فلسطینیوں کی کسی بھی جبری بے دخلی کی ہرگزحمایت نہیں کریں گے ، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 مئی2025ء) اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کی ترجمان اولگا چیرفکو نے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کے لیے راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ اقوامِ متحدہ، غزہ کے شہریوں کی جبری بے دخلی کے کسی منصوبے کی حمایت نہیں کرتی۔العربیہ اردو کے مطابق انہوں نے کہا کہ ہم نے واضح کر دیا ہے کہ ہم غزہ کے شہریوں کی جبری بے دخلی کے مخالف ہیں ، اقوامِ متحدہ فلسطینیوں کی کسی بھی جبری نقل مکانی کی حمایت نہیں کرے گی۔
(جاری ہے)
غزہ میں انسانی امداد کی تقسیم کے لیے نئے امریکی منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے اولگا چیرفکو نے کہا کہ انسانی امداد کی ترسیل سے متعلق تمام منصوبے انسانی اصولوں، غیر جانب داری اور منصفانہ تقسیم کے تقاضوں کے مطابق ہونے چاہئیں تاکہ یہ امداد ان لوگوں تک پہنچے جو واقعی اس کے مستحق ہیں، بغیر اس کے کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو۔ انھوں نے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے اور شہریوں کو امداد تک رسائی دینے کا مطالبہ بھی کیا۔ترجمان کا کہنا تھا کہ غزہ میں انسانی ضروریات سنگین حد تک بڑھ چکی ہیں اور واضح کیا کہ پورے غزہ کے باشندے خوراک کے محتاج ہیں اور غذائی قلت کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
اقوامِ متحدہ، جنرل اسمبلی میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور
نیویارک:اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، جس میں انسانی امداد تک رسائی کو بھی یقینی بنانے کی اپیل کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل امریکا نے گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل میں اسی نوعیت کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔
193 رکنی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی اس قرارداد کے حق میں پاکستان سمیت 149 ممالک نے ووٹ دیے، جب کہ 19 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ امریکہ، اسرائیل اور 10 دیگر ممالک نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
قرارداد میں زور دیا گیا ہے کہ شہریوں کو بھوکا رکھنا جنگی حربے کے طور پر قابل مذمت ہے اور انسانی امداد تک غیر قانونی رکاوٹیں، یا شہریوں کو بقا کے لیے لازمی اشیاء سے محروم رکھنا ناقابل قبول ہے۔
اس میں حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے افراد کی فوری رہائی، اسرائیل میں قید فلسطینی قیدیوں کی واپسی اور غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر دینی ڈینن نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اس قرارداد کو خونی بہتان قرار دیا اور رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اس تماشے کا حصہ نہ بنیں۔
ان کے بقول یرغمالیوں کی رہائی کو جنگ بندی سے مشروط نہ کرنا دنیا بھر کی دہشت گرد تنظیموں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ شہریوں کو اغوا کرنا کارگر ثابت ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں قانونی طور پر پابند نہیں ہوتیں، مگر وہ دنیا بھر کے رائے عامہ کی عکاسی ضرور کرتی ہیں۔
اس سے قبل بھی جنرل اسمبلی نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مطالبے کیے تھے، جنہیں نظرانداز کیا گیا۔
اقوام متحدہ میں لیبیا کے سفیر طاہر السنّی نے ووٹنگ سے قبل کہا کہ جو ممالک آج اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیں گے ان کی انگلیوں پر خون کا دھبہ ہوگا۔
امریکہ نے گزشتہ ہفتے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی اسی طرح کی قرارداد کو یہ کہہ کر ویٹو کر دیا تھا کہ یہ امریکی قیادت میں جاری جنگ بندی مذاکرات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
پاکستان نے اپنے اصولی مؤقف کو برقرار رکھتے ہوئے اس قرارداد کی حمایت کی اور اس کے حق میں ووٹ دیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان نے جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر فلسطینی عوام سے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ قرارداد محض خواہشات کا اظہار نہیں بلکہ بین الاقوامی برادری کی اجتماعی قانونی و اخلاقی ذمہ داریوں کا اعتراف ہے۔
پاکستان فلسطینی عوام کے وقار، حقِ خود ارادیت اور انصاف کے لیے اُس وقت تک کھڑا رہے گا جب تک ان کے ناقابلِ تنسیخ حقوق کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار، آزاد اور متحد فلسطینی ریاست، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، قائم نہیں ہو جاتی۔