کیا جنات مصنوعی ذہانت کو استعمال کر سکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
جیسے جیسے مصنوعی ذہانت (AI) حیرت انگیز رفتار سے ترقی کر رہی ہے سوچنے، بولنے، اور ایسے فیصلے کرنے کی صلاحیت حاصل کر رہی ہے جو اکثر انسانی توقعات سے بھی آگے نکل جاتے ہیں ،روحانی اذہان میں ایک سوال جنم لیتا ہے، کیا جنات جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے، AI کو ایک ذریعہ بنا کر انسانیت پر اثرانداز ہو سکتے ہیں یا اس سے مقابلہ کر سکتے ہیں؟اگرچہ AI انسان کی تخلیق ہے، جو منطق، ڈیٹا، اور پروگرامنگ پر مبنی ہے، لیکن جنات قدیم، ذہین، اور ناری مخلوق ہیں جو انسان سے پہلے پیدا کئے گئے تھے۔ اگر ان کی صلاحیتیں جسمانی حدود سے ماورا ہیں، تو کیا وہ ڈیجیٹل دنیا میں مداخلت یا تعامل کر سکتے ہیں؟یہ مضمون قرآن، حدیث، کلاسیکی اسلامی اسکالرشپ، اور ٹیکنالوجیکل تجزیے کی روشنی میں اس سوال کا گہرائی سے جائزہ لیتا ہے۔
جنات کون ہیں؟قرآن کریم فرماتا ہےاوراس نے جنات کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔(سورہ الرحمن 55:15) اور جنات کو ہم نے اس سے پہلے تیز آگ سے پیدا کیا۔(سورہ الحجر 15:27)جنات غیبی مخلوق ہیں جو ایک متوازی جہان میں رہتے ہیں۔ان کے پاس عقل، ارادہ، اور نقل و حرکت کی صلاحیت ہے۔ ان میں سے کچھ مومن ہیں(مسلمان جنات) جبکہ کچھ شیطان اور سرکش ہیں۔ابلیس، انسانیت کا سب سے بڑا دشمن، جن ہے وہ جنات میں سے تھا، تو اپنے رب کے حکم سے باہر نکل گیا۔(سورہ الکہف 18:50 )
مصنوعی ذہانت کی نوعیت، انسان کا بنایا ہوا، لیکن طاقتورAIکوئی روحانی مخلوق نہیں، بلکہ انسانوں نے اسے تخلیق کیا اور ڈیٹا پر تربیت دی،یہ برقی توانائی اور الگوردمز پر انحصار کرتی ہے،اس میں شعور یا آزاد ارادہ نہیں، لیکن سیکھنے، ڈھلنے، اور بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے،انسانوں کے ہر شعبہ زندگی میں سرایت کر چکی ہے زبان، فن، فیصلے، سلامتی اور جنگی معاملات مگر سوال یہ ہے، اگر ایک ذہین غیبی مخلوق ایک ذہین مشین سے رابطہ کرے توکیا ہوتا ہے؟ کیا جنات AIاستعمال کرسکتے ہیں؟ نظریاتی طور پر، ہاں،اسلامی روایات سے پتا چلتا ہے کہ جنات،انسان کے دل میں وسوسے ڈال سکتے ہیں (سورہ الناس) اشیا ء کو حرکت دے سکتے ہیں (بلقیس کے تخت کا واقعہ) آسمانی خبریں سننے کی کوشش کرتے ہیں (سورہ الجن 9-72:8)
انسان کے اقوال و افعال پر اثر ڈال سکتے ہیں، بعض اوقات تو قبضہ بھی کر لیتے ہیں اگر جنات انسانی ذہن کو متاثرکر سکتے ہیں، اور مشینیں انسانی ذہن کا تسلسل ہیں، تو یہ ممکن ہے کہ وہ پروگرامرز پر اثرانداز ہوں ڈیجیٹل نظاموں میں خلل ڈالیں،انسان کی روحانی کمزوریوں کے ذریعے ٹیکنالوجی میں وسوسے ڈالیں۔ AI کے ذریعے فریب، جھوٹ، اور انتشار پھیلائیں وہ تمہیں وہاں سےدیکھتے ہیں جہاں سےتم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔(سورہ الاعراف7:27) جیسے وائرس چھپے راستوں سے داخل ہوتے ہیں، ویسے ہی ڈیجیٹل دنیا بھی جناتی مداخلت کے لیے موزوں ہوسکتی ہے۔ انسانوں سے مقابلہ، جنات کا قدیمی حسدابلیس کا اعلان اس دشمنی کو واضح کرتا ہے،میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔(سورہ الاعراف 7:12) ابلیس نے قسم کھائی کہ وہ انسان کو گمراہ کرے گا،میں ضرور تیرے سیدھے راستے پر ان کے لیے بیٹھوں گا۔(سورہ الاعراف 7:16)
آج AIانسانی سچائی کے معیار کو ہی بدل رہی ہے۔ ایسے میں اگر جنات مقابلہ یا غلبہ چاہتے ہوں، تو AI ایک موثرذریعہ بن سکتا ہے۔تصور کریں،جھوٹے پیغامبر جو AIسے پیدا کیے جائیں،جذبات سے خالی مگر انتہائی ذہین نظام جو انسانی حکمت کو بدل دیںAI کے پلیٹ فارمز کے ذریعے جنات وسوسے ڈال کر گمراہی پھیلائیں کیا یہ سب دجال کے فتنوں کا حصہ ہو سکتا ہے؟ صرف اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ علاماتِ وقت، نبی ﷺ کی پیش گوئیاں؟نبی کریم ﷺ نے فرمایا،قیامت سے پہلے فریب کے سال آئیں گے، سچ بولنے والے کو جھوٹا کہا جائے گا، اور جھوٹے کو سچا سمجھاجائے گا۔(مسنداحمد، صحیح) دجال عجائبات دکھائے گا وہ آسمان سے بارش کا حکم دے گا اور وہ برس جائے گی(صحیح مسلم) بعض علماء کا ماننا ہے کہ یہ فتنہ صرف مافوق الفطرت نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی ہوگا۔ اگر جنات AI کے ساتھ اتحاد کریں، تو یہ گمراہی کی نئی سطح ہو سکتی ہے۔ تحفظ اور روحانی ردعمل اسلام خوف نہیں، ہوشیاری سکھاتا ہے۔ اللہ ہر شے سے برتر ہے،یقینا شیطان کی چال کمزور ہے۔(سورہ النسا 4:76) اللہ پر بھروسا کرو، وہی کافی محافظ ہے۔(سورہ الاحزاب 33:3) روحانی تحفظ کے اقدامات،سورہ الفلق اور سورہ الناس کی روزانہ تلاوت،نماز، ذکراور قرآن سے روحانی مضبوطی AIاور ٹیکنالوجی کا اخلاقی استعمال،خطرناک یا غیبی نوعیت کے AIتجربات سے گریزاختتام، ظاہر و باطن کی سرحدیں دھندلا رہی ہیں AI کوئی جن نہیں، مگر جنات کا ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔جب انسان اپنی عقل مشینوں کے حوالے کر رہا ہے، اور حق سچائی ڈیٹا کے سمندر میں کھو رہی ہے، تو روحانی بیداری پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ٹیکنالوجی خود برائی نہیں لیکن اگر خدائی نور سے خالی ہو جائے، تو سب سے تاریک ہتھیار بن سکتی ہے۔اے جنات اور انسانوں کے گروہ!اگر تم آسمان و زمین کی حدود سے نکل سکتے ہو تو نکل جائو، مگر قوت کے بغیر نہیں نکل سکو گے۔(سورہ الرحمن 55:33)
ہمیں ہرحال اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور یقین رکھتے ہوئے علم نافع سے مستفید اور فتنوں سے بچنے کے لئےاللہ سے راہنمائی اور حفظ و امان دعا کرتے رہنا چاہئے اور آخری زمانے کے فتنوں اور خاص کر فتنہ دجال سے اللہ کی حفاظت اور امان و پناہ میں رہنے کی دعا کرتے رہنا چاہئے۔ آنے والےان دنوں اور وقت میں بہت محتاط رہنا اور اللہ پر مکمل توکل رکھنا چاہئے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کر سکتے ہیں سے پیدا رہی ہے
پڑھیں:
شریک جرم ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی جان قربان کردے، شوکت صدیقی
— فائل فوٹواسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ شریک جرم ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی جان قربان کردے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ راولپنڈی بار سے خطاب کے بعد جو واقعہ ہوا اس پر اکثر لوگوں نے کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا۔
سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ لوگوں نے کہا کہ آپ نے تو چیف جسٹس بننا تھا، شریک جرم بن کر آپ کتنا ہی اختیار پالیں یا دولت اکٹھی کرلیں، آخر میں پچھتائیں گے کہ مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خواہش تھی کہ ہائیکورٹ بار میں آؤں، 30 ستمبر 2018 میں آخری مرتبہ بار آیا تھا، بار کا مقروض ہوں کہ مشکل وقت میں میرے ساتھ کھڑی ہوئی۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی موجودہ بلڈنگ جس جگہ پر ہے وہ 2012 میں ہم نے لی، چیئرمین سی ڈی اے کو کہا ہمیں ہائیکورٹ کے لیے مجوزہ جگہیں دکھائیں، چیئرمین سی ڈی اے کو کہا کہ بورڈ میٹنگ میں ڈسکس کریں اور تمام چیزیں لے کر آئیں۔
شوکت صدیقی نے کہا کہ چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ یہ جگہ ایسی ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اس پر کسی اور کی نظر نا ہو، میں چاہ رہا تھا کہ تمام چیزیں دستاویزات کے ساتھ ریکارڈ پر آ جائیں، بلڈنگ کے ڈیزائن سے متعلق کمپیٹیشن کرایا جس میں سیکڑوں آرکیٹیکس نے حصہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک تھیم لے کر چل رہے تھے کہ روشن اور ہوادار ماحول ہوگا مگر ایسا نہیں ہوسکا، یہ بلڈنگ نومبر 2015 میں مکمل ہونا تھی، کنٹریکٹ تبدیل ہونے پر پراجیکٹ 5 سال لیٹ ہو جائے گا، یہاں پر صرف انصاف ہوگا اور سب کے لیے برابر ہوگا۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہے، فیڈرل ہائی کورٹ نہیں، میرا مؤقف ہے کہ یہاں پر ججز کی تعیناتیاں اسلام آباد سے ہونی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ این آئی آر سی کے 6 میں سے 5 بینچز کو ویڈیو لنک کے ساتھ منسلک کردیا ہے، وکلا اب اپنے شہروں میں رہ کر ویڈیو لنک پر دلائل دے دیتے ہیں، ٹی اے ڈی اے کی مد میں بچنے والی رقم کو ملازمین پر خرچ کیا جارہا ہے، صرف پشاور کا بینچ ابھی فی الحال ویڈیو لنک سے منسلک نہیں ہوا۔