا حیران کن استعمال کیا ہے؟
  • مصنوعی میٹھے سے یادداشت اور توجہ کو لاحق پوشیدہ خطرات