اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی خیانت ہے، نبیہ بیری
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
عرب اخبار سے اپنی ایک گفتگو میں لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر کا کہنا تھا کہ صیہونی رژیم جنگبندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 6 مہینوں سے بقاع فارمز، سرحدی و جنوبی علاقوں اور شام کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنائے ہوئے ہے لیکن حزب الله نے جنگبندی کے معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ اسلام ٹائمز۔ لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر "نبیہ بیری" نے کہا کہ صیہونی رژیم، بیروت میں اپنی جارحیت کے ذریعے ایسی صورت حال پیدا کرنا چاہتی ہے جس سے وہ اپنی برتری کا اظہار کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اپنے حملوں کو وسعت دے کر لبنان کو تل ابیب سے تعلقات کی بحالی کی جانب لانا چاہتا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی ایک خیانت ہے۔ ہم جنگ بندی کے پابند ہیں۔ اس مرحلے پر ہمارا اسلحہ صبر ہے۔ ہم اپنے صبر کے ذریعے دشمن سے لڑیں گے۔ قبل ازیں لبنانی پارلیمنٹ کے سپیکر نے الشرق الاوسط اخبار سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیل ہمیں سیاسی مذاکرات کے ذریعے تعلقات بحال کرنے کے موضوع پر لانا چاہتا ہے تاہم ہم اسرائیل سے قطعاََ تعلقات بحال نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے معاہدے کو بین الاقوامی اور عرب حمایت حاصل ہے۔ نیز اقوام متحدہ نے بھی اس کی منظوری دی۔ ہم نے اسے مکمل طور پر نافذ کیا اور اس پر عمل پیرا ہیں لیکن اسرائیل اس پر عمل درآمد سے گریزاں ہے اور اسے دور پھینکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
نبیہ بیری نے کہا کہ لبنانی فوج دریائے لیطانیہ میں اپنے ذمے داری کو ادا کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اسرائیل، لبنان کے بعض علاقوں سے نہیں نکل رہا جس کی وجہ سے ہماری فوج کے ساتھ ساتھ یونیفل کے نام سے معروف اقوام متحدہ کے امن دستوں کو لبنانی بین الاقوامی سرحد پر تعیناتی میں دشواری پش آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "حزب الله" جنگ بندی کی پابندی کر رہی ہے اور دریائے لیطانیہ سے بھی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی رژیم جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 6 مہینوں سے بقاع فارمز، سرحدی و جنوبی علاقوں اور شام کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنائے ہوئے ہے لیکن حزب الله نے جنگ بندی کے معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے ایک گولی بھی نہیں چلائی۔ حزب الله نے اسرائیلی خلاف ورزیوں کا کوئی جواب نہیں دیا اور ابھی تک تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ جنگ بندی کے مکمل اجراء کے لئے حزب الله اب بھی حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ نبیہ بیری نے زور دے کر کہا کہ امریکہ نے جس معاہدے پر عمل در آمد کا وعدہ کیا تھا اس میں صیہونی فوج کا انخلاء، لبنانی فوج کی جنوبی علاقوں میں تعیناتی اور لبنانی قیدیوں کی رہائی شامل تھی لیکن صیہونی فوج اب بھی لبنان کے بعض علاقوں پر قابض ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے کرتے ہوئے نبیہ بیری حزب الله ہے لیکن
پڑھیں:
ٹرمپ کا تمام مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر ابراہیمی معاہدے میں شامل ہونے پر زور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اگست 2025ء) امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر جون میں امریکی حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے جمعرات کو مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کریں۔
ٹرمپ نے کہا، ’’اب جبکہ ایران کا تیار کردہ جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے، میرے لیے یہ بہت اہم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک ابراہیمی معاہدے میں شامل ہوں۔
‘‘انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں مزید لکھا،’’یہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کو یقینی بنائے گا۔ اس معاملے پر توجہ دینے کا شکریہ!‘‘
ابراہیمی معاہدے، جو ٹرمپ کے پہلے صدارتی دور میں طے پائے تھے، کے تحت چار مسلم اکثریتی ممالک نے امریکی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔
(جاری ہے)
ان معاہدوں کو وسعت دینے کی کوششیں غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے پیچیدہ ہو گئی ہیں۔
ٹرمپ نے 2020 میں اسرائیل اور عرب ریاستوں، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش، کے درمیان باضابطہ تعلقات کے متعدد معاہدے طے کرائے تھے، جنہیں ابراہیمی معاہدہ کہا جاتا ہے۔
ابراہیمی معاہدے کو وسعت دینے کی راہ میں رکاوٹیںگزشتہ برسوں میں ابراہیمی معاہدے کو، خاص طور پر سعودی عرب پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے، وسعت دینے کی امریکی کوششیں ناکام رہی ہیں۔
سعودی عرب کے اعلیٰ حکام بارہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ ریاض 2002 کی عرب امن منصوبے کے موقف پر کاربند ہے، جو فلسطینی ریاست کے قیام کے بعد ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط رکھتی ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔
تاہم اب ٹرمپ نے عرب-اسرائیل تعلقات کو ایران کے جوہری پروگرام اور ایران و اسرائیل کے درمیان بارہ روزہ لڑائی سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔
اس لڑائی کے دوران امریکہ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کیے تھے۔جون میں اسرائیل کے ایران پر حملوں، جن میں ایرانی اعلیٰ فوجی حکام، جوہری سائنسدانوں اور سینکڑوں شہریوں کی ہلاکت ہوئی، کی عرب ممالک نے شدید مذمت کی تھی۔
فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے مطالبات میں شدتیہ واضح نہیں کہ ٹرمپ نے عرب-اسرائیلی تعلقات کی بحالی کی نئی اپیل کیوں کی، لیکن ان کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عرب ممالک کی حمایت سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے عالمی سطح پر نئی مہم شروع ہو چکی ہے، جسے واشنگٹن مسترد کر رہا ہے۔
کینیڈا، فرانس اور برطانیہ نے حالیہ دنوں میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق، ٹرمپ کی انتظامیہ آذربائیجان اور کچھ وسطی ایشیائی اتحادیوں کو ابراہیم معاہدوں میں شامل کرنے پر بھی بات چیت کر رہی ہے، تاکہ اسرائیل کے ساتھ ان کے موجودہ تعلقات کو مزید گہرا کیا جا سکے۔
مئی میں خلیجی ممالک کے دورے کے دوران ٹرمپ نے عرب-اسرائیلی تعلقات کو نسبتاً کم اہمیت دی تھی، اور کہا تھا کہ میرا خواب ہے کہ سعودی عرب اسرائیل سے باضابطہ تعلقات قائم کرے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ یہ فیصلہ وہ اپنے وقت پر کرے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگرچہ ابراہیمی معاہدے نے اس میں شامل ممالک کے درمیان تجارت اور سکیورٹی کے تعلقات کو فروغ دیا، لیکن یہ اسرائیل-فلسطین تنازعے کو ختم کرنے یا اس میں نرمی لانے میں ناکام رہے۔
ادارت: صلاح الدین زین